ڈونرز کانفرنس: عالمی اداروں کی ناکافی امداد....حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار؟
(عابد محمود عزام, karachi)
عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی
بینک، برطانوی ادارے ڈی ایف آئی ڈی سمیت دیگر عالمی ڈونرز ممالک اور اداروں
نے وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کے آئی ڈی پیز اور متاثرین سیلاب کی
بحالی اور تعمیر نو کے لیے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر کی امداد دینے کے وعدے
کیے ہیں۔ وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ
حکومت نے عالمی امدادی اداروں سے 2.5 ارب ڈالر امداد طلب کی، جس میں آپریشن
آئی ڈی پیز کی بحالی کے لیے 1.5 ارب ڈالر، جبکہ سیلاب متاثرین اور مستقبل
میں سیلاب کی روک تھام کے لیے ایک ارب ڈالر رکھے گئے تھے۔ ڈونرز نے 70 کروڑ
ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ رقم عالمی اور ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپی
یونین اور ڈی ایف آئی ڈی فراہم کرے گا، جبکہ امداد کا وعدہ کرنے والوں میں
جاپان، اٹلی و دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ وزارت خزانہ کی جانب سے کہا گیا کہ
امدادی رقم آئی ڈی پیز اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو پر خرچ ہو
گی۔ متاثرین کی بحالی کی سرگرمیوں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ مالی
امداد کے استعمال کی مانیٹرنگ کا مؤثر طریقہ وضع کیا جائے گا، اس سلسلے میں
ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی، جو امداد کی شفاف تقسیم کے عمل کی نگرانی
کرے گی۔ واضح رہے کہ حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ متاثرین کی بحالی کے
لیے عالمی برادری سے امداد کی اپیل نہیں کرے گی، لیکن گزشتہ ماہ قبائلی
علاقوں کے لیے وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کا یہ بیان
سامنے آیا کہ شمالی وزیرستان سے جنگ کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کی
بحالی کے لیے حکومت نے بین الاقوامی اداروں اور ملکوں سے مالی مدد لینے کا
فیصلہ کیا ہے۔ شمالی وزیرستان میں جنگ سے تباہ ہونے والے بنیادی ڈھانچے (انفراسٹرکچر)
کی تعمیر نو کے لیے ڈیڑھ سو ارب روپوں کی ضرورت ہے۔ شمالی وزیرستان میں
مکانات، کاروبار اور سہولیات کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
ہر چیز نئے سرے سے بنانا پڑے گی اور حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔ اس
لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں تعمیر نو کے لیے غیر ملکی (مالیاتی)
ایجنسیوں سے مدد کی اپیل کریں گے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ متاثرین کی بروقت
بحالی حکومت کی ذمہ داری ہے، حکومت اپنی اس ذمہ داری کو نبھا نہیں سکی۔
اگرچہ حکومت نے اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے
عالمی برادری سے امداد نہ لینے کا اعلان کیا تھا، لیکن حکومت اپنے اعلان پر
قائم نہ رہ سکی اور اس کو ڈونرز کانفرنس میں امداد طلب کرنا پڑی، لیکن
حکومت کو مطلوبہ امداد نہ مل سکی، حکومت نے عالمی امدادی اداروں سے 2.5 ارب
ڈالر امداد طلب کی تھی، لیکن صرف 70 کروڑ ڈالر کی امداد مل سکی ہے۔ حکومت
کو مطلوبہ امداد کا نہ ملنا حکومت کے لیے سبکی کا باعث ہے، کیونکہ اس سے
ثابت ہوتا ہے کہ عالمی اداروں کو پاکستان کی حکومتی اور انتظامی مشینری پر
اعتماد نہیں ہے، اگر ان کو اعتماد ہوتا تو وہ حکومت پاکستان کی جانب سے طلب
کی گئی پوری امداد دینے کا اعلان کرتے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ پاکستان
میں انتظامی مشینری نا اہل ہے اور اس میں کرپشن عام ہے، جو امداد دی جاتی
ہے، وہ مستحق افراد تک پہنچ نہیں پاتی، ایسا پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے کہ
ملک میں آنے والی کئی قدرتی آفات کے بعد عالمی برادری نے امداد دی تو اعلیٰ
عہدوں پر براجمان افسران مستحق افراد کی اس امداد کو بھی ہضم کرگئے، جس کے
بعد عالمی ادارے امداد دیتے ہوئے پرامید نظر نہیں آتے۔ یہ بھی خیال رہے کہ
چند ماہ قبل ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں پاکستان کو کرپٹ ترین
ملکوں میں شمار کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ
کرپشن سرکاری اداروں میں ہوتی ہے، اس قسم کی رپورٹس کے سامنے آنے کے بعد
عالمی برادری و عالمی اداروں کا پاکستان کی حکومتی و انتظامی مشینری پر
اعتماد ہونا مشکل ہے۔ ہمارے یہاں تو ملک کے سربراہان تک پر کرپشن کے
الزامات ہوتے ہیں، جس سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ منگل کے روز
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں منگل کو ای او بی آئی سکینڈل سے متعلق کیس
کی سماعت میں نیب کی جانب سے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف کے خلاف مالی
بدعنوانیوں اور غیر قانونی تقرریوں سے متعلق ریفرنس دائر کیا گیا۔ ریفرنس
میں سابق ای او بی آئی چیئرمین ظفر اقبال گوندل کو بھی ملزم ٹھہرایا گیا۔
نیب کی جانب سے دائر ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملزمان نے قومی خزانے
کو 60 ارب روپے کا ٹیکا لگایا، جب کہ سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے
اپنے اختیارات کا نا جائز استعمال کرتے ہوئے اپنے داماد کو ورلڈ بینک میں
نوکری دلائی، نہ صرف یہ بلکہ دیگر کئی اور غیر قانونی بھرتیاں بھی کیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ہمارے سربراہان کے حوالے سے اس قسم کی خبروں کے بعد
عالمی برادری کا ہم سے مزید اعتماد اٹھ رہا ہے اور ہم دن بدن مزید تنہا
ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف امن و امان کی مخدوش صورتحال ملک میں غیرملکی
سرمایہ کاری میں بڑی رکاوٹ ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم نوازشریف نے جرمنی برلن
میں کہا کہ ہائر ایجوکیشن سمیت کئی امور پر جرمنی کے ساتھ تعاون جاری ہے
اور جرمن سرمایہ کاروں کی پاکستان میں توانائی کے شعبے میں دلچسپی ہے، جرمن
چانسلر اینجلا مرکل کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات آگے
بڑھانا چاہتے ہیں، پاکستان کے معاشی حالات مزید بہتر بنائے جاسکتے ہیں،
لیکن سیکورٹی کی صورتحال وہاں سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہے، اس لیے سرمایہ
کاروں کو سرمایہ کاری کرنے کے لیے زبردستی نہیں کرسکتے۔
مبصرین کے مطابق اگرچہ حکومت کو مطلوبہ امداد عالمی برادری سے نہیں مل سکی،
لیکن جو امداد ملی ہے کم از کم اسی کو متاثرین پر خرچ کر کے ان کی بحالی و
واپسی کوجلد از جلد ممکن بنایا جائے، یہ نہ ہو کہ مل جانے والی امداد میں
بھی گھپلے شروع ہو جائیں اور مستحق افراد ایک بار پھر ہاتھ ملتے رہ جائیں۔
اگرچہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ متاثرین کی بحالی کی سرگرمیوں میں شفافیت
کو یقینی بنایا جائے گا، لیکن اس بات پر اس وقت تک یقین نہیں کیا جاسکتا جب
تک حکومت اپنے اس اعلان پر عمل نہ کر کے دکھائے۔ متاثرین کی فوری بحالی
انتہائی ضروری ہے، کیونکہ ملک میں سردی بڑھ جانے سے دن بدن آئی ڈی پیز کی
مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
شمالی وزیرستان کے متاثرین شدید گرمی کے موسم میں بے گھر ہوئے تھے۔ متاثرین
کا خیال تھا کہ شاید وہ سردی کا موسم اپنے ہی گھروں پر گزاریں گے، لیکن
شاید ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ گرمی کی طرح انھیں اب شدت سرد موسم کے
اثرات کو بھی جھیلنا پڑے گا۔ پہلے متاثرین نے گرمیوں کی سختیاں برداشت کیں،
جس کی وجہ سے کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں اور اب سردی کی وجہ سے بھی انھیں شدید
مشکلات کا سامنا ہے۔ رات کے وقت کیمپ میں سخت سردی ہوتی ہے اور بچے ساری
رات ٹھنڈ کی وجہ سے چیختے چلاتے رہتے ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ سردی کی
شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اگر حکومت کی طرف سے بروقت کوئی
انتظام نہیں کیا گیا تو خاص طور پر بچے بیماریوں اور اموات کا شکار ہو سکتے
ہیں۔ ہم تو متاثرین ہیں، ہمارے پاس کپڑے تک نہیں تو سردی سے بچاو ¿ کا کیا
انتظام کریں گے۔ دس لاکھ کے قریب متاثرین سالوں تک کیمپوں اور کرائے کے
مکانات میں نہیں رہ سکتے، لہٰذا اب اپنے اپنے علاقوں کو جانے کی اجازت ملنی
چاہیے۔ یہ خیال رہے کہ متاثرین آپریشن کئی بار اپنی واپسی کے لیے احتجاج
بھی کرچکے ہیں، لیکن ان کی آواز پر کان نہیں دھرا جاتا۔ اب آپریشن کے نتیجے
میں بے گھر ہونے والے متاثرین پناہ گزین کیمپوں یا شہر کے دیگر علاقوں میں
جرگوں کی شکل میں سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ متاثرین اس بات کے
منتظر ہیں کہ کب حکومت کی طرف سے ان کی واپسی کے بارے میں کوئی اہم اعلان
ہو، تاکہ وہ جلد از جلد اپنے اپنے علاقوں کو واپس جائیں، کیمپوں میں مکین
متاثرین ہر صبح اٹھ کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں سے ان کی واپسی
کے بارے میں کوئی خبر تو نہیں آئی؟ مبصرین کا کہنا ہے کہ متاثرین کی بحالی
و واپسی کا انتظام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، آپریشن شروع کرنے سے پہلے
حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ متاثرین کو عیدالفطر سے قبل ہی ان کے گھروں
میں واپس بھیج دیا جائے گا، اب جبکہ موسم سرما میں شدت آتی جا رہی ہے، اس
کے باوجود متاثرین کی واپسی و بحالی کے امکانات نظر نہیں آ رہے، حکومت کو
چاہیے فوری آئی ڈی پیز کی بحالی کا بندوبست کرے۔ |
|