ارض پاک کو اﷲ تعالیٰ نے دنیا ئے
جہان کی ہر نعمت سے نوازا ہے سوائے ایک صالح اور ایماندار قیادت کے کہ جس
کے دل میں اس عوام کیلئے حقیقی درد پنہاں ہو جس نے بیشمار قربانیاں اس الگ
مملکتِ خداد ادکیلئے دیں حکمرانوں کی اسی بے نیازی کی وجہ ہی ہے کہ پاکستان
میں نہ تو کالاباغ ڈیم بن سکا کہ اس پر ہمارے یہ نام نہاد سیاسی زعماء کبھی
متفق نہ ہوسکے مگر اس سیاسی روش نے عوام کو اندھیروں میں دھکیلا ہوا ہے اور
نہ ہی کبھی ہم تمام وسائل کے باوجودملک سے غربت ،مہنگائی اور بیروزگاری ختم
کرسکے کیوں کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کی خدمت کی بجائے سیاست کو باقاعدہ
ایک کاروبار کی شکل دے دی ہے جس میں کروڑوں کی انویسٹمنٹ کرکے اربوں بنائے
جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اقتدار کے حصول اور پھر اس کو دوام دینے
کیلئے اور پھر اقتدار سے جانے کے بعد کی عیش و عشرت اور مراعات کیلئے
توراتوں رات قانون بنالیتے ہیں مگر اس اشرافیہ نے اس طرح عجلت میں کبھی
کوئی ایک بھی ایسا بل اسمبلی میں پیش نہیں کیا جس کا اس عوام براہ راست
فائدہ ہو جو ان لوگوں کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے اقتدار کے سنگھاسن پر
بٹھاتی ہے قصہ مختصر یہ کہ اگر تمام حکمران اپنے تعصبات ،ذاتی مفادات اور
ہوسِ اقتدارسے بالاتر ہوکر سوچتے اور اجتماعی قومی مفاد کو سامنے رکھتے
توآج پاکستان بھی یقیناََ اس صف میں کھڑا ہوتاجہاں ہمارے ساتھ آزاد ہونے
والے چین اور بھارت کھڑے ہیں ۔ ہاں مگر ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آنے والا ہر
حکمران اقتدار کے حصول کیلئے جو نعرہ لے کر اٹھا وہ عوام اور اسلام ہی تھا
مگر کرسی ء اقتدارپربراجمان ہوتے ہی اس نے عوام سے نظریں پھر لیں ۔اس دوران
کئی بار عوام میں متعدد بار یہ شعور اجاگر ہوا کہ اس نظام کو بدلا جائے مگر
یہ نعرہ لے کر اٹھنے والے بھی آخر کار عوام کو بیچ منجھدھار چھوڑ کراسی
کرپٹ سسٹم کا حصہ بن گئے اور بیچاری عوام ایک بار پھر کسی مسیحا کے انتظار
میں لگ گئی اس سلسلے میں عوام کو تازہ ترین مسیحا ڈاکٹر طاہرالقادری کی شکل
میں ملا ڈاکٹر صاحب چوں کہ ایک مذہبی سکالر بھی ہیں ،بلا کے ذہین اور غضب
کے مقرر ہیں اور دنیا بھر میں ان کے چاہنے والے اور پیروکار بھی موجود ہیں
اور یہ لوگ ڈاکٹر صاحب کے اس قدر عقیدت مند ہیں کہ ان کے ٹشو پیپرز تک کو
بھی تبرک سمجھتے ہیں اور ان کو بھی نیچے نہیں گرنے دیتے یہی وہ چیزیں تھیں
جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کو انقلابی تحریک چلانے پر آمادہ کیا اور غریب عوام یہ
سمجھ کر کہ ڈاکٹر صاحب نے ہر شخص کو مفت تعلیم،علاج ،رہائش دینے اور غربت
مہنگائی اور بیروزگاری کے عفریت کے خاتمے کا جو خواب انکودکھایاہے وہ پورا
ہوکررہے گا لوگ پورے جوش و خروش کیساتھ اس دھرنے میں شامل ہوئے کہ اب بہت
جلد وہ وقت آنے والا ہے انہیں قائد اور اقبال کا حقیقی پاکستان واپس ملنے
والا ہے اور اس کا انہیں ڈاکٹر صاحب متعدد بار یقین بھی دلاتے رہے کہ یہ
دھرنا اسمبلیوں کے خاتمے،اس کرپٹ اوربدبودارنظام کے سمٹنے اور میاں برادران
کی گرفتاری سے پہلے ہرگز ختم نہیں ہوگا ڈاکٹر صاحب تو یہ بھی فرما چکے تھے
کہ اگر تم سب بھی مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ گے تو تاجدار مدینہ ﷺکی قسم میں
ہرگزیہاں سے اٹھ کر نہیں جاؤں گا اور اس سے قبل ڈاکٹر صاحب یہ بھی فرما چکے
تھے کہ انقلاب کے آنے سے پہلے مجھ سمیت جوبھی واپس آئے اسے بھی شہید کردیا
جائے ۔ان تمام تر دعووں،وعدوں اور قسموں کے باوجود گزشتہ ہفتے جب ڈاکٹر
صاحب نے دھرنے کے شرکاء کو سامان لپیٹ کر گھروں کو واپس جانے کا حکم دے دیا
تو ان کے پیروکار تک انگشت بدنداں رہ گئے ہر ایک کے ذہن میں کئی طرح کے
سوالات نے جنم لیا جن میں سے اہم ترین یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے تو ہمیں فتح
یا شہادت کا مژدہ سنایا تھا مگر اب جب کہ حکومت بھی وہی ہے اور نظام بھی ،نہ
شریف برادارن گئے ہیں اور نہ ہی غریبوں کیلئے اچھے دن آئے ہیں غریبوں کو
علاج ،تعلیم اور مفت رہائش کے سبز باغ تو خوب دکھائے گئے مگر حقیقت میں
انہیں واپسی کا کرایہ تک بھی نہ دیا گیا۔عوام یہ بھی پوچھنے میں حق بجانب
ہیں کہ ٹھیک ہے احتجاج کرنا ہرایک کا حق ہے مگر دوماہ تک پورے ملک کو بند
کرنے اور اس کی معیشت پر کاری وار کرنے کا حق کس نے قادری صاحب کو دیا اور
اس معاشی نقصان کو کون پورا کرے گا جس سے ایک عام آدمی براہ راست متاثر ہوا
ہے۔ڈاکٹر طاہرالقادری سے پاکستان کے مسلمان یہ بھی پوچھتے ہیں کہ انہوں نے
اپنے انقلاب کو نام تو مصطفوی انقلاب کا دیا تھا مگر انہوں نے ملک سے مدارس
کو ختم کرکے سیکولر سکولزسسٹم کو رائج کرنے کا بیان دے کر کن کو خوش کرنے
کی ناکام کوشش کی تھی ؟ ڈاکٹر صاحب نے اس دھرنے کے دوران جو کچھ فرمایا اور
آخر میں جو کچھ کیا اس سے ان کے اپنے ترجمان بھی منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور
کسی کی جانب سے بھی دھرنے کے خاتمے کے سلسلے میں کوئی تسلی بخش جواب سامنے
نہیں آیااور کوئی جواب دے بھی نہیں سکتا کہ ہم لوگ ہر بات کی کوئی نہ کوئی
تاویل و دلیل سامنے لے آتے ہیں مگر جب کوئی بندہ یہ کہے کہ تاجدار مدینہ کی
قسم میں واپس نہیں جاؤں گا تو اس تضادبیانی اور دوعملی کا کوئی بھی دفاع
نہیں کرسکتاہاں ممکن ہے کل ان کاکوئی ترجمان یہ کہے کہ ایسی باتیں تو مجمعے
کو چارج کرنے اور ہمدردی حاصل کرنے کیلئے کی جاتی ہیں تو پھر یہ لوگ شریف
برادران کو کس منہ سے یہ کہہ کر رگیدتے ہیں کہ انہوں نے عوام سے جھوٹے وعدے
کئے تو پھر ان کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ بھی اسی طرح سیاسی ڈائیلاگ تھے
جیسا کہ قادری صاحب دوماہ تک بولتے رہے اور تو اور جس نظام کے خلاف ڈاکٹر
صاحب نے دوماہ سے زیادہ عرصہ دھرنا دیا اب اسی نظام کے تحت جناب نے
انتخابات میں حصہ لینے کا بھی اعلان فرمادیا ہے اور اب آخری اطلاعات یہ ہیں
کہ ڈاکٹر صاحب نے بیرون ملک جانے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے جس سے ان خبروں کو
تقویت ملتی ہے جس کے مطابق ڈاکٹر صاحب نے ایک ڈیل کے تحت یہ دھرنا ختم کیا
ہے جس میں ان کا چنددنوں میں ملک سے باہر جانا اور حکومت اور قادری صاحب کا
ایک دوسرے کے خلاف کیس ختم کرنا شامل ہے۔اﷲ ہمارے ملک پر رحم کرے اور اس
قوم پر بھی جو قادری صاحب سے مایوس ہوکر کسی نئے مسیحا سے دھوکہ کھانے کی
تیاری کررہی ہے۔\ |