سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا جہاد اور جہاد و قتال مگر اصول و ضوابط کے ساتھ - محرم 4.

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اس تفصیل کا ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ بعض احباب قرآن و سنۃ کے باب جہاد و قتال کے حامی ہیں، الحمد للہ. جہاد و قتال کوئ بری چیز نہیں بلکہ اسکا مقصد تو مسلمانوں کے لیے دۓ گیے دین اور ایمان اور جان و مال کا تحفظ ہے مگر جہاد و قتال کے فضائل کا باب تو ہم اکثر ان سے سنتے ہیں مگر اصول و ضوابط کا باب شاذ و نادر ہی سننے کو ملتا ہے، کیونکہ جب جہاد کو اصول و ضوابط کے باب پر دیکھا جاۓ تو کبھی کبھی کفار کے خلاف اپنے غصے اور جذبات کو ایک طرف رکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے جو بہت مشکل ہوتا ہے. اور جب کبھی کبھی ان احباب سے یہ کہا جاۓ کہ بعض حالات میں جہاد و قتال نہ کرنا بہتر ہے-

جیسا کہ مسلمان کمزوری کی حالت میں ہوں. خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ، جب مسلمان کمزوری کی حالت میں تھے تو جہاد بمعنی قتال نہ کیا بلکہ اسلام و عقیدہ و توحید کی دعوت کی اور شرک سے منع کیا. اور جہاد و قتال مدینہ میں فرض ہوا، اسی طرح شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی 728 ہجری) نے بھی السارم المسلول جلد: 2 اور صفحہ: 413 میں ایسا اکتباس نقل فرمایا. یہ بتلانے پر ایسے احباب جو ہر پل قتال کے حامی ہیں ان کے ماتھے پر بل آ جاتا ہے اور فورا کافر مرتد اور منافق بنانا ایک عام روش ہے، یہ بات ذہن میں رہے کہ جہاد وقتال کا فی نفسہی انکار کفر ہے، اور اسمیں کوئ دو راۓ نہیں.

ایک موقع پر اللہ عزوجل سیدنا عیسی علیہ السلام سے فرماۓ گا، مفہوم:
"میں نے اپنے ایسے بندے نکال دۓ ہیں کہ جن سے لڑنے کی تم میں طاقت نہیں ہے تم میرے بندوں کو طور کی طرف لے چلو."
(حوالہ: صحیح مسلم،2939)

اور اس کے بعد اللہ عزوجل کی حکمت سے یأجوج مأجوج منظر عام پر آجائیں گے، مسلمان یأجوج مأجوج کے ساتھ اقدامی جہاد نہیں بلکہ دفاعی جہاد میں ہوں گے مگر کیونکہ ان کے پاس وہ طاقت و استطاعت نہیں ہوگی تو انہیں اللہ عزوجل دفاعی جہاد سے بھی روک دے گا، یہاں پر یۂ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ دفاعی جہاد کے لیے بھی مسلمانوں کے پاس دشمن کے خلاف، دشمن کی طاقت کے مقابلے میں لڑنے کی طاقت و استطاعت شرط ہے، اگر اس عنصر کو نہیں دیکھا جاۓ گا تو نقصان فائدہ سے کہیں زیادہ ہوگا، اور کشت خون کا بازار ہی گرم رہے گا، جیسا کہ آج کل بیشتر مقام پر ہوتا ہے، الا من رحم اللہ. بعض احباب جو ہر پل قتال کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ باتیں بزدل لوگوں کا فعل و عمل ہے، مگر ان کا یہ قول بہت ہی عجیب بات ہے، ان کے قول کا رد مسلم کی صحیح حدیث میں موجود ہے، جس کو درج کر دیا گیا.

کیا سیدنا عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھ مؤمنین ولعیاذ باللہ بزدل ہوں گے؟ جو یأجوج مأجوج کا مقابلہ نہ کرسکیں گے؟ بالکل نہیں! مگر پھر بھی اللہ عز وجل ان سے کہے گا کہ طور کی وادی پر چلے جاؤ، کیا اللہ عزوجل فرشتوں کے غیبی لشکروں سے ان کی مدد نہیں کرسکتا؟ کیوں نہیں! وہ تو ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ عز وجل نے فرمایا، مفہوم:
"پلک جھپکتے میں ہوجاتا ہے."
(حوالہ: سورۃ القمر سورۃ نمبر: 54 آیت نمبر: 50)

یعنی جو کچھ بھی اللہ عزوجل چاہے وہ پلک جھپکنے میں ہوجاتا ہے تو کیا اللہ عزوجل سیدنا عیسی علیہ السلام اور انکے ساتھ مؤمنین کی مدد نہیں کرسکے گا؟ ولعیاذ باللہ، کیوں نہیں. مگر اسی میں اللہ عزوجل کی حکمت ہے اور یہاں پر وہ ہی اصول ہے کہ چونکہ اس وقت کے مسلمانوں کی طاقت و استطاعت محدود ہوگی تو انہیں اپنے سے کہیں زیادہ طاقت ور دشمن سے دفائ جہاد و قتال کا نہیں کہا جاۓ گا، واللہ اعلم.

یعنی یہاں پر دلائل سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جب مسلمان کمزور ہوں تو انہیں جہاد بالقول و قلم اور درس و تدریس اور دعوت کو مضبوطی سے پکڑنا چاہیے اور جب مضبوط ہوں تو انہیں ان کے علاوہ قتال بھی کرنا چاہیے اسی طرح دفاعی جہاد میں بھی قدرت و طاقت جہاد و قتال کی ایک شرط ہے اس کے بعد ایک عنصر جس کے بارے میں جانیں گے وہ یہ ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے جہاد و قتال کی کیا نوعیت تھی.

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا جہاد
بعض احباب کا یہ کہنا ہے کہ کیا جہاد کے ان اصول و ضوابط و شرائط کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نہیں جانتے تھے؟ اگر یہ اصول و ضوابط و شرائط صحیح ہوتے تو کیا وہ جہاد و قتال و خروج کرتے؟

جواب: اصل میں یہ سوال بے علمی اور تاریخی حقائق سے نا بلد اور نا واقف ہونے کا نتیجہ ہے، یا پھر شیعہ حضرات کا وہ جھوٹا پروپیگنڈہ ہے جس سے افسوس کے ساتھ کئ سنی حضرات بھی متاثر ہوگیے ہیں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم نے علم حاصل کرنے، علماء حق سے پوچھنے اور خود دینی کتب پڑھنے کے عمل کو پس و پشت ڈال دیا ہے، اور دنیا کی آسائیشات کے پیچھے آنکھیں بند کر کے لگ گیے ہیں اور اس میں نہ حرام کی پرواہ ہے نہ حلال کی پرواہ ہے، یا پھر ہم اپنی اولاد کو دنیاوی علوم میں تو ماسٹرز اور پی اچ ڈی تک علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں كیونکہ اس سے دنیاوی مستقبل نظر آتا ہے اور اس پر لاکھوں روپے لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور دینی علوم میں قطعا اپنی اولاد کو نہیں کھپاتے، الا من رحم اللہ، یا پھر دینی علوم اور مدارس میں کند ذہن اولاد کو ڈال دیتے ہیں اور پھر جب وہ چھ یا آٹھ سالہ مفتی بننے کا کورس مکمل کر لیتا ہے تو اس سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ فتوی دیں کہ خود کش حملہ حرام ہے. اسی طرح سیدنا حسین سے متعلق شیعہ حضرات کے پروپیگنڈہ کی ایک مثال یوں ہے کہ اگر ایک جھوٹ کو ہر وقت اور بار بار بولا جاۓ تو ایک وقت آتا ہے کہ وہ جھوٹ سچ کا گمان دینے لگتا ہے حالانکہ وہ جھوٹ ہی ہوتا ہے.

اسکی ایک واضع مثال ابتداء شرک ہے، یعنی شرک کی ابتدا کیسے ہوئ؟ سیدنا نوح علیہ السلام کی وفات کے بعد شیطان نے لوگوں کو گمراہ کردیا، روایت کا مفہوم:

پہلے درجے میں لوگوں کو ان پانچ بزرگوں کی وفات پر ان کی تصاویر وبت بنانے کا کہنا یعنی ودا، سواعا، یغوث، یعوق اور نسرا. تاکہ ان لوگوں کے بت و تصاویر کو عبادت خانوں میں رکھیں اور ان کو دیکھ کر تمہیں اللہ یاد رہے اور اگلے درجہ میں شیطان نے لوگوں کو اور گمراہ کردیا اور ان سے توسل و وسیلہ کا سوال کیا اور آخری درجہ میں ان سے کہا کہ ولعیاذ باللہ یہ ہی تو تمہارے رب ہیں.
حوالہ: صحیح بخاری: 11/418، اور مسلم: 18/52، یہ الفاظ اس روایت کا صرف مفہوم ہے اور تفصیل کے لیے دیکھیں سورۃ نوح سورۃ نمبر: 71 آیت نمبر: 22، 23، 24

گویا اسطرح شیطان نے عوام کو جھوٹ کی بار بار ترویج کر کر کے نسلوں بعد گمراہ کر دیا. جہاد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف واپس آتے ہوۓ: سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے عمر ابن سعد کو جو شرائط پیش کیں وہ ثابت کرتیں ہیں کہ وہ کسی قسم کا قتل و غارت نہیں چاھتے تھے بلکہ وہ تو یزید ابن معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو بھی تیار ہوگۓ تھے.

گویا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتال کی نوعیت حاکم وقت کے خلاف خروج کی نہیں تھی اور انہوں نے ہی گفتگو کے دروازے کو بند نہیں کیا اگر وہ لڑنے کے ارادہ سے گیے ہوتے تو آپ کبھی بھی خواتین اور بچوں کے ساتھ نہ لیجاتے. اسی طرح سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید ابن معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو بھی قبول کیا جو عبید اللہ ابن زیاد کی ہٹ درمی کی وجہ سے نہ ہوسکا جیسا کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے، اس تاریخی سانحہ کو مختلف کبار سنی علماء کی کتب سے مختلف پہلوؤں اور جہتوں سے نقل کیا گیا جن میں سلف سے خلف تک کے حوالے تھے، اللہ ہمیں جھوٹ اور گمراہی سے بچاۓ، آمین. اور یقینا ھدایت دینے والا اور سیدھی راہ دکھانے والا تو اللہ رب العزت ہی ہے، اللہ تعالی مجھے اور آپ کو ھدایت دے، آمین.
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448820 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.