یہ ہے انصاف؟
(Maham Farrukh, Rawalpindi)
حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کے عدل کی یہ حالت تھی کہ آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دوردراز
علاقے کا چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا لوگو ! حضرت عمر رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ لوگوں نے حیرت سے پوچھا " تم مدینہ سے
ہزاروں میل دور جنگل میں ہو ۔تمہیں اس سانحہ کے اطلاع کس نے دی۔تو چرواہا
بولا جب تک حضرت عمر فاروق زندہ تھے۔میری بھڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی
تھیں۔اور کوئئ درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتا تھا۔لیکن آج پہلی
بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ اٹھا کر لے گیا ہے۔تو میں نے اس کی جرات سے جان
لیا کہ آج دنیا میں حضرت عمر فاروق موجود نہیں ہیں۔
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے جیسے انصاف حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات
کے ساتھ ہی دنیا سے ختم ہو گیا تھا۔ خیر دنیا کا کیا کہنا اگر ہم صرف اپنے
ملک کے حالات کا جائزہ لیں تو کسی بھی شعبہ میں عام آدمی کوانصاف ملتا
دکھائئ نہیں دیتا۔ اگر آج ہم ایک اسلامی مملکت ہونے کے تحت ملک میں اسلامی
قوانین رائج کریں ہر جرم کرنے والے کو یس کے جرم کی سزا ملے ، ہر خاص و عام
کے درمیان عدل و انصاف کیا جائے تو امید ہے کہ نیا پاکستان بنانے کی ضرورت
ہی محسوس نہ ہو۔ اگر آج ہم حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زندگی کے
چند واقعات کا موازنہ موجودہ حکمرانوں کے عدل و انصاف سے کریں تو معلوم ہو
گا کہ آج کے دور کے مسائل محض حکمرانوں کے غیر منصفانہ رویے کا نتیجہ ہیں-
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وہ پاک ہستی ہیں جنہوں نے انصاف کا دامن مضبوطی
سے تھاما اور انصاف کرتے ہوئے ہر خاص و عام کو برابر سمجھا چاہے وہ ان کی
اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ ایک بار حضرت عمر کے بیٹے شراب پی کر آئے تو قانون کے
مطابق آپ نے اپنے بیٹے کو سو کوڑے مارنے کا حکم دیا 80 کوڑے کھانےپر وہ
وفات پا گئے تو آپ نے حکم دیا کے باقی 20 کوڑے ان کی لاش کو مارے جائیں۔ یہ
یے انصاف مگر آج ہم اپنے ملک کے حالات کا جائزہ لیں تو عام آدمی تو کیڑوں
مکوڑوں کی مانند ہیں جن کا کام صرف ظلم سہنا ہے۔جیسا کہ شاہ زیب قتل کیس کا
فیصلہ ۔آخر شاہ زیب کو کس جرم کی سزا ملی؟ اور جرم کرنے والے آج بھی
دندناتے پھر رہے ہیں مگر انھیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے۔کیا ان کی نظر
میں عام آدمی کی ذندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ ہمارے حکمران عام آدمی اور
اپنی اولاد کے درمیان ایک جیسا سلوک کیوں نہیں کر سکتے؟
18ھ میں عرب میں قحط پڑا تو حضرت عمر نے بیت المال میں موجود تمام مال
لوگوں میں تقسیم کر دیا اور قحط کے دوران گوشت گھی اور دیگر مرغوب غذائیں
ترک کر دیں۔ اپنے بیٹے کے ہاتھ میں خربوزہ دیکھ کر خفا ہوئے کہ قوم فاقہ
مست ہے اور تو تفقہات سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔غرض جب تک قحط رہا آپ نے ہر
قسم کے عیش و عشرت سے اجتناب رکھا۔آج تھر میں قحط کے باعث لاکھوں لوگ جا ن
سے ہاتھ دھو بیٹے ہیں۔ مگر ہمارے حکمران عیش و عشرت میں مشغول عواپ کے
مسائل سے بے خبر بیٹھے ہیں۔اور اگر وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ متاثرین
کی امداد کی خاطر تھر پہنچے تو ایک متاثرہ خاتون کو ایک ہزار روپے دے کر
تمام متاثرین میں تقسیم کرنے کا حکم دیا ۔جبکہ وزیر اعلیٰ کے سفر کے
انتظامات پر کروڑوں روپے خرچ کئے گئے تھے۔کیا ہے انصاف؟
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر میرے دورے حکومت میں ایک پیاسا
کتا بھی فراق کے کنارے مر گیا تو روز قیامت میری پکڑ ہو گی۔مگر آج حکمرانوں
کی نظر میں کسے کی جان کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ روزینہ سینکڑوں لوگوں کا
بھوک سے تنگ آکر خودکشی کرنا ، مفلسی سے ستائے لوگوں کا اپنی اولاد کو کوڑے
کے ڈھیر پر پھینک دینا تو کہیں ہزاروں لوگوں کا دہشت گردی کی نظر ہو جانا
یہ سب معمول بن چکا ہے تو کیا ہمارے حکمران خدا کو جواب دہ نہ ہوں گے؟ اس
غریب ملک میں جہاں لوگوں کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں ہے وہاں عوام کے
ٹیکس پر پلنے والے حکمرانوں کا سابقہ صدر کی آمد پر ستر کھانے بنانا کیا
جائز ہے؟کیا روز قیامت ان کی پکڑ نہ ہو گی؟
ایک دفعہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیمار ہوئے تو تجویز پیش کی گئی کہ
بیماری کا علاج شہد سے کیا جائے ۔ گھر میں شہد موجود نہ تھا مگر بیت المال
میں ایک خاص قسم کا شہد موجود تھا ۔ آپ نے مسجد نبوی میں لوگوں سے اجازت
طلب کی کہ کیا میں یہ شہد استعمال کر سکتا ہوں ؟ اور پھر لوگوں سے اجازت
ملنے کے بعد شہد استعمال کیا گیا ۔یہ ہے عوام کے پیسے کا صحیح استعمال ۔
لیکن آج عوام سے لئے جانے والا ٹیکس کہاں استعمال ہو رہا ہے، ملکی خزانہ
کہاں جا رہا ہے ؟ ملک میں کروڑوں اربوں روپے کے کرپشن ہونے کے بعد بھے عوام
خاموش ہیں۔ کیا عوام پر کئے جانے والے ظلم کا حساب روز قیامت ان ظالم
حکمرانون سے نہ لیا جائے گا۔ اگر آج یہ حکمران اس حقیقت کو تسلیم کر لیں تو
امید ہے کہ چند ہی دنوں میں ملکی حالات بہتر ھو جائیں گے۔
جیسا کہ آج یورپی ممالک اسلام کے سنہری اصول و قوانین پر عمل پیرا ہو کر
ترقی کی منازل پر رواں دواں ہیں۔ اسلام کے دائرے سے باہر ہوتے ہوئے بھی
یورپی ممالک "عمرلاء" کو بطور قانون اپنے ملک میں رائج کیئے ہوئے ہیں۔ یہی
وجہ ہے کہ ہمسایہ ممالک ترقی کی راہ میں ہم سے دو قدم آگے ہیں۔ اگر غیر
مسلم ممالک اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں تو ہم اسلامی ریاست ہوتے
ہوئے بھی اس ورثے کو اپنانے سے کیوں محروم ہیں؟اگر ہم عدل و انصاف ، دولت
کی منصفانہ تقسیم،مساوات، بھائی چارہ ان سب اصولوں پر عمل درآمد کریں اور
انصاف کا دامن مضبوطی سے تھام لیں، ہر شخص اپنے عہدے سے وفاداری کا ثبوت
پیش کرنے لگے تو ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں اور
ملک و قوم کے م،ستقبل کے ساتھ ساتھ اپنی عاقبت کو بھی سنوار سکتے ہیں۔
اگر آج ہم اپنےترقی پذیر ملک کا موازنہ ترقی یافتہ ممالک سے کریں ملک میں
رائج وڈیرا سسٹم اور انصاف کی عدم دستیابی جیسی وجوہات ہی دکھائی دیتی ہیں۔
آج کے حکمران، وزراء، اراکین پارلیمنٹ، دھرنے اور بنا دھرنے والے حضرت عمر
فاروق کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ خدا کے لئے ایک بار
اس مرد مومن کی حیات مقدسہ کو پڑھ لیں ۔پیدا کرنے والی کی قسم ہے کہ اپنی
ذاتوں کو مثال بنا بنا مثالیں دینے سے باز آجائیں گے کیونکہ عمر سے پہلے نہ
کوئی عمر تھا اور نہ عمر کے بعد کوئی عمر آئے گا ۔ہم سب کی عمریں بیت جائیں
گی مگر عمر کی حیات کا ایک پل بھی ہماری حیات سے جڑ نہیں سکتا۔ |
|