افراد اور اجتماعیت(تنظیم و
تحریک یاملک و قوم) کے حرکنات و سکنات کاحقیقی محرک اس کی ضرورت یا خصلت کے
مطابق ہوتے ہیں۔ عام طور پر ضرورت وقتی ہوتی ہے اور خارجی عوامل کے سبب
عالم وجود میں آتی ہے۔ اس کے برعکس دائمی خصلت کا منبع و مرجع داخلی فطرت
میں پنہاں ہے۔ انسانی سماج میں رونما ہونے والے واقعا ت کا معروضی جائزہ اس
بات کاتقاضہ کرتا ہے کہ اس کے پسِ پشت کارفرما ضرورت و مصلحت کا پتہ لگایا
جائے۔ لیکن یہی ایک پہلو کافی و شافی نہیں ہے بلکہ اس واقعہ میں ملوث افراد
و اجتماعیت کی خصلت وفطرت کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے ۔ اس ماہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک تجویز پیش ہوگی جس میں ۲۰۱۶ تک
فلسطینی حدود سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کیا جائیگا ۔یہی
وجہ ہے کہصہیونی انتہا پسندحواس باختہ ہوکر مسجدِ اقصیٰ کو نشانہ بنا نے
لگےہیں ۔
جمعرات ۳۰ اکتوبر کواسرائیل کی غاصب حکومت نے ایک انتہا پسند یہودی ربی
یہودہ گلیک پر حملے کا بہانہ بنا کر مسجد اقصیٰ کو دن بھر کیلئے بند کردیا
۱۹۶۷ کے بعد پہلی مرتبہ کئے گئے اسرائیل کے اس ظالمانہ اقدام کو اعتدال
پسند فلسطینی رہنما محمود عباس نے بھی اعلان جنگ قرار دیا۔ دوسرے دن مسجد
کو کھول دیا گیا اور مسلمانوں نے اپنی روزمرہ کی عبادات کا آغاز کردیا
لیکن اسرائیلی اشتعال انگیزی بند نہیں ہوئی ۔اتوار کے دن اسرائیلی پارلیمان
کے ڈپٹی اسپیکرفیگلن مسجد اقصیٰ کے احاطے میں پہنچ گیااس کے بعد شولی معلم
نے اس کی اقتداء کی اور دوسرے دن زپی ہوٹوفیلی نے بھی بیت المقدس کا رخ
کیا۔ اسرائیلی سیاستدانوں کی ان حرکات کی مذمت اسرائیل کے نہایت سخت گیر
وزیر خارجہ افوگڈور لائیبرمین نے بھی کی اوراسے غیر دانشمندانہ قراردیا۔
لائیبرمین نے کہا کہ یہ سستی اور آسان شہرت کیلئے کی جانے والی نازیبا
حرکتاور پیچیدہ سیاسی صورتحال کا استحصال ہے۔ لیبرمین نے اعتراف کیا کہ
کشیدگی میں اضافہ سے کچھ بھی ہاتھ نہ آئیگا۔ لیبر مین نے مسجد اقصیٰ کو وہ
سرخ لکیر بتایا جسے کسی صورت عبورنہیں کرنا چاہئے نیزواضح کیا کہ اس کی
اپنی جماعت اس ہنگامے سے دور ہے اورانتہا پسند عناصرسماج میں آگ لگا کر اس
پر اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ ۔
اردن کے شاہ عبداللہ ثانی مسجدِ اقصیٰ کے متولی ہیں ۔۱۹۶۷ میں طے شدہ
معاہدے کی روسے یہودیوں کو مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں داخلے کی اجازت تو
ہے لیکن عبادت کا حق نہیں ہے ۔ پہلے چار یا پانچ یہودی زائرین ادھر کا رخ
کرتے تھے لیکن حال میں یہودی زائرین (جو عبادت نہیں کرتے)کی یومیہ تعداد
پچاس تک پہنچ گئی ہے ۔۵ نومبرکو ۳۰۰ حفاظتی دستوں کی معیت میںانتہا پسند
یہودیوں کے ایک گروہ مسجدِ اقصیٰ کے اندرعبادت کیلئے داخل ہوگیا۔ پولس نے
اس کو روکنے کے بجائے عبادت گزار مسلمانوں پر پلاسٹک کی گولیاں برسائیں ۔
آنسو گیس کے گولے چھوڑےاور مسجد کاتقدس پامال کیا۔اس واقعہ کے بعد اردن
نےتل ابیب سے اپناسفیر واپس بلا لیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں
باضابطہ شکایت دائر کرنے کا اعلان کردیا۔ اس سے گھبرا کر اسرائیلی وزیر
اعظم نےاردن کے شاہ عبداللہ کو فون کرکے یقین دلایا کہ وہ مسجد اقصیٰ کا
تقدس بحال رکھیں گے ۔
مغربی کنارے کے اندرفلسطینی نوجوانوں نے اس ظلم کے خلاف شدید غم و غصہ کا
اظہارکیا۔ ہیبرون میں اسرائیلی فوجیوں پر ایک ٹرک چڑھا دیا گیاجس سےچودہ
فوجی زخمی اور ایک ہلاک ہوا۔ اس واقعہ کے بعد ٹرک ڈرائیور کو پولس نے شہید
کردیا۔ اس کے علاوہ ایک فلسطینی نوجوان نے ٹرین کیلئے انتظار کرنے والے ایک
ہجوم پر منی وین چڑھا دی جس میں تیرہ مسافر زخمی ہوئے اور دو ہلاک ہوئے۔ اس
کے بعد تل ابیب میں ایک عورت اور فوجی کو قتل کردیا گیا۔ اس ردعمل سےہیبت
زدہ سفاک اسرائیلی پارلیمان نے گاڑی پر پتھر مارنے والوں کیلئے ۲۰ سال کی
مضحکہ خیز سزا تجویز کردی ہے لیکن مظاہرین پر طاقت کے استعمال کی حکمت عملی
اس بار پوری طرح ناکام ہوگئی۔صہیونی انٹیلی جنس کے مطابقان پرتشدد مظاہروں
کے پس پردہ معاشی پس ماندگی ، ابو خضیر نامی بے قصور نوجوان کا اغواء اور
شہادت جیسے عوامل کارفرما ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ منظم ریاستی دہشت گردی،
مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور فلسطینیوں کی املاک پر غیرقانونی اور ناجائز
قبضہ وہ بنیادی اسباب ہیں جنہوں نے فلسطینی عوام کو صہیونی ریاست کے خلاف
مشتعل کررکھا ہے۔اسرائیلی خفیہ ادارےتسلیم کرتے ہیں کہ بیت المقدس میں برپا
شورش کا حل قانونی و انتظامی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ انتظامیہ کی اس تنبیہ کے
باوجود اسرائیلی وزیر تعمیراتی وریایریلکا کہنا ہے کہ چھوٹے موٹے کنیسہ
تعمیرہوچکے اب ہمیں مسجدِاقصیٰ کے پاس عظیم ہیکل سلیمانی تعمیرکرناہے ۔ اس
طرح کے اشتعال انگیز بیانات پر لگام لگائے بغیر تشددکی لہر پر قابو پانا
ناممکن ہے۔
اسرائیلی حکومت میں شامل زیفولون اورلیف کے خیال میں عظیم کنیسہ کی تعمیر
کے جواب میں کروڈوں مسلمان اسرائیل کے خلاف عالمی جنگ کاچھیڑ دیں گے۔ ان
خطرات کے باوجود اسرائیلی سیاستدانوں کی ناعاقبت اندیشیکو ہندی مسلمان بہ
آسانی سمجھ سکتا ہے۔ اس لئے کہ جس طرح ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی
جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے اسی طرح اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی واحد
جمہوریت ہونے پر ناز ہے۔ دونوں ممالک میں باقائدگی کے ساتھ انتخابات کا
انعقاد ہوتا ہے۔ اس لئے ہر دو مقامات پر سیاستدانوں کی ضرورتیں یکساں ہیں ۔
سیاسی جماعتوںکی ہئیتمیں بھی یکسانیت ہے۔دونوں ممالک میں دائیں بازو کی
فسطائی لکڈاوربیجےپیکیحکومت ہے ۔بائیں بازو کی جماعت لیبر ہر دو جگہ بے وزن
ہوکررہ گئی ہے۔ اس سے قبل برسرِ اقتدار قدیمہ پارٹی کا حال تو کانگریس سے
بھی برا ہے کہ فی الحال اسرائیلی پارلیمان میں اس کے صرف دوارکان ہیں۔
اسرائیل اور ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کا رویہ بھی
یکساں ہے۔ تمام ترنظریاتی و سیاسی اختلافات کے باوجود عملاً ساری بڑی سیاسی
جماعتیں مسلمانوں کی دشمن یابےمصرف دوست ہیں۔ اس حقیقت کا اندازہ لگانے
کیلئے لیبر پارٹی کے رہنما اسحاق ہرزوگ کا غزہ جنگ کے دوران دیا گیا بیان
ملاحظہ فرمائیں۔ ہرزوگ نے جنگ کے بعد نئے انتخابات کا مطالبہ کیاجس کی
حیثیت استصواب کی ہوتاکہ فلسطینی اتھارٹی سے گفت و شنید پر عوام کا عندیہ
معلوم کیا جاسکے۔ اس کے مطابق محمود عباس سے گفتگو اسرائیل کی ناگزیر ضرورت
ہے۔ حزب اختلاف کے رہنما نے الزام لگایا کہ نتن یاہو کی حکومت ہر محاذ پر
ناکام ہو چکی ہے۔ اس کے مطابق اسرائیل معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑاہےاور
امن گفتگو تعطل کا شکار ہے۔ ہرزوگ کے مطابق نتن یاہو نے عباس سے قطع تعلق
کرکے حماس کی بلاواسطہ مدد کی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں اسرائیلی عوام کو
اعتماد بامل کرنا چاہئے ہم اس طرح کی حالت میں ہمیشہ نہیں رہ سکتے ۔ ہرزوگ
نے اعتراف کیا تھا کہ ہم لاکھوں فلسطینیوں کو پریشر کوکر میں نہیں رکھ
سکتے۔ جو لوگ یہ نہیں چاہتے کہ مغربی کنارہ بھی خدانخواستہ غزہ بن جائے تو
انہیں ہمت سے کام لے کرامن بات چیت کا آغاز کرنا چاہئے ۔
اسحٰق ہرزوگ نےآگے چل کرکانگریسی منافقت کا بھی مظاہرہ کردیا اور کہاہمیں
حماس پر اس طرح سے چوٹ کرنی چاہئے گویا کوئی امن گفتگو نہیں ہو رہی ہے اور
عباس سے اس طرح گفتگو ہونی چاہئے گویا حماس پر کوئی حملہ نہیں ہورہا ہے۔
بائیں بازو کا یہ احمق رہنما نہیں جانتا تھا کہ جنگ کے فوراً بعد عباس اور
حماس متحد ہو جائیں گے اور مذکورہ حکمت عملی خاک میں مل جائیگی ۔ہندوستان و
اسرائیل کی سیاسی جماعتیں اکثریت کو ناراض کرکے اپنا سیاسی نقصان نہیں
کرناچاہتیں یہی ان کا بنیادی مسئلہ ہے۔ لکڈ اور قدیمہ فلسطینیوں پر مظالم
کا ویسا ہی سیاسی استعمال کرتی ہیں جیسے کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ
فسادات کا کیا جاتا ہے نیزان دونوں جماعتوںکیلئے مسجد اقصیٰ کی وہی حیثیت
ہے جو ہندوستان میں بی جے پی اور کانگریس کیلئے بابری مسجد کی ہے۔ اس لئے
جس طرح انتخابات کے آتے ہی ہندوستان میں فسادات ہونے لگتے ہیں یا مندر وہی
بنائیں گے کا شور بلند ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل میں یاتو جنگ چھڑ جاتی ہے
یا ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کا شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں یہ
انتخابی لوازمات ہیں۔
مغرب کا جمہوری دیو استبداد دونوں ممالک پر مسلط ہے اس لئےدونوں مقامات پر
کمزوروں کو نشانہ بنا کرطاقتوراکثریت کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے۔ عوام کا
جذباتی استحصال کرکے سیاسی دوکان چمکائی جاتی ہے۔ سنگھ پریوار نےاسی لئےرام
مندر کا مسئلہ چھیڑ کر اسے ۱۹۱۹ تک مؤخر کردیا ہے تاکہ حسب ضرورت اس کا
انتخابی فائدہ اٹھایا جاسکے ۔ اگر ترقی و خوشحالی کا نعرہ اس وقت نہ چل
پائے تو مندر وہیں بنائیں گے کی گوہار لگادی جائے۔ جمہوری نظام میں یہ صرف
ہندو یا یہودی ہی نہیں کرتے بلکہ عیسائی ہٹلر نے بھی انتخابی کامیابی کی
خاطر یہودیوں کو تہہ تیغ کیا تھا جارج بش نے اسی مقصد کیلئے عراق پر حملہ
کردیا تھا۔ برما کے بودھ اسی لئے مسلمانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔اندرا
گاندھی نے سیاسی مفاد کے پیش نظر سکھوں کے خلاف یہی حربہ استعمال کیا تھا۔
ایک زمانے تک جنوبی افریقہ میں عیسائی و قبائلی مذہب کے ماننے والے سیاہ
فام عوام کے ساتھ وہاں کی ہم مذہب جمہوری حکومت نے یہی رویہ اختیار کررکھا
تھا ۔ اس طرح گویاجمہوی نظام میں تمام ہی مذاہب کے ماننے والے مختلف مواقع
پر معتوب ہوتےرہے ہیں۔
بنگلہ دیش میں بھییہی صورتحال ہے ۔ شیخ حسینہ واجد نے عوام کی توجہات کو
اپنی ناکامی سے ہٹانے کی خاطر قوم پرستی کی مصنوعی آگ بھڑکا رکھی ہے اور
جمہوری تندورمیں اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہی ہے۔ چونکہ وہ سارے مسلمانوں کے
خلاف محاذ نہیں کھول سکتیں اس لئے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کوالگ کرکےانتخاب
کی آگ میں جھونک دیا گیاہے۔ اسلامی تحریک کے بے قصوررہنماوں کو یکے بعد
دیگرے تختۂ دار پر پہنچایا جارہا ہے ۔ گزشتہ انتخاب سے قبل حسینہ نے جماعت
کے رہنما عبدالقادر ملا کو عین انتخابات سے قبل شہید کردیا۔ جماعت پر
پابندی لگا دی اور بی این پی کے بائیکاٹ کا فائدہ اٹھا کر اقتدار پر پھرسے
قابض ہوگئیں ۔ اب بی این پی کےانتخابات کی خاطرراضی ہو نے پر انتخاب کا
ماحول بنا تو پروفیسر غلام اعظم رحلت فرما گئے۔ ان کے جنازے میں عوام کا جم
غفیر دیکھ کر حسینہ واجد کے ہوش اڑ گئے اس لئے کہ وہ تو اس خمار میں تھی کہ
شہید عبدالقادر ملا کی پھانسی کے بعد یہ تحریک بکھر چکی ہوگی۔ اس کے ردعمل
میں پھر ایک بار نام نہاد جنگی جرائم کا ٹریبونل حرکت میں آ گیا اور اس نے
دھڑا دھڑ پھانسی سنانی شروع کردی ۔ حسینہ واجد جس آگ سے کھیل رہی ہے اس کے
نتائج اس وقت نظر آئیں گےجب نارِ جہنم کی لپٹیں آسمان کو چھورہی ہونگی
اور دنیاکااقتداردوزخ کی آگ میں جل کر بھسم ہوچکا ہوگا۔
ہندوستان ، بنگلہ دیش اور اسرائیل بظاہرمذہبی و تہذیبی اعتبار سے مختلف
ممالک ہیں لیکن ان تینوں کے درمیان جمہوریت کی مغربی اقدار مشترک ہیں ۔اہل
مغرب نے اپنی جمہوریت کے حوالے سے یہ غلط فہمی پھیلا رکھی ہے کہ عصرِ حاضر
میں آزادی اور رواداری کا واحدعلمبردار یہی نظام سیاست ہے۔جہاں تک رواداری
کا سوال ہے یوروپ میں آزادی کے سب سے بڑے علمبردارفرانس کے اندر ایک مسلم
عورت کو اپنے پسند کا لباس زیب تن کر کے سڑک پر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسے
مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ غیروں کی مرضی کے مطابق کپڑے پہن کر باہر
آئے۔طالبات سے کہا جاتا ہے کہ اگر وہ اسکارف نہیں چھوڑ سکتیں تو تعلیم
چھوڑ دیں حالانکہ یہ تو خالص نجی معاملہ ہے۔ یہ تو ایک مثال ہے ہندوستان
اور امریکہ جیسے جمہوری ممالک میں اس طرح کے واقعات کا شمار ناممکن ہے۔ اس
کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے فوجی آمروں اور شہنشاہوں کو
جمہوری ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ وہ ان کی دامِ درہمِ سخنِ قدمِ معاونت
کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اگر ان میں سے سے کوئی عوام کے ذریعہ منتخب کردہ
جائز حکومت کا تختہ الٹ کر زبردستی عوام پر مسلط ہوجائے تب بھی اسے گلے
لگالیا جاتاہے۔ اس کی تازہ ترین مثال مصر ہے۔ یہ لوگ انتخابات میں کامیابی
کے بعد حماس کی اکثریتی حکومت کو تسلیم کرنے کے بجائے فتح کو اقلیتی حکومت
کرنے پت اکساتے ہیں اور اس کی پذیرائی کرتے ہیں ۔
جمہوریت کے حق میں افہام و تفہیم اور رائے مشورے کا بھی بڑا چرچا ہے۔
انتخاب کی حد تک اس کی کسی حد تک پاسداری کی جاتی ہے مگر انتخابی مہم کے
دوران عوام کی رائے کو متاثر کرنے کیلئے جواوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے
ہیں اس کون سبھی جانتے ہیں۔ انتخاب سے قبل سرمایہ داروں کی پشت پناہی حاصل
کرنے میں جو لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ عوام پر
چھاجاتے ہیں ۔ انتخابات کے بعدعوام سے کئے گئے اکثر و بیشتروعدوں کو بھلا
کر سرمایہ داروں کو استحصال کا بھرپور موقع فراہم کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد
سیاستداں اور سرمایہ کار ایک دوسرے کے تعاون سے قومی خزانے پراپنا ہاتھ صاف
کرتے ہیں۔ عوام کی فلاح بہبود کی قسمیں کھانے والے دفاعی سودوں میں مصروفِ
عمل ہو جاتے ہیں کیونکہ اس کاروبار میں بدعنوانی پر قومی سلامتی کی چادر
پڑی ہوتی ہے۔کوئی اسلحہ بیچ کر تو کوئی خرید کر دولت بٹورتا ہے اس کاروبار
میں دونوں جانب جمہوریت کے علمبردار ہوتے ہیں کوئی اسلحہ فروخت کرنے کیلئے
دھماکے کرواتا ہے تو کوئی خریدنے کی خاطر امن وآشتی کا دشمن بن جاتا ہے۔
ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ایک طرف عوام کی فلاح بہبود کی خاطرغیر ملکیوں
کے آگےجھولی پھیلائی جاتی ہےوہیں سرکاری خزانے سے اسیّ ہزار کروڈ کی خطیر
رقم دفاعی اخراجات پر خرچ کرنے کا فیصلہ یکلخت کرلیا جاتا ہے۔ ان سودوں کو
حتمی شکل دینے کی خاطر وزیر اعظم امریکہ پہنچ جاتےہیں اور وزیر داخلہ
اسرائیل جاکردیوار گریہ پر اپنا ماتھا ٹیک آتے ہیں ۔ ان تینوں ممالک میں
ایسا کون ہےجوجمہوریت کا علمبردار نہیں ہے؟ اور کس رہنما کا دامن خونِ ناحق
سےداغدار نہیں ہے؟
اپنے غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر اسلحہ خریدنے اور بیچنے والے یہ موت کے
سوداگرعدل و انصاف کی خاطر اٹھنے والوں کو دہشت گرد قراردیتے ہیں۔ ایسے
رہنماؤں اور ایسی حکومتوں سے سابق فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہنیہ سوال
کرتے ہیں کہ کیا بیت المقدس اور اہالیان بیت المقدس کے خلاف صہیونی ریاست
کے جرائم دہشت گردی نہیں ہے؟ کیا ہمارے وطن کی سرزمین پرقبضہ دہشت گردی
نہیں ہے؟ مقدس مقامات کی بے حرمتی کیا دہشت گردی نہیں؟ کیا مسجد اقصیٰ کی
بندش اور اس پرانتہا پسندوں کی یلغار دہشت گردی نہیں ہے؟ ان سولات کے بعد
اسماعیل ہنیہ نے وہ بنیادی سوال اٹھایا جس کا جواب دینے سے مغرب گھبراتا
ہے۔ کیا صرف فلسطینی دہشت گرد ہیں جو اپنے دفاع کے لیے بندوق اٹھانے پر
مجبور ہیں؟ اور اس کے بعد انہوں نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا جب
تک ارض فلسطین پرصہیونیوں کا ناجائز قبضہ برقرار ہےتب تک اسرائیل کو کسی
قسم کا تحفظ حاصل نہیں ہوگا۔ آخری فلسطینی پناہ گزین کی وطن واپسی اور
آباد کاری تک صہیونیوں کے خلاف جدو جہد جاری رہے گی۔ حماس رہماف نے عرب
ممالک، عالم اسلام اور بین الاقوامی برداری پر زور دیا کہ وہ بیت المقدسکے
دفاع اور فلسطین کی آزادی کے لیے ایک مربوط اور مبسوط حکمت عملی وضع کرکے
عملی اقدامات کرے۔ محض مذمتی بیانات سے فلسطین آزاد نہیں ہوسکتا اور نہ ہی
قبلہ اول کو یہودیوں کی ریشہ دوانیوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ ایسے میں یوروپین
یونین کے خارجہ شعبہ کی نئی سربراہ محترمہ فیدریکا مورغینی کا غزہ میں کیا
جانے والا اعلان نہایت خوش آئندہے جس میں انہوں نے کہا ہم ابھی اور اسی
وقت بلاتاخیرفلسطینی آزادی کاخواہاں ہیں۔مورغینی کے بیان کے بعد یہ قیاس
آرائی تیز ہوگئی ہے کہ یوروپ کےسارے ممالک سویڈن کی مانند فلسطین کو تسلیم
کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ مجاہدانہ مزاحمت اورعالمی حمایت سے ان شا ء اللہ
جلدہی اسرائیل کی بیخ کنی ہو جائے گی اور بالآخرآزادیٔ فلسطین کا خواب
شرمندۂ تعبیر ہو جائیگا۔ |