ادھر اعلان اُدھر بیان

گلگت بلتستان کی اہمیت کے حوالے سے پاکستان کے حکمرانوں کو بھی اتنی جانکاری نہیں تھی، کہ آیا یہ خطہ اس قابل بھی ہے کہ اس کی طرف توجہ دی جاسکے۔چونکہ متعددبار حکمرانوں نے کہاکہ گلگت کس جانب ہے یعنی انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ جی بی تک پہچنے کے لئے کونسا راستہ جاتا ہے ۔جب سے گلگت بلتستان میں قوم پرسٹ جماعتوں نے یہ دعویٰ کیا کہ گلگت بلتستان سے اربوں کے حساب سے حکومت پاکستان کو منفعت ملتا ہے جس کا کوئی حساب بھی نہیں،اور اپنی شناخت کے ساتھ گلگت بلتستان کا مقدمہ بھی ایک حوالے سے انٹرنیشنل فورم میں پیش کیا گیا تو یہ بات دنیاس بھر میں پھیلنے لگی تب جا کر انہیں گلگت بلتستان کی اہمیت کا نہ صرف اندازہ ہوا بلکہ اچھی طرح اندازہ ہونے لگا۔جو چیز کسی کومفت میں حاصل ہو تو اس کی کوئی وقعت نہیں رہتی ہے اسی طرح اب تک گلگت بلتستان سے پاکستان کو دریائے سندھ کا پانی مفت میں مل رہا ہے ،سست بارڈر سے اربوں کا ٹیکس انہیں مل رہا ہے۔سیاحت سے حاصل آمدنی انہیں مل رہی ہے، جگلات، و دیگر ذرائع کے علاوہ ایک اہم چیز جسے شمار ہی نہیں کیا جارہا ہے وہ ہے دنیا کا آٹھواں عجوبہ ’’شاہرا قراقرم‘‘ جو پاکستان اور چین کی مئحبت کی ایک طرح کی کسوٹی ہے جو گلگت بلتستان کے سینے سے گزر رہا ہے اس کا بھی ٹیکس اس خطے کے عوام کو ملنا چاہئے ۔ جبکہ اس شاراہ کو وسعت دینے میں یہاں کے عو ام کی جو قیمتی زمینیں شامل کی گئیں ہیں انہیں انٹرنیشنل سطح کے برابر معاوضہ ملنا چاہئے اور لینا ان کا حق بھی ہے۔خیریہ ایک لمبی لسٹ ہے ہم موضوع کی طرف چلتے ہیں،حیرت اس بات پر ہے کہ جب بھی اس خطے کو دینے کی بات آئی ہے تو یہ کہ کر ٹھکرا دیا ہے کہ گلگت بلتستان ہمارے آئینی دائرے کار میں نہیں آتا ہے۔ جب کہ یہاں کے عوام کو دبانے کے لئے زونE لگانے سے بھی گریز نہیں کیاجاتا ہے،جتنا مزاق اس خطے کے عوام کے ساتھ ہورہا ہے شاید ایسی مثال کہیں موجود ہو۔گو کہ اب یہاں کے میٹرک کے طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ گلگت بلتستان صوبہ نہیں بن سکتا ہے اور نہ اس خطے کو صوبہ بناناپاکستان کے دائرہ اختیار میں ہے۔اگر حکومت پاکستان کی بس کی بات ہوتی تو گھٹنوں بل چل کے یہاں آکر صوبے کا اعلان کیا جاتا یہ دنیا کا ایک اہم ترین خطہ ہے خوا ہ جغرافیائی لحاظ سے یا وسائل کے اعتبار سے جس زاویئے سے بھی نظر دوڑائیں یہ خطہ نایاب ہے۔اگر آئین کی بات کریں تو k2اور کیٹو سر کرنے والے جی بی کے سپوت آئین میں شامل ہیں کے ٹو سے نام اونچا اور سر کرنے والوں نے پاکستان کا پرچم نصب کیا ہے اس لئے ان کا نام لیا جارہا ہے۔اب جناب صدر مملکت ممنون حسین نے اپنے خطاب کے دوران جذبہ خطابت میں یہ بھول بیٹھے کہ جو میں لولی پاب انہیں دے رہا ہوں یہ تو یہاں کے طالب علموں کو بھی معلوم ہے آئینی حصہ بنانے اور وفاق میں بھی نمائندگی کا اعلان کر ڈالا،یہی تو ان کی اس خطے کی حقیقت سے نا آشنائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔صدر مملکت نے دیگر بہت سارے اعلانات بھی کئے ہیں جو کہ خوش آئند ہے ہاں یاد آیا ایک اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب نے بھی اہم اعلانات کئے تھے وہ خوش آئند تھے ہم تو اعلان سن کر بھی خوش ہونے والے لوگ ہیں کیونکہ ہمارا بھی تو ایک معیار ہے۔صدر مملکت ممنوں حسین نے کہا کہ آئینی صوبہ بھی بنایا جائے گا۔اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کے صدر حافظ حفیظ الرحمٰن نے بیان دیا کہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا صوبہ نہیں بن سکتا ہے،ایک طرف صدر کا اعلان تو دوسر ی طرف یہاں کے صدر کا بیان نے ان لوگوں کو بھی باخبر بنایادیا جو اب تک لا علم تھے کہ گلگت بلتستان کو صوبہ کیوں نہیں بنایا جارہا ہے۔ہم حفیظ الرحمٰن کی اس حقیقت پر مبنی بیان پر انہیں سلام پیش کرتے ہیں یہ واقعی بہت بڑی بات ہے وہ اس لئے کہ آج تک دیگر وفاقی جماعتوں کے کسی بھی لیڈر نے ایسا کہنے کی ہمت ہی نہیں کی ہے ۔حافظ صاحب گلگت بلتستان کے پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے اس بہر منجمد پر پہلا پتھر پھینکا ہے۔اب دیکھتے ہیں یہاں کی سیاست کیا رنگ دکھاتی ہے۔اب ہم سب سے پہلے حفیظ الرحمٰن کو اور بعد میں تمام وہ سیاستدان جو تا حال اسمبلی میں موجود ہیں انہیں ایک معصومانہ سا مشورہ دینا چاہیں گے جو یقینا یہاں کے معصوم عوام کا معصومانہ سوال ہے۔کہ جی بی کے تمام وفاقی پارٹیز کے ذمہ دار وں کو حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ تا تصفیہ کشمیر ہمیں بھی آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔ جب تک کشمیر کا تصفیہ نہیں ہوگا اس وقت تک آزاد کشمیر کی طرح اس خطے کو بھی داخلی خود مختاری ملنی چاہئے۔ تاکہ ہم اپنا بجٹ بھی خود بنا سکیں ،اپنا وزیر اعظم اپنی اسمبلی اور اپنا نظام جو ہم یہاں کے روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کرینگے تاکہ اس سخطے میں پہلے جیسا امن اور بھائی چارگی کی فضا پھر سے وجود میں آسکے۔پاکستان کے حکمران تو ہمیں لولی پاپ دے دیں گے چونکہ ایسا کرنا ان کے اپنے مفاد میں ہے لیکن ہمارے سیاستدان بھی وفاقی لیڈروں کی طرز سیاست کو فروغ دینے میں کسی سے پیچھے نہیں یہ پریشانی کی بات ہے۔اس وقت دنیا میں لوگ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد میں مصروف عمل ہیں اور ہمارے یہاں پر تو سیاسی طور پر شہر خموشاں کا نقشہ نظر آرہا ہے۔یہ تو وفاق پرستوں کی بات ہے جبکہ یہاں کے قوم پرستوں کے اندر بھی خاموشی چھا گئی ہے یہ بھی شاید تھک چکے ہیں۔اس کا ایک حل یہ نظر آتا ہے کہ جی بی سطح پر ابھی ہونے والے الیکشن میں ہر جگہ سے قوم پرست میدان میں آجائیں جب ایسا ہوگا تو عوام ضرور انہیں مایوس نہیں کریں گے جب قوم پرستوں کی تعداد یہاں کی اسمبلی میں اکثریت میں ہوگی تو ٹھوس بنیادوں پر یہ لوگ قومی حقوق کے لئے بہتر طریقے سے جدوجہد کریں گے۔اس کے بعد کسی صدر یا وزیر اعظم کو یہاں آکر جھوٹ کا سہارا لینے کی بھی ضرورت نہیں پڑیگی۔ایک بات پھر واضح کرتا چلوں کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں حفیظ الرحمٰن کا یہ بیان نمایاں طور پر لکھاجائیگا۔خطے کے ثپوت ہی خطے کے عوام کا درد محسوس کر سکتا ہیں، اسی لئے ادھر صدر کا اعلان ہوا تو یہاں حفیظ الرحمٰن نے بیان دے کر اس اعلان کا رخ اعلان تک محدود کر دیا جب یہاں کا سیاستدان مشترکہ قومی مفاد پر جدوجہد کریگا تو کسی کو گندم کے حصول کیلئے اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ہمیں مانگنے کی نوبت نہیں آئیگی۔عوام بھی دیکھ رہی ہے وفاقی لیڈر ہوں یا یہاں کے قومی لیڈر کون سالار کارواں بنتا ہے کون آگے بڑھے گا ،کن کن کی سیاست الیکشن تک محدود ہوگی اور کون قومی مفاد پر میدان عمل میں اترے گا، یہ سب دیکھا اور پرکھاجارہا ہے چونکہ اب بچے بھی سیاسی ہوچکے ہیں۔

YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 25992 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More