شاعری سچ بولتی ہے
(Muhammad Javed Khadim, Rawalpindi)
بلوچستان کے نوجوان
شاعر’محمد جاوید خادم‘ کی کہانی۔
بلوچستان کے ایک زرخیز علاقے اوستا محمد سے تعلق ہیے۔ پیدائش ایک پڑھے لکھے
گھرانے میں ہوئی۔ والد بینکار تھے۔ بچپن ہی سے ادبی و سماجی سرگرمیوں میں
بہت لگاﺅ تھا۔ پرائمری ہی کے دنوں میں روز نامہ باخبر میں نظمیں، غزلیں
لکھنا شروع کیں۔ ۲۰۰۵ کے ابتدائی دنوں میں ماہنامہ شنزہ کوئٹہ میں بطور
نمائندہ سرگرم رہے اور اسی دوران ماہنامہ پھول لاہور میں بھی ادبی تحریریں
لکھتے رہے۔ ستمبر ۲۰۰۵ءمیں سرکاری ملازمت اختیار کی اور راولپنڈی میں قیام
پذیر ہیں۔
کالم ! (جاوید نامہ)
عنوان! شاعری سچ بولتی ہے
تحریر! شاعری سچ بولتی ہے
اللہ تعالی نے مجھے کچھ نہ کچھ شاعرانہ وصف عطا کیا ہے۔ نام سے تو آپ واقف
ہو گئے ہوں گے۔
شاعری احساسات و جزبات کی ترجمان، زندگی کی تلخ و شیریں حکایات کا بیان، دل
پہ اک انمٹ نشان۔ شاعری روح کی گہرایوں میں اتر جاتی ہے۔ خوشبو اور تازگی
کا احساس پھیل جاتا ہے۔ شاعری کسی تازہ کھلے گلاب کی مانند ہے۔میری شاعری
میں استعارے اور تشبیہات بے شمار ہیں غرضکہ قدرت کی ہر حسین چیز کو بطور
استعارا استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔میری شاعری بھی میری طرح اپنی مثال آپ
ہے۔دردوتڑپ پیدا کرنے والے اشعار، شاعری میں موجود اداسی کی لکیریں پڑھنے
والوں کو افسردہ ہی نہیں کرتیں بلکہ نم ناک بھی کر ڈالتی ہیں تو کہیں ساون
کے حسین موسم کی طرح لطف دوبالا کرتی ہیں۔ یوں تو میرے استادوں کی فہرست بے
حد لمبی ہے مگر یہاں پر ان مخصوص استادوں میں صرف چند ایک ہی کا احوال بیان
کیا جا سکتا ہے جیسے خانگی معاملات، معاشرتی واقعات اور ذاتی مشاہدات میری
شاعری میں رچی اداسی پڑھنے والے کے دل پر گہرا اثر کرتی ہے۔ایسے ہی چند ایک
کلام نمونے کے طور پر پیش خدمت ہیں۔
حمد
ابتدا نے انتہا چاہتا ہوں
تیری حمد و ثنا چاہتا ہوں
اے دہدہ بینا دینے والے!
میں دل بینا چاہتا ہوں
محمد، علی، فاطمہ، حسن، حسین
پاک پنجتن کی ضیا چاہتا ہوں
رہنمائے حیات و شفائے حیات
میں نسخہ کیمیاء چاہتا ہوں
حروف دعا! منیب و تائب
میں توبتہالنصوحہ چاہتا ہوں
رب جلیل وقت نزع زباں پر
میں کلمہ طیبہ چاہتا ہوں
نظم
ماں کے نام!
ماں کی صورت مہر و محبت بن کے
سدا رہیں مجھ پر،
رب جلیل!
تیری رحمتیں، برکتیں، وسعتیں۔
نظم
والدین کے نام
خلد، میری ماں کے پیروں میں،
اور!
در خلد ہیں جاوید
میرے قبلہ حضور
چند اشعار!
اس گھر میں کیا یوں ہی رہیں گی عداوتیں!
کیا خاندان میں اغیار کا منظر رہیں گے ہم؟
جاوید اک فیصلہ گھر دو نیم کر گیا
اُدھر رہو تم اور ادھر رہیں گے ہم
مہتاب روشنی چکاں ہے شام کے بعد
آفتاب تیرگی نشاں ہے شام کے بعد
جاوید بیٹا سویا سویا لگتا ہے
جاگی جاگی لگتی ہے ماں شام کے بعد
جاوید بام و در کے سوا قبیل بھی چا ہیئے
مکاں کو گھر بننے میں وقت تو لگتا ہے
جلتے جاتے ہیں محرومی کے الائو میں نا حق
آدمی کوئی ہم سا تاخیر پسند بھی تھا۔
جاوید رشتہ داریاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب کہے پھرتا ہے اپنا ہم کو
پت جھڑ کی چھائوں جیسی باتیں کرتے ہیں
صحرا بھی خزائوں جیسی باتیں کرتے ہیں
جاوید! جنگ و جدل کے دلدادہ گدھ
امن و سلامتی، فاختائوں جیسی باتیں کرتے ہیں
جاوید وہ لکھ رہے تھے اہل خانہ کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے تھے اغیار کی ظرح
جاوید رشتہ داروں میں اکثر غیر بن جاتے ہیں
اور غیر کا کیا ہے، غیر اپنا ہو سکتا ہے؟
مجھے اس محبت سے میرے اپنوں نے چھوڑا جاوید
کہ رشتہ بھی نہ ٹوٹا اور اغیاری بھی ہو گئی
جاوید محفل میں تنہائیوں کا کیا پوچھتے ہو!
اپنوں میں غیر تھا سو میں تنہا رہ گیا
غزل
خلد نہ دنیا چاہتا ہوں
آدم ہو حوا چاہتا ہوں
اے سفر نعیم دینے والے!
میں زاد راہ چاہتا ہوں
میں اپاہج جیون کے بیچ
نفس بیساکھی منہا چاہتا ہوں
جاوید مہر دو نیم نہیں چاہوں
میں مہر و ماہ چاہتا ہوں
آخر میں اس نظم کے ساتھ اجارت چاہوں گا۔
نظم
جاوید
ج جاوید، استغفار کر لو!
ا اس سے پہلے کہ۔۔۔۔۔۔۔!
و وقت دعا گل ہو جائے
ی یہ نہ ہو کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
د در توبہ مقفل ہو جائے
محمد جاوید خادم، جونیئر کلرک
پی اے ڈائریکٹوریٹ، جی ایچ کیو، راوالپنڈی |
|