اسی سیاسی کاروبار کو شوق سے
کاروبار ہی بناؤ مگر کسی کی عزت یوں نہ اچھالو۔ ایک کہاوت ہے کہ بیٹیاں
سانجی ہوتی ہے۔ بے شک جمائمہ نہ ہمارے ملک میں پیدا ہوئی نہ ہماری مذہب
ہے۔مگر وہ اس ملک کی بہو رہ چکی ہے اور بہو بھی بیٹی کی جگہ ہوتی ہے۔ کیا
المیہ ہے ہماری غیرت مند پاکستانی قوم کا کہ ہندوستان کی اداکاراؤں کو سینے
میں بسائے دل کی دھڑکن بنائے ہوئے ان کی ایک ایک ادا پہ جان دیتے ہیں اور
اپنی قوم کی بہن، بیٹی کو سرعام رسوا کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ثانیہ
مرزا جو کہ پاکستان اور پاکستانی قوم کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہے، پر آہیں
بھرتے ہیں اور جمائمہ جس نے پاکستان کو اپنانے، یہاں کی ثقافت میں رچنے
بسنے ، یہاں تک کہ اسلام کو بھی قبول کرنے کی اپنی سی ہر ممکن کوشش کی اس
کے خلاف کردار کشی کا دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ ہو چکا نہ ختم ہونے والا
سلسلہ جاری و ساری ہے۔ کیاکسی غیر مسلم عورت سے شادی کرنا اور اسکو اپنے
مذۃب کی طرف لانا گناہ ہے؟ تو خوش قسمتی یا بد قسمتی سے یہ گناہ نہ صرف ہر
پاکستانی بلکہ ہر مسلمان جو دنیا کے کسی بھی ملک میں ہو کرنے کا طلب گار
ہے۔ گوریوں پر کون مرد نہیں مرتا، لاکھوں پاکستانی جو امریکہ، یورپ،
اسٹریلیا، جاپان، افریقہ میں مقیم ہیں خود کو قانونی کرنے کیلئے ان ہی
گوریوں سے شادی کا سہارا لیتے ہیں ، ان ہی گوریوں کی عشق میں تعلیم کیلئے
گئے طلبہ اپنے ماں باپ کی مجبوریوں سے کمائے گئے پیسوں پر جاکر ان کے ارمان
خاک میں ملادیتے ہیں اور وہاں غیر مسلم عورتوں سے شادی رچا کر بچے بھی پیدا
کر لیتے ہیں اور پھر ماں باپ قبر میں بھی پہنچ جائے ان کی طرف پلٹ کر نہیں
دیکھتے اور نہ اتنی تعفیق ہوپاتی ہے ۔ ساری زندگی یہ جس عورت کے عشق میں
اپنے ماں باپ اور بہن بھائی کو ہمیشہ کیلئے چھوڑدیا اس غیر مسلم عورت کو
کلمہ پڑھا کر مسلمان ہی کر لے اپنے لئے نہ سہی بچوں کیلئے تاکہ بچے دو
مذاہب میں نہ بٹ جائے اور ان کی منزل ایک ہی مذہب ہو۔ مسلمان الٹا گوری کے
چکر میں خود غیر مسلم والا طرز زندگی اپنا لیتے ہیں اور اس پر بھی تمام عمر
احساس کمتری و تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کوا چلا سنیں کی
چال اور اپنی بھی بھول گیا۔ تمام عمر غیر مسلم عورت کے عشق میں خود کو غیر
مسلموں جیسا بنالیتے ہیں، گھر والوں کو خیر باد کہہ دیتے ہیں ، یہاں ماں
باپ، بہن بھائی ، بیوی بچے تسرتے ہیں اور وہاں وہ شخص جو خود کو قانونی
کرنے اور پیسہ کمانے کے چکر میں لگا رہتا ہے، وہاں غیر مسلم معاشرے اور
پردیس میں اپنی شناخت اور عزت بنانے کو ترستے ہیں اور ترستے ترستے مر جاتے
ہیں ۔مگر وہ معاشرہ اسے وہ عزت اور حق نہیں دے پاتا کو کہ کسی غیر ملکی غیر
مسلم کو وہاں مل جاتا ہے۔ غیر ملکی غیر مسلم بھی ہوتا ہے مگر چونکہ وہ ان
کا ہم مذہب ہوتا ہے اسلئے ان کے معاشرے کے لیے قابل قبول بھی ہوتا ہے اور
قابل عزت بھی۔ اور ہم یہاں ایک مسلمان اپنے ہی گھر میں اپنے سگے ماں باپ ،
بہن بھائی کی جان کے دشمن ہے۔ ہم خود جو ایک دوسرے کی عزت اور ذات پر کیچڑ
اچھال کر جو فرحت و خوشی محسوس کرتے ہیں وہ بڑے سے بڑا نیک کام کرکے بھی
محسوس نہیں کرتے کیونکہ دوسرے کی ذات اور عزت کو نقصان پہنچانے کیلئے اپنی
پوری کوشش صرف کر دیتے ہیں اور نیک کام میں منافقت سے کام لیتے ہیں۔ کم از
کم عمران خان مے کسی دوسرے ملک کی قومیت حاصل کرنے کی خاطر، کہیں ملازمت
لینے کیلئے، پیسہ کمانے کیلئے اور جائیداد بنانے کیلئے کسی گوری سے شادی
نہیں کی۔ عمران خان کی پرکشش اور مقبول شخصیت تب سے ہے جو وہ اکسفورڈ
یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے اور کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ کون نہیں جانتا کہ
عمران خان کو اس ملک کے ایک سابق وزیر اعظم کی بیٹی نے شادی کرنے کو کہا
تھا اور وہ خود بھی ایک مشہور و معروف شخصیت تھی۔ عمران خان کا جادو سارے
یورپ میں سر چڑھ کر بول رہا تھا وہ اپنی مقبولیت کے پورے عروج پر تھے اور
اب تک ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ پہلے بحیثیت کھلاڑی شہرت کی بلندیوں پر تھے اور
اب بحیثیت سیاستدان۔ اﷲ نے عمران خان کی نصیب میں شہرت لکھی ہی ہے چاہے وہ
عمر کا کوئی بھی حصہ ہو۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی ایک عورت سے
ناجائز تعلقات کے نتیجے میں ایک بیٹی ہے تو یہ بات سچ بھی ہو تو اس سے ہمیں
اور ہمارے ملک و قوم کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ اس انکشاف سے جو کافی سال
پرانا ہے اگر کوئی نیا اسکینڈل بھی عمران خان یا کسی بھی سیاستدان مرد و زن
کا سامنے آجائے تو اس سے تو نہ ہمارے ملک کی ہنگائی کم ہوگی، نہ ہمارے ملک
میں نوجوانوں کو روزگار ملے گا، نہ ڈالر و بجلی کی قیمتوں میں کمی آئے گی،
نہ عوام خودسوزی کرنے سے باز آجائے گے نہ اور کوئی ایسا ترقی کا منصوبہ
شروع ہو جائے گا کہ جس کی بدولت بجلی کی پیداوار میں اضافہ پوکر اندھیر
نگری سے نکل جائے۔ یہ ہر انسان کی زندگی کا ذاتی معاملہ ہے اور اس ملک میں
بہت مشہور و معروف سیاستدانوں کے بارے میں ایسی باتیں کہی جاتی ہے کہ جن کو
سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ زرداری حکومت میں سوشل میڈیا پر شیریں رحمان اور
گیلانی کے معاملے نے بھی مقبولیت کے ریکارڈ بنائے تھے ، میاں صاحب سے بھی
ایسی کہانیاں منسوب ہے۔ کچھ ماہ پہلے جمشید دستی ڈرامے میں وزیر دفاع خواجہ
آصف کا نام کشمالہ کے ساتھ لیا جاتا رہا۔ جس کو دستی صاحب ثابت تو نہ کرسکے
مگر دونوں کی ساکھ کو مجروح کرنے کی کوشش میں کامیاب رہے۔ جنرل یحییٰ سے لے
کر اب تک سینکڑوں کی تعداد میں ایسے بتائے جاتیہیں چاہے ان کا تعلق سیاست
سے ہو یا عسکر سے یا صحافت یا کوئی بھی شعبہ ہائی زندگی سے اگر ان تعلقات
کی ذرا سی بھی کڑیاں جاکہ کسی سیاست دان سے ملتی ہو یا جماعت سے تو پھر وہ
تماشہ بنایا جاتا ہے اسکی عزت کا کہ اﷲ کی پناہ، حال یہ ہے کہ ملک کو
اندھیروں سے نکال نہیں سکتے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا سوچنے کے بجائے
سیلاب کی تباہ کاریوں سے نظریں چرائے دوروں کی عزت کا تماشہ لگانے مہنگے
مہنگے دورے کرنے اور ذاتی کاروبار کو عزیز رکھنے اور بڑھانے کی فکر میں مگن
ہے اب موسم بدل گیا، سردی کی آمد آمد ہے کوئی غم نہیں کہ سیلاب سے تباہ حال
یہ مظلوم عوام کہاں جائے گی۔ ضرب عضب اپریشن سے متاثرہ علاقوں سے ہجرت کرکے
انیوالوں کا اس سرد موسم میں کیا حال ہوگا۔ بچوں بوڑھوں، بیماروں ، عورتوں
کا سوچنے کی بجائے یہ غم ہے کہ کہیں اپنا اقتدار ٹس سے مس نہ ہو۔ اس معاملے
میں تما م صوبائی حکومتیں بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جتنی کہ وفاقی حکومت۔
تقریبا تمام صوبائی حکومتوں میں برسر اقتدار جماعتیں جلسوں کی صورت میں
اپنی سیاسی دکان چمکانے میں مصروف ہے اور عوام جائے جہنم میں کیونکہ عوام
کا مقدر یہ ہے کہ ان کو منتخب کرکے اپنے سروں پر بٹھا دیا۔ |