شریعت اسلامیہ میں نماز کی قضاء کا حکم

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلیٰ آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

علماء امت کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر نماز وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر کبھی کوئی نماز وقت پر ادا نہ کرسکے تو اسے پہلی فرصت میں پڑھنی چاہئے۔ ہماری اور ہمارے علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ امت مسلمہ کا ہر ہر فرد وقت پر نماز کی ادائیگی کرنے والا بن جائے اور ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں، کیونکہ اسی میں ہماری اور تمام انسانوں کی اخروی کامیابی مضمر ہے جیساکہ خالق کائنات نے سورۃ المؤمنون آیات (۱ ۔ ۱۱)میں بیان فرمایا ہے۔

نماز بالکلیہ نہ پڑھنے والوں یا صرف جمعہ وعیدین یا کبھی کبھی پڑھنے والوں کا قرآن وحدیث کی روشنی میں شرعی حکم کیا ہے، سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمینؒنے اپنی کتاب ﴿حکم تارک الصلاۃ﴾ میں فقہاء وعلماء کی مختلف آراء تحریر کی ہیں : حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص کافر ہے اور ملت اسلامیہ سے نکل جاتا ہے۔ اس کی سزا یہ ہے کہ اگر توبہ کرکے نماز کی پابندی نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ نماز کو چھوڑنے والا کافر تو نہیں، البتہ اس کو قتل کیا جائے گا۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ حاکم وقت اس کو جیل میں ڈال دے گا اور وہ جیل ہی میں رہے گا یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز شروع کردے یا پھر وہیں مرجائے۔

قرآن وحدیث میں وارد نماز کی وقت پر ادائیگی کی خصوصی تاکید کے باوجود بعض مرتبہ نماز فوت ہوجاتی ہے، کبھی بھول سے، کبھی کوئی عذر لاحق ہونے کی بنا پر اور کبھی محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے۔ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کا اتفاق ہے کہ تمام فوت شدہ نماز کی قضا کرنی چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ نے متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اگر نماز وقت پر ادا نہ کرسکیں تو بعد میں اس کو پڑھیں، اختصار کے مدنظر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد ایک حدیث ذکر کررہا ہوں: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کو بھول جائے تو جب اس کو یاد آئے فوراً پڑھ لے، اس کا سوائے اس کے کوئی کفارہ نہیں۔ اﷲ کا ارشاد ہے نماز قائم کرو میری یاد کے واسطے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) بعض روایات میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح وارد ہوئے ہیں: جو شخص نماز کو بھول جائے یا اس کو چھوڑ کر سوجائے ، اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آئے اسے پڑھے۔ حدیث کی مشہور کتاب ترمذی میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو بھی نماز کو بھول جائے یا اس سے سو جائے تو وہ جب بھی یاد آئے اس کو پڑھ لے۔

﴿نوٹ﴾ تاخیر سے سونے کی عادت بناکر فجر کی نماز کے وقت سوتے رہنا گناہ کبیرہ ہے۔ دیگر احادیث کی روشنی میں اس حدیث میں سوتے رہنے سے مراد یہ ہے کہ نماز وقت پر پڑھنے کے اسباب اختیار کئے مگر کسی دن اتفاق سے آنکھ نہ کھل سکی۔

حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام نے بعض نمازیں وقت کے نکلنے کے بعد ادا فرمائی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ صحابۂ کرام کے ساتھ غزوۂ خیبر سے واپس ہورہے تھے، رات میں چلتے چلتے جب نیند کا غلبہ ہوا تو آپ ﷺ نے رات کے اخیر حصہ میں ایک جگہ قیام فرمایااور حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو نگہبانی کے لئے متعین فرماکر آپ ﷺ لیٹ گئے اور صحابہ بھی سو گئے۔ جب صبح قریب ہوئی تو حضرت بلال رضی اﷲ عنہ (تھکان کی وجہ سے) اپنی سواری سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے ، پس آپ پر نیند غالب ہوئی اور وہ بھی سو گئے اور سب حضرات ایسے سوئے کہ طلوع آفتاب تک نہ اﷲ کے رسول ﷺ کی آنکھ کھلی اور نہ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کی، نہ کسی اور صحابی کی۔جب سورج طلوع ہوا اور اس کی شعاعیں ان حضرات پر پڑیں تو سب سے پہلے رسول اﷲ ﷺ بیدار ہوئے اور گھبراکر حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو اٹھایا۔ پھر صحابۂ کرام کو آگے چلنے کا حکم دیا، صحابۂ کرام اپنی سواریاں لے کر آگے بڑھے اور ایک جگہ حضور اکرم ﷺ نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو اقامت کہنے کا حکم دیا۔ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے اقامت کہی اور آپ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا جو نماز کو بھول جائے اس کو چاہئے کہ وہ یاد آنے پر اس کو پڑھ لے۔ (صحیح مسلم)

حضرت جابر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ غزوۂ خندق کے دن آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا یا رسول اﷲ! میں اب تک عصر نہ پڑھ سکا حتی کہ سورج غروب ہونے کو ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے بھی عصر نہیں پڑھی ہے۔ اﷲ کے رسول نے وضو فرمایا ، ہم نے بھی وضو فرمایا اور پھر غروب آفتاب کے بعد آپ ﷺ نے پہلے عصر پڑھی پھر اس کے بعد مغرب ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری) بعض احادیث میں مذکور ہے کہ اس موقع پر آپ ﷺ کی ایک سے زیادہ نمازیں فوت ہوئی تھیں اور آپ ﷺ نے انہیں وقت نکلنے کے بعد پڑھا۔

مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ اگر ایک یا ایک سے زیادہ نماز فوت ہوجائے تو فوت شدہ نمازوں کا پڑھنا لازم وضروری ہے۔ تفصیلات کے لئے امام نوویؒ کی صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح (شرح مسلم ج۱ ص ۲۷۷) اور ابن حجر عسقلانی ؒ کی صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح (فتح الباری ج۲ ص ۶۹ ۔ ۷۰) کا مطالعہ کریں۔ہاں اس بھول یا عذر کی بناء پر وقت پر ادا نہ کی گئی نماز کو ادا یا قضاء کا ٹائٹل دینے میں علماء کی آراء مختلف ہیں۔ بھول یا عذر کی وجہ سے وقت پر نماز ادا نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ان شاء اﷲ۔ لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کردے تو یہ بڑا گناہ ہے اس کے لئے توبہ ضروری ہے۔ توبہ کے ساتھ جمہور علماء کی رائے ہے کہ اس کو نماز کی قضا بھی کرنی ہوگی۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ قصداً وعمداً نماز چھوڑنے پر بھی نماز کی قضاء کرنی ہوگی۔ شیخ ابو بکر الزرعی (۶۹۱ھ۔۷۵۱ھ) نے اپنی کتاب (الصلاۃ وحکم تارکھا) میں تحریر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا کہ اس شخص پر بھی نماز کی قضا واجب ہے جو قصداً نماز کو چھوڑدے مگر قضاء سے نماز چھوڑنے کا گناہ ختم نہ ہوگا بلکہ اسے نماز کی قضاء کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی۔ علامہ قرطبیؒ (متوفی ۶۷۱ھ) نے اپنی مشہور ومعروف تفسیر (الجامع لاحکام القرآن ج ۱ ص ۱۷۸) میں یہی تحریر کیا ہے کہ جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے شخص پر قضاء واجب ہے، اگرچہ وہ گناہ گار بھی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر قضاء واجب ہے ۔ غرضیکہ اگر کسی شخص کی ایک یا متعدد نمازیں قصداً وعمداً چھوٹ جائیں تو اﷲ تعالیٰ سے معافی کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنی ضروری ہے، کیونکہ جمہور علماء حتی کہ چاروں ائمہ نے حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی کہا ہے، صرف زمانہ قدیم میں جناب داؤد ظاہری اور موجودہ زمانہ میں اہل حدیث حضرات نے اختلاف کیا ہے۔ اور جن بعض علماء نے نماز کے جان بوجھ کر ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے واجب نہ ہونے کا جو فیصلہ فرمایا ہے وہ اصل میں اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نقطۂ نظر میں جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر ہوجاتا ہے۔ اب جب کافر ہوگیا تو نماز کی قضاء کا معاملہ ہی نہیں رہا، لیکن جمہور علماء کی رائے ہے کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر نہیں بلکہ فاسق یعنی گناہ گار ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے ورنہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گی۔
صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے اور ریاض الصالحین کے مصنف امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں تحریر کیا ہے کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص نماز کو عمداً ترک کردے اس پر قضاء لازم ہے۔ بعض علماء نے مخالفت کی ہے مگر بعض علماء کی یہ رائے اجماع کے خلاف ہونے کے ساتھ دلیل کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔ نیز انہوں نے تحریر کیا ہے کہ بعض اہل ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ بلا عذر چھوٹی ہوئی نماز کی قضاء واجب نہیں، اور انہوں نے یہ خیال وگمان کیا کہ نماز کا چھوڑنا اس سے بڑا گناہ ہے کہ قضاء کرنے کی وجہ سے اس کے وبال سے نکل جائے، مگر یہ قول کے قائل کی غلطی وجہالت ہے۔ (شرح مسلم ج۱ ص ۲۳۸)

علامہ عبد الحی حنفی لکھنوی ؒ (جنہوں نے صرف ۴۰ سال کی عمر پائی اور تقریباً ۸۰ کتابیں تحریر فرمائیں، جن کی علمی صلاحیتوں کو تمام مکاتب فکر نے تسلیم کیا ہے ) تحریر کرتے ہیں کہ بعض اہل ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ اپنے وقت میں نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنے والے پر ضروری نہیں کہ دوسرے وقت میں اس کو ادا کرے۔ (التعلیق الممجد علی مؤطا للامام محمدص ۱۲۷) ۔

غور فرمائیں کہ جب حضور اکرم ﷺ نے بھولنے والے یا سونے والے پر بھی فوت شدہ نماز کی قضاء کو لازم کیا ہے، حالانکہ یہ دونوں گناہ گار نہیں ہیں تو جان بوجھ کر قضاء کرنے والے پر بدرجہ اولیٰ نماز قضاء ہونی چاہئے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ (اپنے والدین کو اف نہ کہو) تو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب والدین کو (اف) کہنا بھی جائز نہیں تو ان کو مارنا پیٹنا یا گالی دینا اور بھی برا اور سخت گناہ ہوگا۔ اسی طرح جب بھولنے اور سوجانے پر قضاء لازم کی گئی تو عمداً ترک نماز پر قضاء اور بھی زیادہ ضروری ہے۔

صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے یا ایک عورت نے اﷲ کے رسول سے عرض کیا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا اور اس پر ایک ماہ کے روزے رہ گئے ہیں تو کیا میں ان کی قضاء کروں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا کرتا؟ اس نے کہا کہ ہاں میں ادا کرتا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ کا قرض زیادہ مستحق ہے کہ اس کی ادائیگی کی جائے۔ حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد روزوں کی قضاء کے بارے میں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ روزہ اور نماز میں فرض ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں بلکہ قرآن وحدیث میں نماز پڑھنے کی تاکید سب سے زیادہ وارد ہوئی ہے۔ لہذا جب روزے کی قضاء ہے تو نماز کی بھی قضاء ہونی چاہئے۔

نیز پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر رمضان کا روزہ ترک کردے تو اس کی قضاء ضروری ہے، اسی طرح اگر کسی شخص نے استطاعت کے باوجود حج ادا نہیں کیا تو اس کے مرنے پر اس کے وارثین پر لازم ہے کہ وراثت کی تقسیم سے قبل اس کے ترکہ میں سے حج بدل کا انتظام کیا جائے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے قصداً متعدد سالوں سے زکوٰۃ ادا نہیں کی اور اب اﷲ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے تو اسے گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔

خلاصہ کلام یہ کہ ۱۴۰۰ سال سے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی یہی رائے ہے کہ نماز کے فوت ہونے پر اس کی قضاء کرنی ضروری ہے خواہ بھول جانے یا سوجانے کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا جان بوجھ کر نماز چھوڑی گئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ۔ مشہور ومعروف چاروں ائمہ کی بھی حضور اکرم ﷺکے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے۔بھول جانے یا سوجانے کی صورت میں گناہ گار نہیں ہوگا مگر قضاء کرنی ہوگی اور قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگنی ہوگی۔

جن علماء نے فرمایا ہے کہ قصداً نماز ترک کرنے والا کافر ہوجاتا ہے جیسا کہ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز ؒکا موقف ہے، تو ان کا یہ قول کہ جان بوجھ کر چھوڑی گئی نماز کی قضاء نہیں ہے کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے اگرچہ قصداً نماز چھوڑنے والے پر کافر ہونے کا فتویٰ لگانا جمہور علماء کے قول کے خلاف ہے۔ مگر وہ حضرات جو جمہور علماء کے قول کے مطابق تارک صلاۃ پر کافر ہونے کا فتویٰ تو صادر نہیں فرماتے مگر قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے ضروری نہ ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو ان کی یہ رائے جمہور علماء کے قول کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ غیر منطقی اور دلائل کے اعتبار سے باطل بھی ہے جیسا کہ مشہور ومعروف محدث امام نووی ؒ نے تحریر کیا ہے۔ نیز احتیاط کا تقاضی بھی یہی ہے کہ فرض نماز کی قضاء کو واجب قرار دیا جائے تاکہ کل آخرت میں کسی طرح کی کوئی ذلت اٹھانی نہ پڑے، کیونکہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداؤد، مسند احمد)

جب ہم نے یہ تسلیم کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے لئے نماز فرض کی ہے اور قصداً نماز چھوڑنے والا کافر نہیں، بلکہ فاسق وفاجر ہے تو قصداً نماز چھوڑنے پر قضاء کے واجب نہ قرار دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ مثلاً اگر کسی شخص نے زنا کیا یا چوری کی تو اسے اﷲ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی اور اگر اس کا جرم شرعی عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے تو اس پر حد بھی جاری ہوگی۔ یعنی اسے اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ دنیاوی سزا بھی بھگتنی ہوگی۔ اسی طرح قصداً نماز چھوڑنے والے کو اﷲ تبارک وتعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ نماز کی قضاء بھی کرنی ہوگی۔

غرضیکہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہر نماز کو وقت پر ادا کرنا چاہئے، ہاں خدا نخواستہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے تو پہلی فرصت میں اس کی قضاء کرنی چاہئے خواہ بھول کی وجہ سے یا سونے کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نماز ترک ہوئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ یا چند سالوں کی۔ حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کے زمانہ میں یہ تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر کئی دنوں تک نماز نہ پڑھے ۔ خیرالقرون میں ایک واقعہ بھی قصداً چند ایام نماز ترک کرنے کا پیش نہیں آیابلکہ اس زمانہ میں تو منافقین کو بھی نماز چھوڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ اگر لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نمازیں ترک ہوئی ہیں تو سب سے قبل اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے اور توبہ واستغفار کا سلسلہ موت تک جاری رکھ کر فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنی چاہئے خواہ وہ فوت شدہ نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرے یا اپنی سہولت کے اعتبار سے ہر نماز کے ساتھ قضاء کرتا رہے۔ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ ایسے شخص کے لئے بہتر ہے کہ وہ نوافل کا اہتمام نہ کرکے فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرے۔ یہی ۱۴۰۰ سالوں سے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں رائے ہے اور عصر حاضر میں مشرق سے مغرب تک اکثر وبیشتر علماء کرام کی یہی رائے ہے اور یہی قول احتیاط پر مبنی ہے کہ نمازوں کو چھوڑنے کا سخت گناہ ہے حتی کہ علماء کرام نے فرمایا ہے کہ زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہذا فوت شدہ نمازوں پر اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ ان کی قضاء بھی کرنی چاہئے۔

اﷲ تبارک وتعالیٰ ہمیں نمازوں کو ان کے اوقات پر پڑھنے والا بنائے اور ایک وقت کی نماز بھی ہماری فوت نہ ہو۔
Muhammad Najeeb Qasmi
About the Author: Muhammad Najeeb Qasmi Read More Articles by Muhammad Najeeb Qasmi: 25 Articles with 30944 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.