شہیدِ اعظم سے محبت کا تقاضہ
(Ata Ur Rehman Noori, India)
حضرت سعد بن عبادہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ سرکار دوعالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے
اور عرض کیا یا رسول اﷲ! میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے تو ان کے لئے کون سا
صدقہ افضل ہے؟ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: پانی، تو حضرت سعد نے کنواں کھدوایا
اور کہا یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے (یعنی اس کا ثواب سعد کی ماں کے لئے
ہے) (اشعۃ اللمعات، ج:۳، ص:۱۲۳)اس حدیث پاک میں یہ الفاظ کہ یہ کنواں سعد
کی ماں کے لئے ہے۔ یعنی یہ سعد کی ماں کے ایصال ثواب کے لئے وقف ہے، اس سے
واضح طور سے ثابت ہوتا ہے کہ جس کی روح کو ثواب پہنچانے کی غرض سے کوئی
صدقہ و خیرات کی جائے اور اس صدقہ و خیرات اور نیاز پر مجازی طور پر اس کا
نام لیا جائے یعنی یوں کہا جائے کہ یہ سبیل یا کھچڑا حضرت امام حسین و
شہدائے کربلا رضوان اﷲ علیہم کے لئے ہے تو ہرگز ہرگز اس سبیل کا پانی یا
دودھ اور کھچڑا حرام نہ ہوگا ورنہ پھر یہ بھی کہنا پڑے گا کہ اس کنویں کا
پانی بھی حرام تھا جس کی نسبت غیر اﷲ یعنی حضرت سعد کی ماں کی طرف تھی۔
حالاں کہ اس کنویں کا پانی حضور ﷺ و دیگر صحابۂ کرام و اہلِ مدینہ نے پیا
ہے۔ اگر صرف نسبت کر دینے سے کوئی چیز حرام ہو جاتی تو حضور ﷺکیوں اس کنویں
کا پانی پیتے؟ اس سے بالکل ظاہر ہو گیا کہ جس طرح کنویں کا پانی غیر اﷲ کی
طرف نسبت کر دینے سے حرام نہیں ہوتا اسی طرح حضرت امام حسین کی نیاز شربت
یا کھچڑا ان کی طرف منسوب کر دینے سے حرام نہیں ہوتا ہے۔ کھچڑے کے متعلق تو
ایک روایت میں آتا ہے کہ خاص محرم کے دن کھچڑا پکانا حضرت نوح علیہ السلام
کی سنت ہے، چنانچہ منقول ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان سے نجات
پاکر جودی پہاڑ پر ٹھہری تو وہ دن عاشورہ محرم تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام
نے کشتی کے تمام اناجوں کو باہر نکالا تو فول (بڑی مٹر)، گیہوں، جو، مسور،
چنا، چاول، پیاز یہ سات قسم کے غلے موجود تھے۔ آپ نے ان ساتوں کو ایک ہانڈی
میں ملا کر پکایا۔ چنانچہ علامہ شہاب الدین قلیوبی نے فرمایا کہ مصر میں جو
کھانا عاشورہ کے دن طبیخ الحبوب (کھچڑا) کے نام سے مشہور ہے اس کی اصل دلیل
یہی حضرت نوح علیہ السلام کا عمل ہے اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیا علیہ
الرحمہ راحت المحبین میں فرماتے ہیں کہ جو شخص عاشورہ کے دن سات قسم کے
دانے پکائے تو ہر دانے کے بدلے اس کے نامۂ اعمال میں نیکی لکھی جائے گی اور
اسی مقدار سے گناہ محو کئے جائیں گے۔ (تفسیر روح البیان، پ:۱۲، آیت قصہ نوح)
قارئین کرام! امام عالی مقام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے اگر آپ کو سچی محبت کا
دعویٰ ہے اور ان کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے تو واقعاتِ شہادت
سُن کر آنسو بہا دینا یا ان کے نام سے نذر و نیاز کر دینا ہی کافی نہیں ہے
بلکہ حقیقتاً خراجِ عقیدت یہ ہے کہ ان کے نقشِ قدم پہ چلنے کا جذبہ پیدا ہو،
تا کہ ہم ان کی بارگاہ میں یہ عرض کر سکیں ’’اے امام ہم آپ کے عاشق ہیں اور
آپ سے محبت رکھتے ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کو آپ کے عظیم
کردار کے سانچے میں ڈھال دیا ہے‘‘ اور ترکِ صلوٰۃ، ترکِ سُنت، شراب، جوا،
زنا، ناچ، گانا وغیرہا منکرات سے بچنے کا عہد کر کے یہ ظاہر کریں کہ ’’اے
امام ہم آپ کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ہم ان تمام
بُرے کاموں اور غلط عادتوں سے نفرت بھی کرتے ہیں اور ان سے بچتے بھی ہیں
کیوں کہ یہ ایسے اعمال و عادات ہیں کہ آپ کا محب کبھی بھی ان کا مرتکب نہیں
ہو سکتا‘‘۔ ہمارا یہی خراجِ محبت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی خوشنودی اور جنت
میں ان کی رفاقت کا سبب بنے گا، کیوں کہ امام عالی مقام کی قربانی کا مقصد
امتِ مسلمہ کو بُرائیوں سے بچانا ہی تھا۔ کاش! ہم عقل و شعور سے کام لیتے
اور ان کے مقصدِ شہادت کو سمجھ کر اسی جذبے سے ہم بھی سرشار ہوتے۔ اﷲ عزوجل
ہم سب کو امام عالی مقام کی خوشی اور ان کے مشن کو باقی رکھنے اور یزیدی
کردار سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْنَ بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہٖ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ
التَّسْلِیْمِ |
|