تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے رحیم یار خان کے
جلسہ عام میں انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے نیا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش
کرتے ہوئے آزادوخود مختار بشمول آئی ایس آئی و ایم آئی کے حکام پر مشتمل
کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔تحقیقات کے لیے 4سے6 ہفتے کا ٹائم فریم
مقرر کیا جائے۔تحقیقات کے دوران نواز شریف ہی وزیر اعظم ہو گے ،دھرنا بھی
جاری رہے گا۔چھ ہفتوں میں تفتیش کو یقینی بنایا جائے اور اتفاق رائے سے
کمیشن کا سربراہ مقرر کرنا ہو گا ۔30نومبر کی ڈیڈلائن دے رہے ہیں اس کے بعد
دھرنا پرامن نہیں رہے گا نواز شریف کو ملک اور حکومت دونوں چلانا مشکل ہو
جائے گا ۔انھوں نے کہا کہ لوگ مایوسی پھیلاتے ہیں ۔انتخابی دھاندلی کی
تحقیقات تک دھرنا جاری رہے گا۔
شکر ہے کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے عمران خان نے اپنے آپ کو بند گلی سے
نکالنے کا ایک راستہ خود ہی بنانے کی کوشش کی ہے ،جس سے ان کے کارکنوں میں
اعتماد کی لہر دوڑگئی ہے ۔ان دھرنوں نے ملک کی صورتحال پر منفی اور مثبت
دونوں اثرات ڈالے ہیں ،اس پر بعد میں کسی وقت بات ہو گی ۔ہم یہاں پر یہ بات
بتانا چاہتے ہیں کہ اسی طرح کی تجاویز ہم مختلف اوقات میں دیتے رہیں ہیں ۔نو
ستمبر کو ـ:عمران خان کی ضد : کے عنوان سے مضمون میں لکھا تھا کہ "عمران
خان کی یہ ضد کے استعفالے کر ہی واپس جائیں گے بڑی عجیب بات لگتی ہے"پھر
اسی مضمون میں آگے چل کر اس بات کی نشاندہی کی کہ "سراج الحق صاحب کی قیادت
میں جو جرگہ کام کرہا ہے وہ مذاکرات میں کسی حد تک کامیابی کی منزل تک
پہنچا ہوا محسوس ہو تا ہے ۔پی پی پی کے خورشید شاہ نے بھی ایک راستہ نکالنے
کی کوشش کی تھی کہ اگر انتخابات میں دھاندلی ثابت ہو جائے تو پھر وزیر اعظم
سے استعفے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔یعنی وہ عمران خان کے مطالبات میں
ترتیب کی تبدیلی چاہتے ہیں ۔ویسے بھی عمران خان ایک سال تک دھرنے کی بات
کررہے ہیں ۔لہذا اگر کچھ اس طرح کی بات آپس میں طے ہو جائے کہ عمران خان کی
تجویز کردہ چار سیٹوں پر انگوٹھوں کے نشانات چیک کر لیے جائیں ،اگر دھاندلی
ثابت ہو جائے تو ن لیگ پھر کسی اور کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کردے یا
پھر کسی نگراں حکومت کا سلسلہ شروع کیا جائے اور مڈٹرم انتخابات کی بات کی
جائے ۔اس کے بعد دھرنا ازخود ختم ہو جائے گا ۔"
20ستمبر کو "یہ دل و دماغ کی جنگ ہے"کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ
" بہر حال دھرنے والوں سے ہماری گزارش یہ ہے کہ اپنے استعفے والے دباؤ کو
برقرار رکھتے ہوئے آئندہ کی انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں کوئی تحریری
معاہدہ کرلیں تا کہ اس میں اگر کوئی آئینی ترمیم کی ضرورت پڑے تو اس پر بھی
آسانی سے عمل ہو جائے قوم کو بھی کوئی جزوی خوشخبری مل جائے گی۔جہاں تک
2013کے انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ ہے اس پر عدلیہ کے جیوڈیشل کونسل کے
ذریعے فیصلہ حاصل کیا جائے اگر اس الیکشن میں دھاندلی ثابت ہو جائے تو پھر
وزیر اعظم کو استعفا دے دینا چاہیے اور اسمبلی توڑ کر دوبارہ انتخابات کا
اعلان کر دیا جائے بظاہر یہ کام مشکل نظر آتا ہے لیکن موجودہ پیچیدہ
صورتحال سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی تو راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔"
4اکتوبر 2014کو اپنے مضمون بہ عنوان"کیا برف پگھل رہی ہے "میں پھر عمران
خان کو یہ مشورہ دیا گیا کہ" عمران خان کو چاہیے کہ اب اپنے دھرنے کو اگر
وہ ختم نہیں کرتے تو موبائل دھرنوں میں تبدیل کردیں جوڈیشنل کمیشن کے قیام
کے بعد وہ 45دن تک اپنے دھرنوں کو صوبوں میں تقسیم کر دیں ایک ہفتہ سندھ
صوبے میں دوسرا کے پی کے میں تیسرا بلوچستان میں اور چوتھا صوبہ پنجاب کے
شہر لاہور میں اور آخری بقیہ دن پھر اسلام آباد میں ۔اگر اس درمیان جوڈیشنل
کمیشن کا یہ فیصلہ آگیا کہ 2013کے انتخاب میں دھاندلی ہوئی تھی تو جرگہ کی
تجویز کے مطابق نواز شریف صاحب کو وزارت عظمیٰ سے استعفا دے دینا چاہیے اور
مڈ ٹرم انتخاب کے لیے ٹیکنو کریٹس پر مشتمل حکومت تشکیل دی جائے جو فوج کی
نگرانی میں انتخاب کرائے اور اگرجوڈیشنل کمیشن یہ فیصلہ دیتا ہے کہ 2013کے
انتخابات میں کوئی منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے کہیں اگر کوئی شکایت ہے
تو وہ مقامی اور انفرادی نوعیت کی ہے تو جیسا کہ عمران خان نے بیان دیا ہے
کہ اگر دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو وہ نواز شریف صاحب سے معافی مانگ لیں گے
۔اصولی اعتبار سے عمران خان کو وزیر اعظم سے معافی مانگ کر اپنے استعفے
واپس لینا چاہیے اور اسمبلیوں میں اپنا پارلیمانی رول ادا کرنا چاہیے ۔ـ"
آج کے بیان میں عمران خان بھی چھ ہفتے کی بات کی ہے اس دوران سپریم کورٹ کی
طرف سے فیصلہ آجائے اس درمیان دھرنے جاری رہیں گے ہم نے بھی چار اکتوبر
والے مضمون میں اسی طرح کا مشورہ دیا تھا بس اس میں یہ اضافہ ضرور کیا تھا
کہ منہ کا مزہ بدلنے کے لیے مستقل اسلام آباد کے دھرنے کو موبائل دھرنوں
میں تبدیل کیا جائے۔آخر میں ہم حکومت سے یہ امید رکھیں گے وہ عمران خان کے
اس پیکج سے فائدہ اٹھائے یہی پیغام جرگہ والے ان کے پاس لے کر گئے تھے جس
کو اب عمران خان نے چند شرائط کے ساتھ تسلیم کرلیا ہے ،اگر اس پہلو سے
مذاکرات شروع ہو جائیں تو یہ صرف سراج الحق کی کامیابی نہیں ،بلکہ تمام
جمہوری قوتوں کی کامیابی کہلائے گی ۔ |