یقینا بحران ٹل گیا دھرنے
ناکام ہوگئے شیخ الاسلام ناکام اور نامرادہوکر ان دنوں لندن، امریکہ
،کینیڈا اور دیگر ممالک کی یاترا کررہے ہیں عمران خان دھرنوں کے ساتھ جلسے
کرتے پھررہے ہیں حکمران جماعت کے حامی خوش ہیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت بچ
گئی جن کو بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی تھی ان کی حالت دیدنی ہے کچھ ہفتے
پہلے حالات اتنے نازک موڑ پر آگئے تھے کہ وزیروں، مشیروں کی ہوائیاں اڑگئی
تھیں حواس باختہ بھانت بھانت کی بولیاں ہی بولتے رہتے ہیں میاں نواز شریف
خاموش تھے اور شہباز شریف منظرسے غائب۔۔۔ہر شخص ایک دوسرے سے پو چھتا
پھررہا تھا کیاہونے والاہے؟ہرشخص کے پاس نیا سوال او رنیا جواب تھا۔بحث
مباحثہ کرنے والے تھک گئے اس ماحول میں عمران خان کو وزیر ِ اعظم نے
متعددبار مذاکرات کی پیشکش کی جو انہوں نے یہ کہہ کر مستردکردی کہ اب جو
بھی بات ہوئی 14اگست کے بعدہوگی اس دوران شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر
طاہرالقادری کے یوم ِ شہداء نے حکومت کو وخت ڈالے رکھا جس انداز سے شہر شہر
مظاہرے، احتجاج اورقافلے روکنے پررد ِعمل ہوا ہے یہ احساس شدید ہوگیاہے کہ
عوامی تحریک پہلے کی نسبتاً ایک منظم،فعال اور متحرک پارٹی بن کرابھررہی ہے
کہنے والے کہتے ہیں وہ الیکشن میں حصہ لے تو کئی نشستیں جیتنے کی پوزیشن
میں آسکتی ہے اس دوران حکومتی بوکھلاہت نے لاہور کوکئی دن کنٹینروں کا شہر
بنا ڈالا ماڈل ٹاؤن اور قرب وجوارکے علاقے سیل کردئیے۔ محسوس یہ ہوتا تھا
کہ انقلاب مارچ کے دوران حکومت اور عوامی تحریک دونوں جانب سے طاقت
کااستعمال ہوگا یہ بات تو سچ لگتی ہے کہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں نا جائز
اسلحہ نہیں ہے لیکن ڈنڈے سوٹے بھی ہتھیاروں سے کم نہیں ہوتے۔پارلیمنٹ کے
مشترکہ اجلاس سے جب رفتہ رفتہ وزیر ِ اعظم کااعتمادبحال ہوا تو چہروں کی
رونقیں بھی لوٹ آئیں ا حکومت نے عمران خان اور طاہرالقادری سے نمٹنے کی
مربوط حکمت ِ عملی تیار یہ کی کہ انہیں گرفتار تک نہ کیا تھکا تھکا کر
دھرنوں کا دھڑن تختہ کردیا کئی سیاسی سیانوں کا خیال ہے کہ موجودہ سسٹم کو
سب سے بڑا خطرہ طاہرالقادری سے ہے اور موجودہ حکمران ا ن سے خوفزدہ بھی ۔۔۔
اس لئے ان کے پاس سانحہ ٔ ماڈل ٹاؤن کا کارڈ موجود ہے اگر واقعی ان کی
حکومت سے ڈیل نہیں ہوئی تو ان شہدا ء کا قصاص سیاسی منظر نامے پر غالب
آسکتاہے جس پر حالات خراب ہونے کا قوی خدشہ ہے جبکہ اس وقت تو ایساہی لگ
رہاہے طاہرالقادری نے اپنی تمام ترکشتیاں جلادی ہیں اب اگر ان کی جدوجہدبے
اثرہو جاتی ہے تو پھر وہ کبھی اتنی شدت سے تحریک چلا پاتے ہیں یانہیں۔۔پھر
انہیں موقعہ ملتاہے یا نہیں۔۔پھر زندگی وفا کرتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ
بہرحال تو وقت کرے گا۔۔۔ لیکن ایک بات ہے طاہرالقادری گذشتہ کئی سالوں سے
جن انتخابی اصلاحات کی بات کررہے ہیں اس کے متعلق کوئی بھی بات کرنانہیں
چاہتا ان کی کئی باتوں میں صداقت ہے مثلاًانکا کہناہے موجودہ نظام میں عام
آدمی کاالیکشن جیتنا ناممکن ہے تو اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں
ہے حکمرانوں کو طاہرالقادری کی شخصیت اور مشن سے اختلاف کا حق توہے لیکن
عوام کی بہتری کیلئے جو ان کے پاس پروگرام ہے اس پر غورضرورکیا جانا چاہیے
اس میں کوئی شک نہیں میاں نواز شریف کا جادو ابھی تک سیاست کے سر پر چڑھ کر
بول رہاہے یہ بلا شبہ ان کی مقبولیت کی معراج ہے کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ
میں ان سے مقبول لیڈر پیدا نہیں ہواجس نے اپنے بیشتر ہم عصر سیاستدانوں کو
میدان ِ سیاست سے آؤٹ کردیا اور میاں نواز شریف کے شیر کے بارے میں تو اب
لوگ ایک دوسرے کو میسج بھیجتے رہتے ہیں کہ چودہ سال کا بھوکا شیر گوشت کے
ساتھ ساتھ آٹا،ٹماٹر، ادرک،پیاز۔۔الغرض کہ ہر چیز ہڑپ کرتا چلا جارہاہے اور
کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔اور اس حکومت نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر لا
چھوڑاہے جسے منتوں مرادوں سے اقتدار میں لائے تھے اب یہ تو قوم کو معلوم
نہیں میاں صاحب کو اقتدار ملا ہے۔۔۔ اختیار بھی ملا کہ نہیں۔۔۔ شاید اسی
لئے لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہورہے۔۔۔ بلدیاتی انتخابات کے معاملہ میں
صوبائی حکومتیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔۔۔تفسیر بنی بیٹھی
ہیں۔۔۔ مہنگائی، افراط ِ زر،غربت،لوڈشیڈنگ ،نا خواندگی،مہنگی تعلیم،علاج
معالجہ کی سہولتوں کی عدم دستیابی اور دیہات سے لے کر میٹروپولیٹن تک عوامی
مسائل ایک سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں اور شاہ کے مصاحبوں کو مولا جٹ بننے سے
فرصت نہیں
بنا ہے شاہ کا مصاحب ۔پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو ۔ کیاہے؟
شریف فیملی تو اس لحاظ سے بھی لکی ہے کہ اب تلک پاکستانی نسل در نسل ان سے
محبت کرتے چلے آرہے ہیں ان کے نام کا سکہ رائج الوقت ہے اس مقبولیت کو
برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں ورنہ وحید مراد جیسا خوبرو چا کلیٹی ہیرو
عروج کے بعدزوال کا جھٹکا برداشت نہ کرپایا۔۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر
طاہرالقادری جس کو سب جانتے ہیں۔۔۔جس کو سب مانتے ہیں جو ایک بارپھر ایک
نیا انقلاب لانے کیلئے جدوجہدکررہے ہیں شیخ الاسلام کے تیور دیکھ کر میاں
نواز شریف یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں
یہ کن نظروں سے تو آج دیکھا
کہ تیرا دیکھنا ۔۔۔دیکھا نہ جائے
بہرحال شیخ الاسلام کے دھرنے کا اختتام کچھ اچھا نہیں ہوا لوگوں کو طرح طرح
کی باتیں کرنے کا موقعہ مل گیا ہے ویسے شریفوں کے مقابلے میں عمران خان نے
حکومت کو وخت ڈالا ہواہے۔ اور میاں نواز شریف کیلئے عمران خان اور
طاہرالقادری یک نہ شد دو شد والی بات ہے ۔کہتے ہیں عروج کو زوال ایک تلح
حقیقت ہے جسے بیشترلوگ تسلیم نہیں کرتے ا ب جو میاں نواز شریف پر چاروں
اطراف سے یلغارہورہی ہے کیا یہ ان کے زوال کا نقطہ ٔ آغازہے ویسے شریف
برادران کی پر فارمنس اتنی اچھی نہیں تو اتنی بری بھی نہیں مگر اس کے
باوجود عوام کی اکثریت تبدیلی چاہتی ہے یہ تو ملک میں حقیقی قیادت کا فقدان
ہے ورنہ جیسے انقلاب اور آزادی مارچ کا شور غوغا مچاہوا تھا دو چار دنوں
میں تخت یا تختہ ہو جاتا تو حکومت جاسکتی تھی۔۔۔ مسائل کے مارے عوام بکل
مارے چپ شاہ بنے رہے وہ خوفزدہ بھی تھے کہ یہ جو آدھی چپہ مسی لونی روٹی
کھانے کو مل رہی ہے کہیں یہ بھی دسترس سے باہر نہ ہو جائے ورنہ دریا جھوم
اٹھتے اور حقیقتاً سونامی برپاہو جاتا ۔۔۔کوئی فرد عقل ِ کل نہیں
ہوتا۔۔تنہا فیصلے کرنا فرعونیت کے مترادف ہے کہتے ہیں دیوارسے بھی مشورہ
کرلینا چاہیے لاہور اور اسلام آبادکو کنٹینروں کا شہر بنانے سے پہلے خوب
مشاورت کرنی چاہیے تھی انقلاب اور آزادی مارچ سے خوفزدہ چہرے میاں نواز
شریف کو ڈھنگ کا مشورہ بھی نہیں دے سکتے ورنہ عمران خان کے پرزور مطالبہ پر
چار حلقے کھول دئیے جاتے تو قیامت نہیں آجانا تھی اور شاید وہ کچھ نہ ہوتا
جو ہورہاہے اس وقت تو یک نہ شد دوشد والا معاملہ درپیش ہے اب بھی اگر فہم و
فراست سے کام نہ لیا گیا تو حالات پھرگھمبیرہو سکتے ہیں میاں نواز شریف کو
معاملات کی سنگینی کا ادراک ہونا چاہیے بظاہرلگتاہے بحران ٹل گیا۔۔مسلم لیگ
ن کی حکومت بچ گئی جن کو بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی تھی ان کی حالت دیدنی
ہے لیکن جناب میاں نواز شریف صاحب!آپ کو تنہائی میں ضرور غورکرنا چاہیے
تیسری باروزیراعظم بننے کے باوجود عوام کی حالت کیوں نہیں بدلی ان کے حالات
ویسے کے ویسے کیوں ہیں؟لاہور جیسے شہر میں بھی عوام بنیادی سہولتوں سے
محروم ہیں ۔۔بیشترآبادیوں میں پینے کاپانی گندا ہے۔۔ غربت ،مہنگائی
بیروزگاری سے لوگ پریشان ہیں،لوڈ شیڈنگ سے معیشت مفلوج ہوتی چلی جارہی ہے۔
آپ کے دور ِ حکومت میں بھی چائنہ سے آنے والے ریلوے انجنوں اور نندی پور
پاور پر اجیکٹ سے قوم کو کھربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑاہے تو پھر ترقی کے
دعوے کیسے؟۔۔ سڑکیں،پل،عمارتیں بنانا ہی ترقی کا معیارہوتا تو غریب کبھی
خودکشی نہ کرتے۔۔۔بحران آتے رہتے ہیں ،زندہ قومیں چیلنجزکا سامنا کرنا
جانتی ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے آ پ کوعوام کی خدمت کیلئے چناہے یہ کوئی کم اعزاز
نہیں ۔۔ لوگوں کو موجودہ حکومت سے بہت امیدیں اور میاں نوازشریف سے بہت سی
توقعات ہیں عوام کو مایوس نہ کریں ا ب بھی میاں صاحب آپ نے عوام کیلئے کچھ
نہ کیا تو یقینا تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی صدائے جرس ہے عروج کو زوال
آتے دیر نہیں لگتی۔رورصدیقی
|