تحریر: سکینہ سالار سلطان
جاوید ہاشمی صاحب ایک زیرک تجربہ کار سیاستدان ہے وہ انتخابات ہے پہلے ہی
انتخابات ہار چکے تھے۔ ہار وہ نہیں جو نتیجے کے بعد ہو، ہار وہ ہے جو انسان
ذہنی اور اعصابی طور پر قبول کرے۔ ہاشمی صاحب کی ہار کا ہاشمی صاحب کو اتنا
دکھ نہیں ہوا ہوگا جتنا ان کے حمایت کرنے والی جماعتوں کو ہوا ہوگا۔ ہاشمی
صاحب ایک ایسا سیاسی باوقار شخصیت ہے جن کو کسی سیاسی جماعت کے سہارے کی
ضرورت نہیں۔ ان کی ن لیگ کیلئے قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہاشمی صاحب
نے صحیح معنوں میں وفاداری کا حق ادا کیا اور جمہوریت کیلئے جد و جہد کا
بھی۔ مگر ہاشمی صاحب کا یہ فلسفہ بہت عجیب ہے کہ جہاں انہیں سر آنکھوں پہ
بٹھا یا گیا وہاں سے انہوں نے بے وفائی کردی اور جہاں انکی قربانیوں اور جد
و جہد کو خاطر میں لائے بغیر ان کی حق تلفی کی گئی وہ ان کے آج بھی شکر
گزار ہے۔ ہاشمی صاحب نہ صرف ملتان بلکہ پاکستان کی سیاست میں اہم نام ہے۔
ہاشمی صاحب کی شکست سے ایک بات سامنے آئی ہے کہ یہ عوام کسی حد تک شخصیات
کے سحر سے باہر نکل آئی ہے اور لوگوں میں شخصیات کے بجائے یہ احساس جنم
لینے لگا ہے کہ جو انسان ان کیلئے کام کرے گا سیاسی جماعت کا وفادار رہے گا
، عوام کا ووٹ اسی کیلئے ہوگا۔ گو کہ بالمقابل جیتنے والی شخصیت کے بارے
میں تمام نشریاتی ادارے نتیجہ آنے کے بعد منفی باتیں کر رہاہے مگر یہ
مقابلہ ایسے وقت اور ماحول میں تھا کہ تحریک انصاف نے ہر حال میں اسی بندے
کا ساتھ دینا تھا کیونکہ ان کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ تحریک
انصاف کے قد کاٹھ، منشور اور جاری موجودہ مہم دھرنے اور آزادی مارچ کی وجہ
سے ڈوگر کو تحریک انصاف کیلئے مناسب نہیں سمجھا جا رہا اور تمام الیکٹرانک
میڈیا عمران خان کے اس انتخاب اور حمایت پر تنقید ہی کرتے رہے مگر جاوید
ہاشمی کی شکست عمران خان کی فتح کا اعلان ہے۔ یہ شکست عمران خان کے نظریے
کی فتح ہے۔ اب اس کیلئے عمران خان کو مجبورا اپنے ووٹرز کو کہیں اور جانے
کے بجائے ڈوگر جیسے مضبوط امیدوار کو ووٹ دینے کو کہا کیونکہ عمران خان ن
لیگ یا پیپلز پارٹی کو اپنا یہ حلقہ کیسے دینے دیتے۔ عمران خان نے ایک
تجربہ کار زیرک اور دانش مند سیاستدان ہونے کا مظاہرہ کیا اور میدان خالی
نہ دیکر خود کو ایک تجربہ کار سیاست دان ثابت کیا۔ اگر تحریک انصاف کی
حمایت ڈوگر کے ساتھ نہ ہوتی تو ہاشمی صاحب کی فتح یقینی تھی۔ ہاشمی بلا شبہ
ایک شاندار شخص اور بہترین انسان ہے۔ جہاں ہاشمی بمقابلہ ڈوگر نہیں، ہاشمی
بمقابلہ عمران خان کا نظریہ تھا تو عمران خان کے نظریت کی جیت ہوئی۔ اور
عمران خان نے ایک بہترین طریقے سے ملتان کارڈ کا استعمال کرکے ن لیگ کو
شکست کا سند دکھا یا جو کہ واقعی اس بات کی دلیل ہے کہ ملتان جسے ن لیگ کی
نشست سمجھا جاتا ہے اب عمران خان کے نظریے کو پسند کرکے ن لیگ اور پیپلز
پارٹی کو ازمانے کے بعد خیر باد کہہ چکی ہے۔ اب ان دونوں جماعتوں کو سمجھ
لینا چاہئے کہ تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آگئی ہے۔ تبدیلی کہی آئی ہو یا نہ
آئی ہو مگر اس وقت تبدیلی ملتان میں ضرور آچکی ہے۔ ن لیگ کے حمایت یا فتہ
فرشتہ صفت انسان جاوید ہاشمی جن شریف النفس اور اپنی رائے کے اظہار اور
ضمیر کی اواز پر لبیک کہنے پر کوئی شک و شبہ نہیں، کے مقابلے میں ملتان کی
عوام نے متضاد حیثیت رکھنے والے ڈوگر کو منتخب کر لیا ۔ ابتدائی نتائج آتے
ہی جو ڈوگر صاحب کی جیت ثابت کر رہے تھے مختلف نشریاتی اداروں میں موجود
نامی گرامی تجزیہ نگاروں نے ڈوگر صاحب کی شخصیت کو تحریک انصاف کیلئے
ناپسندیدہ ارار دے رہے تھے۔ یہ جو ہر تجزیہ کار کو پتہ پے ڈوگر صاحب کے
منظر و پس منظر کا تو کیا وہاں ملتان کے لوگوں کو پتہ نہ ہوگا جو انہیں
اپنا ایم این اے بنانے جا رہے تھے۔ ان کو تو پتہ تھا مگر لوگ موجودہ
حکمرانوں سے اتنا بیزار ہے کہ وہ ن لیگ کی طرف سے انتخابات میں کوئی فرشتہ
بھی ہوتا اسے منتخب کرنے کے بجائے رحم دل انسان کو منتخب کرتے جس کا منظر
پس منظر کچھ بھی ہو مگر وہ نظریہ کی بات ملک سے نا انصافی کا خاتمہ کرے،
عوام کو عوام سمجھے ذاتی غلام نہیں۔ ملتان کے انتخابات نے نہ صرف ن لیگ
بلکہ پیپلز پارٹی کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ 11مئی کے انتخابات میں
پیپلز پارٹی کا پہلے ہی پنجاب سے صفایا ہوچکا ہے اور ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد
جب انتخابات کا میدان سجا تو پیپلز پارٹی اپنی ضمانت ضبط کروابیٹی، ملتان
شہر جو کبھی مسلم لیگ اور کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا اب دونوں جماعتوں کی
بے حسی کی وجہ سے عمران خان کی سیاسی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ |