پاک مملکت کو نیا خطرہ ،نوجوانوں کے’ داعش‘ میں شمولیت

دولت اسلامیہ کی جانب سے شام اور پھر عراق میں خود ساختہ خلافت کے اعلان کے بعد ان کیلئے ہمدردیوں کا رخ یورپ کیساتھ بڑھتا ہوا افغانستان اور پاکستان میں بھی جا پہنچا ہے۔ داعش (دولت اسلامیہ) کی جانب سے پاکستان علاقوں میں پمفلٹ ، بینرز اور اسٹیکر کی تقسیم کی اطلاعات کے بعد بھی پاکستان میں اس بات کا سراغ نہیں لگایا جا سکا کہ دولت اسلامیہ کیلئے کون سا مقامی نیٹ ورک فعال ہو رہا ہے۔پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان کے خلاف متواتر عسکری آپریشنز اور خود تحریک میں دھڑے بندیوں کے سبب ایک وسیع میدان داعش (دولت اسلامیہ) کیلئے خالی پڑا ہے ، اسی طرح افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کے انخلا ء کے بعد افغانستان کی جہادی تنظیموں کی جانب سے آہستہ آہستہ سابقا علاقے واپس لینے کی کوشش کی جا ئے گی کنر اور نورستان کے علاقے پاکستانی طالبان کی پناہ گاہ کے طورپر استعمال ہو رہے ہیں جس کی پس پردہ سرپرستی افغان حکومت کی جانب سے کی جا رہی ہے ، خدشہ اسی بات کا ہے کہ داعش (دولت اسلامیہ) ان علاقوں میں اپنے لئے ہمدروں کا وسیع ٹولہ بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔حساس اداروں کی جانب سے یہ رپورٹ سامنے آچکی ہے کہ داعش (دولت اسلامیہ) کے پانچ اہم اراکین اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں اور ان کے ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں ہمدرووں کی پہلے ہی کثیر تعداد پاکستان میں موجود ہے جس کا عملی مظاہرہ ، جہاں افغان مہاجرین کے کیمپوں میں داعش (دولت اسلامیہ) کے تحریری دعوت نامے کی تقسیم ، تو کراچی کے مختلف علاقوں میں مبینہ وال چاکنگ کی صورت میں سامنے آیا جہاں در و دیواروں پر ISISکی چاکنگ کی گئی تھی جس سے شہر یوں میں مزید سراسمیگی پھیل گئی۔دیکھنا یہ ہے کہ آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ داعش (دولت اسلامیہ) کو اپنے ہمدروں کی تعداد میں اضافے کیلئے پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا۔ 15سے17سال کے درمیان کی عمر کی تین امریکی لڑکیاں جرمنی کے راستے شام پہنچ کر داعش (دولت اسلامیہ) میں شمولیت کیلئے قریب نصف راستہ طے کرچکی تھیں کہ انہیں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پولیس نے روک واپس امریکا بھیج دیا۔ تاہم یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ شمالی امریکا اور یورپ سے تعلق رکھنے والی متعدد نوجوان کم عمر لڑکیاں اب تک شام پہنچ چکی ہیں ، گو کہ دیگر مرد رضا کاروں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد کم ہے۔کنگز کالج سے وابستہ دہشت گردی سے متعلقہ امور کی ماہر’ کیتھرین براؤن‘کے مطابق یورپ جیسے ممالک میں داعش (دولت اسلامیہ) میں200کے قریب خواتین کی شمولیت ایک بڑی دعوت فکر ہے۔جن کا تعلق یورپ سے ہے اور وہ شام جاکر خانہ جنگی کا حصہ بن چکی ہیں۔

داعش (دولت اسلامیہ) میں نوجوانوں کے شمولیت کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی ریاست ایک خیالی سیاسی دنیا کا تصور پیش کرتی ہے ، جس میں حکمرانوں کو رومانوی شخصیت بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔دوسری اہم وجہ یورپ ، امریکا میں اسلام کے خلاف شدید مذہبی منافرت اور مبا حثے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کی بڑی تعداد معاشرے کے مرکزی دھارے سے الگ تھلگ کردی گئی ہے ، گذشتہ دنوں ایک سکھ گودوارے کو مسجد سمجھ کر دو لڑکیوں نے چاکنگ کی ، جس سے ان کی مذہبی منافرت کا بھیانک تصور سامنے آتا ہے کہ انھیں اسلام اور سکھ مذہب میں بھی تمیز نہیں رہی ہے بلکہ وہ ظاہری وضع قطع سے ملتے جلتے معاملات پر ہی خود ساختہ مذہبی انتہا پسندی کرتے نظر آتے ہیں ، اسی طرح آسٹریلیا میں مسلمانوں پر جینا دشوار کردیا اور مذہبی آزادی پر شدید پابندیاں عائد کئے جانے اور مختلف متشدد گروپوں کی جانب سے دہمکیوں اور اشتعال انگیزیوں کے سبب اوپن ڈے بھی منایا گیا جس میں مسجد میں داخلے کیلئے تمام مذہب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے دروازے کھولے گئے تاکہ وہ نزدیک سے اسلامی عبادات کو دیکھیں اور اپنی غلط فہیماں دور کریں، اس سلسلے میں آسٹریلیا میں مسلمانوں میں شدید عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے، جس سے آسٹریلیا کی گورنمنٹ کیلئے مذہبی رواداری قائم رکھنے میں ناکامی پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

یورپ سے داعش (دولت اسلامیہ) میں شمولیت کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے جس میں بہت سے مرد اور خواتین اجنبی ممالک میں جاکر وہاں کی تسخیر میں بھی بہت دل چسپی رکھتے ہیں۔اس کا موازنہ 75سال قبل اسپین میں ہونے والی خانہ جنگی سے کیا جاتا ہے ، کہ خواتین کسی نئی چیز کا حصہ بننا چاہتی ہیں ، ملک و قوم کے ماں کی حیثیت سے بھی اور جنگجوؤں کی بیویوں کی شکل میں بھی۔جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں تحفظ آئین کے ملکی ادارے کی علاقائی شاخ کے سربراہ بُرک ہارڈ فرائیر کے مطابق صرف ایک جرمن صوبے سے شام کا سفر کرنے والی خواتین کی تعداد 25ہے ، اُن کے بقول ، یہ بہت کم عمر ہیں ، مردوں سے کہیں زیادہ جوان ، ۔۔داعش (دولت اسلامیہ) میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں ایک معقول تعداد ایسے تارکین وطن کی بھی ہے ، جنھیں اپنی شناخت اور اپنی ذات سے متعلق عدم واقفیت ہے، جس کی وجہ سے وہ تلاش کی اس مہم جوئی میں شامل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔معاشرے یا نظام کے خلاف احتجاج اور خود کو اپنے خاندان سے الگ تھلگ کردینے میں خواتیں کا اہم کردار ادا ہوتا ہے ، ان وجوہات میں یہ بھی سمجھا جارہا ہے کہ مستقبل میں خود شہید کی حیثیت سے شجاعت و بہادری کی علامت کا جذبہ بھی ان میں کارفرما نظر آتا ہے۔داعش (دولت اسلامیہ) کی افغانستان میں موجودگی نے بھی عالمی برادری میں تشویش کو بڑھا دیا ہے جب کابل یونیورسٹی میں داعش (دولت اسلامیہ) کی چاکنگ ہوئی ،اور طالب علموں کی کثیر تعداد کو گرفتار کرلیا گیا ،مقامی طالبان کمانڈروں کی داعش (دولت اسلامیہ) میں شمولیت کی ایک بڑی وجہ دولت کی فراونی بھی بتائی جاتی ہے جس میں شام و عراق کے مفتوحہ علاقوں سے نوادرات اور بلیک مارکیٹ میں تیل کی فروخت کے ساتھ اغوا برائے تاوان کے ذریعے بڑی رقومات کا حصول ہے ، جس کی وجہ سے پاک ، افغان گروپس میں داعش (دولت اسلامیہ) کیلئے بڑی کشش پیدا ہوئی ہے کیونکہ انھیں اپنے بے تحاشا اخراجات پورے کرنے کیلئے فنڈنگ کی دشواریاں کم ہونے کی سہولت حاصل ہوجائے گی۔

پاکستان میں 21ایسے افراد کی نگرانی کی جا رہی ہے جو مقامی طور پر داعش (دولت اسلامیہ) کی تنظیمی ڈھانچے کو مستحکم بنانے کی کسی کوشش میں ملوث ہوسکتے ہیں ، پاکستان میں بڑی شد ومد کے ساتھ فرقہ وارنہ خانہ جنگیوں کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے ، جس کے سبب فرقہ وارانہ خیالات کے حامل انتہا پسندوں کو داعش (دولت اسلامیہ) کی صورت میں اپنے خوابوں کی تکمیل کا ذریعہ دکھائی دیتا ہے ۔اس کے علاوہ منفی جذبات ابھارنے کیلئے پاکستان کے ان ہی علاقوں کو ایک بار پھر کسی بین الاقوامی ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جب امریکہ نے روس کے خلاف اور پھر امریکا کے خلاف ، طالبان کی صورت میں استعمال ہوئے،وہاں آپریشن کے بعد بڑی تعداد میں نقل مکانی اور اس بات کو ہوا دینے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے کہ فوجی آپریشن کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ، اسی سلسلے میں سوات میں مقامی عمائدین کا بڑا سوات قومی جرگہ منعقد ہوا جسمیں حکومت سے مطالبہ کیا گیاکہ سوات کے انتظامی اداروں سے فوج اپنا کنٹرول ختم کرے ، اور چھاؤنی بنانے کے بجائے وہ سوات کو سابق حیثیت میں دوبارہ بحال کرے ، عسکری ذرائع نے سختی سے اس خدشے کی تردید کی ہے کہ سوات آپریشن ناکام نہیں ہوا ہے ، لیکن کچھ عناصر کی جانب سے پوائنٹ اسکورنگ کیلئے اس بات کا پروپیگنڈا بھی کیا جارہا ہے کہ جب 80فیصد علاقے کلیئر قرار دے دئیے گئے ہیں تو آئی ڈی پیز کو جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی ، ابھی ان معاملات کی باز گشت جاری تھی کہ خیبر ون آپریشن شروع کردیا گیا ، جس کے نتیجے میں آئی ڈی پیز کی مزید بڑی تعداد پشاور اور گردو نواح منتقل ہونا شروع ہوچکی ہیں اور فوج کا آپریشن جارہی ہے ۔داعش (دولت اسلامیہ) میں شمولیت کیلئے غلط فہمیوں کی ماضی کی فضا دوبارہ ساز گار بنانے کیلئے اس قسم کے پروپیگنڈے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں ، اور مستقبل میں ان علاقوں میں احساس محرومی نام پر کسی بھی مسلح گروپ کو دوبارہ قدم جمانے میں دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔اب یہ ارباب ِ اختیار کی پالسیوں پر متنج ہے کہ وہ کس طرح مستقبل میں داعش (دولت اسلامیہ) کی سرگرمیوں کوروکنے کیلئے اقدامات کرتی ہے ۔کیا وہ ماضی کی طرح کسی’ خاص مقاصد‘ کیلئے ان علاقوں میں کسی نئی مہم جوئی کے حق میں ہیں یا پھر قلع وقمع چاہتے ہیں۔یہ سب کچھ پاکستان کے پالیسی سازوں پر منحصر ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744409 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.