کیا اس بھی زیادہ گری ہوئی کوئی
حرکت ہوگی کہ صرف تھوڑی سی رقم یا ذاتی دشمنی نکالنے کے لیئے کسی پر بھی
توہین مذہب کا الزام لگاکر اُس کو زندہ جلادو۔ بدقسمتی سے تعلیم کی کمی کے
باعث اب ہم ایسی قوم کے فرد ہیں جو سنی سنائی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور
اگرکوئی بات ثبوت کے ساتھ کی جائے تو اُس کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔
کوٹ رادھا کشن میں ایک مسیحی جوڑے کو آگ میں زندہ جلا دیا گیا، مذہب کے
نام جو کچھ ہوا وہ اسقدر قابل مذمت ہےکہ ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھکا ہوا
ہے۔اصل جھگڑا مذہب کا نہ تھا بلکہ مالک اور مزدور کا تھا ، رقم کا تنازعہ
تھا۔لیکن اس ملک میں حیوانیت تو ایک عرصے سے موجود ہے اور جب حیوانیت کا
غلبہ ہوتا ہے تو پھرحیوان مذہب، قانون، انسانیت اور اخلاقیات کسی کی پرواہ
نہیں کرتے، تمام حدود پھلانگ کر اپنے مفادات کےلیے مذہب اور فرقہ کے نام پر
حیوانیت کا ننگا ناچ ناچتے ہیں، معصوم لوگوں کو بیدردی سے قتل کر دیتے ہیں
چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ ابھی پاکستانی سانحہ واہگہ بارڈر کی دہشت
گردی کو رو رہے تھے کہ یہ مذہبی دہشت گردی ہوگئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس
پورئے ملک میں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سکون ہو، عدم تحفط کا خوف نہ ہو؟
کراچی سے لیکر ملک کے آخری سرئے تک کوئی ایسی جگہ نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے؟
جواب سیدھا سیدھا ہے کہ انصاف کا دور دور پتہ نہیں اور مجرم کو سزا کا خوف
نہیں۔ جب تک ملزموں کو انصاف کے کٹہروں میں نہیں لایا جاتا اور ملزموںمیں
سے مجرموں کو علیدہ کرکے اُن کو سزایں نہیں ملتیں پاکستان سے سیاسی
اورمذہبی دہشت گردی سمیت ہر طرح کی بربریت اور سفاکیت سے پر واقعات جنم
لیتے رہیں گے۔جو حکومت اپنے عوام کی جان ومال کا تحفظ نہ کرسکے، وہاں
اقلیتوں کی عزت، اُنکی جان و مال کے تحفظ کا سوچنا بھی عبث ہے۔
پاکستانی معاشرہ تو محبت، رواداری،مساوات،انصاف،شخصی اور مذہبی آزادی، ترقی
،علم وآگہی، جدیدیت اورانسانی قدروں کا ترجمان تھا لیکن انسانوں میں آپس
میں نفرتوں کے تصور کو اس ملک کے ظالم ترین ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق نے اپنے
اقتدار کو طول دینے کے مذموم مقاصد کے لیئے فروغ دیا۔اُس ہی کے زمانے میں
کرائے کے جہادی لائے گے جو ابتک باون ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی جان
لےچکے ہیں، اُس نے ہی علماء سو اور نام نہاد جہادی عناصر پیدا کیئے اور
ایسی دہشت گرد تنظمیوں کو فروغ دیا جو اب بھی مختلف مسالک کے درمیان نفرت
کے بیج بورہے ہیں اور تنگ نظری، مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلارہی
ہیں۔اُنہی علماء سو اور نام نہاد جہادی عناصر نے نفرت کے کاروبار کو فروغ
دیا، مذہبی منافرت کو پھیلایا، مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈہ
کیا اور غلیظ لٹریچرکی اشاعت کی۔ ضیاء الحق کے دور میں نصاب تعلیم میں
تبدیلیاں کرکے درسی کتابوں میں نفرت انگیز لٹریچر ڈالا گیا جس کو پڑھ کر
نئی نسل اب اقلیتوں کی وفاداری کو شک اور شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ضیاء
الحق کے دور میں ہی پاکستان میں پہلی مرتبہ سکھر میں ایک مندرمیں تھوڑ پھوڑ
ہوئی۔
اب اقلیتیں تو دور کی بات ہے یہاں تو اب مسلمانوں سے بھی دشمنی نکالنے کے
لیئے توہین مذہب کا الزام لگا دیاجاتا ہے، یہ الزامات زیادہ تر ذاتی رنجش
اور چپقلش کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور زیادہ تر کیسز میں الزام لگتے ہی اس کو
مشتعل ہجوم موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ جھوٹے علماء دین نے اسلام کو غنڈہ
گردی کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔اُن کی جنونیت کا زہریلا پھن کئی بیگناہ انسانوں
کو ڈس چکا ہے اور اُن کا جب دل چاہتا ہے کسی کے بھی خلاف فتویٰ دے دیتے ہیں
جس کو جب اور جہاں چاہیں قتل کرادیتے ہیں، جسکی ایک مثال تھوڑئے عرصے پہلے
کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کا قتل ہے۔ گذشتہ برس مسلم لیگ
نواز کے برسر اقتدار آنے کے بعد اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مزید
اضافہ دیکھا گیا ہے۔ نواز شریف کو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اسلام پسندوں
کے لیے زیادہ نرم گوشے کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستانی کی 180 ملین
آبادی میں غیرمسلم شہریوں کا تناسب انتہائی کم ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس
مسئلے کے حل کے حوالے سے کوئی مؤثر قانون سازی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ عالمی میڈیا بھی پاکستان میں اقلیتوں پر ہونے والے ظلم
کے خلاف چیخ رہا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان میں آئے دن
مذہبی دہشت گردی اور جاں لیوا حملوں میں تمام اقلیتیں بشمول ہندو، مسیحی،
احمدی حتیٰ کہ مسلمان شیعہ کمیونٹی بھی متاثر ہو رہی ہیں جب کہ ریاست اس
تشدد کو رکوانے میں مکمل بے بس اور ناکام دکھائی دیتی ہے بلکہ کسی حد تک ان
واقعات پر کوئی نوٹس نہ لے کر وہ انہیں شہ دے رہی ہے۔ امریکی کمیشن برائے
مذہبی آزادی نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں پاکستان کو ماضی کے مقابلے میں
مزید نچلے درجے پر رکھا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد حکومت
ملک میں موجود اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان واقعات میں ملوث افراد کو
انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہی ہے۔ مائنورٹی رائٹس گروپ انٹرنیشنل
نے 2014 کی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں ساتویں نمبر
پر رکھا ہے جہاں اقلیتوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ اور مذہبی قتل و غارت میں اضافہ
ہوا ہے۔
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے11اگست 1947 کو پاکستان کی دستور ساز
اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "آپ آزاد ہیں، آپ لوگ اس ملک پاکستان
میں اپنی اپنی عبادت گاہوں ، مسجدوں، مندروں یا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے
کے لیے آزاد ہیں، آپ کا مذہب کیا ہے، فرقہ کیا ہے، ذات کیا ہے، قوم کیا ہے
اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہم اس بنیادی اصول سے آغاز کریں
گے کہ ہم سب ریاست کے شہری ہیں اور ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں"۔
قائداعظم کا مزید کہنا تھا کہ تمام مذاہب، فقہوں اورمسالک سے تعلق رکھنے
والے پاکستانیوں کے ساتھ مساوی سلوک کیاجائے اورانہیں برابرکاپاکستانی
سمجھاجائے۔ افسوس آج پاکستان میں قائد اعظم کی یہ تقریر ریکارڈ پر تو نظر
آتی ہے لیکن عمل الٹا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے جو از خود نوٹس پشاور میں ایک گرجا گھر پر ہونے
والے خودکش حملوں کے علاوہ چترال میں کیلاش اور اسماعیلی فرقے کو دھمکیاں
ملنے کے واقعات پر لیا تھا، اُس از خود نوٹس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ اقلیتی
فرقے کے لوگ اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر رورہے ہیں، وہ سندھ میں 12 سال کی
ہندو بچی کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس ظلم پر رورہے ہیں، وہ کوٹ رادا کشن میں
ایک مسیحی محنت کش جوڑے کو آگ میں زندہ جلا دینے پر رو رہے ہیں ، یقینا یہ
ظلم ہے لیکن افسوس یہاں تو مسلمانوں کو بھی تحفظ حاصل نہیں ہے اور جس کو
یقین نہ آئے تو وہ کسی بھی مذہبی درندے کے سامنے اپنے عقیدئے کا ذکر کرکے
دیکھ لے۔ لہذا ائے اقلیتی برادری کے دوستوں جب معاشرئے میں درندگی بڑھ جاتی
ہے تو پھر مہذب اور فرقہ درندگی کرنے کےلیے بہترین اوزار ہوتے ہیں، اور
پاکستان میں اسوقت مہذب اور فرقے کے نام پر درندگی عروج پر ہے۔ اقلیتوں پر
جب بھی ظلم ہوتا ہے تو پاکستان بدنام ہوتا ہے اور پاکستان کے دشمن یہ ہی
چاہتے ہیں۔ان تمام باتوں کے باوجود ہم عام پاکستانی مسلمان اپنے اقلیتی
پاکستانی بھایئوں سے شرمندہ ہیں۔ |