”سوشل میڈیا اور اخلاقی اقدار“
(Professor Masood Akhter Hazarvi, luton)
اگر یہ کہا جائے کہ جدید سائنس
اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے دورحاضر انسانی زندگی کا ترقی یافتہ دور ہے
تویقینا بے جا نہیں ہوگا۔ انیسویں صدی تک جن حیران کن ایجادات کو چشم تصور
میں لانا بھی ناممکن تھا، بیسویں اور اب اکیسویں صدی میں ایک حقیقت کا روپ
دھار کے نہ صرف ہمارے سامنے موجود ہیں بلکہ ہماری سماجی زندگی کا اہم ترین
حصہ بن چکی ہیں۔ ان اختراعات نے یقینا انسانی زندگی کو آسودگی اور آرام
مہیا کیا ہے۔ دنوں اور مہینوں کے سفر منٹوں اور گھنٹوں میں طے ہوتے ہیں۔ وہ
پیغام رسانی جس کے لئے کئی دن درکار ہوتے تھے آج لمحوں میں ہو رہی ہے۔
خصوصا سماجی ذرائع ابلاغ نے انسانی زندگی کو بالکل اک نئی سمت دے دی ہے۔
کمپیوٹر، موبائل، ٹیبلٹ اور طرح طرح کی نئی ایجادات ایک بنیادی ضرورت بن
چکی ہیں۔ فیس بک، وٹس ایپ، ٹویٹر، وائبر اور بیشمار ایپس نے اعزہ و اقرباء
اور حلقہ احباب سے رابطوں کو آسان سے آسان تر بنا دیا ہے۔ ایک بچے سے لیکر
بڑے تک خاصی تعداد میں لوگ اپنی حیثیت اور ضرورت کے مطابق سوشل میڈیا سے
منسلک رہتے ہیں۔ سماجی ذرائع ابلاغ کے استعمال نے ذاتی زندگی، معاشرتی
روابط اور سیاسی و معاشرتی معاملات کو بہت متاثر کیا ہے۔ آج دنیا بھر میں
بہت ساری تحریکوں پر سوشل میڈیا کے اثرات ہیں۔ روایتی میڈیا پر کچھ
پابندیوں کی وجہ سے جب حسب منشااحتجاج ممکن نہیں ہوتاتولوگ سوشل میڈیا پر
کھل کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ کشمیر و فلسطین کے تنازعات ہوں یا
عوامی بیداری کی تحریکیں ہر جگہ سوشل میڈیا ایک بنیادی کردار کا حامل نظر
آتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سماجی میڈیا اور جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی کے
ذریعے دنیا گلوبل ولج سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ اس کے ذریعے لوگ اپنے خیالات
اور نظریات کو شیئر کرتے ہیں۔اس کا مثبت استعمال سماجی انقلاب برپا کر سکتا
ہے لیکن منفی استعمال سے نفرتیں پروان چڑھتی ہیں۔ بذات خود یہ کوئی اچھی
چیزہے نہ بری۔ اس کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس طرح
استعمال کرتا ہے۔ جس طرح استعمال کنندہ کی اخلاقی اور فکری کیفیت ہوگی اُسی
طرح وہ استعمال کرے گا اور ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔
سوشل میڈیا نے جہاں تعلم و تفریح، رائے عامہ کی تعمیر اور معاشرے کو متحرک
بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہاں اس کا غلط استعمال جنسی تشدد، لڑائی
جھگرے اور اخلاقی و ثقافتی زوال کا سبب بھی بن رہاہے۔ اس کے غلط استعمال سے
کئی ایک برا ئیا ں جنم لے رہی ہیں۔نوجوانوں کو ذہنی، اخلاقی اور جسمانی طور
پر اس کے منفی استعمال سے نقصاں پہنچ رہے ہیں۔اسی وجہ سے کئی ہنستے بستے
گھر اجڑ گئے۔ اسے لوگ دھوکہ دہی کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ ناشائستہ اور
بیہودہ زبان استعمال کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے باضابطہ بیداری شعور مہم
شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ بہر کیف بحیثیت مسلمان ہمیں چاہیے کہ اس سے مثبت
فوائد حاصل کر کے اپنے پاکیزہ کلچر کو فروغ دیں۔ اپنی اخلاقی اقدار اور
مذہبی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے بیہودہ اور غیر مہذب سرگرمیوں سے باز
رہیں۔
مذہبی حوالے سے سوشل میڈیا کا استعمال ایک حد تک تبلیغ و اصلاح کا سبب بھی
بنا لیکن کافی حد تک اس کا غلط استعمال بھی ہو رہا ہے۔ حق و باطل کے ما بین
فرق کو واضح کرنے کیلئے دلائل کی بنیاد پر لوگوں کی اصلاح اور راہنمائی ایک
اچھا کام ہے لیکن بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف بے جا الزامات یا غیر مستند
فتاوی جات کا پرچارکرکے انتشار اور خلفشار بھی پھیلایا جاتا ہے۔ ہمارا دین
ہمیں کسی پر تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتا ہے لیکن بے بنیاد الزامات کو
پھیلا کر ہم کئی گناہوں کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔سوشل اور سائبر میڈیا کا
صحیح استعمال از حد ضروری ہے۔ بروقت اس کی طرف تو جہ دینے کی ضرورت ہے۔ورنہ
آئے روز اس کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں اور جو نتائج مستقبل میں
متوقع ہیں انہیں بھی تھوڑے سے غور و حوض سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
تمہیں نے چشم پوشی کی جہاں کی پیش بینی سے
جو ہونا تھا وہ دیواروں پہ لکھا ہم نے دیکھا ہے
اس کے استعمال سے خاندانی زندگی بھی بہت متاثر ہوئی ہے۔ گھر کے افراد ایک
گھر میں رہتے ہوئے بھی اجنبیت محسوس کر رہے ہیں۔ ماں باپ فارغ اوقات میں
اپنی پسند کے ٹی وی پروگراموں میں مشغول ہیں تو بچوں کے پاس موبائل یا
کمپیوٹر ہیں۔ انہیں نہ کھانے پینے کی پرواہ ہے نہ ماں باپ اور دوسرے بہن
بھا یؤں کی فکر۔ اپنی دنیا میں مست مے قندھار ہیں۔ جیسے ایک ٹرین کے اجنبی
مسافر ایک ہی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ اس باہمی بے اعتنائی سے ماں باپ
اور اولاد کے مابین مکمل ہم آہنگی قائم نہیں ہوتی۔ بسا اوقات یہی فکری
افتراق مستقبل میں کئی ایک گھریلوناچاقیوں کا بھی سبب بنتا ہے۔ لھذا ہمیں
اپنے گھروں کے ماحول کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
سوشل میڈیا آج کی ضرورت ہے لیکن اس کا ستعمال مناسب اور مقررہ اوقات میں ہو
تو ہم ایسی کئی ایک الجھنوں سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ہمارا یہ
بھی فرض بنتا ہے کہ بچوں کو ان کی یوم پیدائش یا دیگر مواقع پر یہ چیزیں
خرید کر دینے سے پہلے اِن کے مثبت استعمال کے حوالے سے انہیں آگاہی اور
شعور بھی دیں۔ انہیں بٹھا کے بتائیں کہ اس کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں۔
ورنہ ہمیں احساس ہوناچاہیے کہ اپنے ہاتھوں سے انہیں بے راہروی کی منزل دکھا
رہے ہیں۔
اسلامی نظام اخلاقیات میں عفت و عصمت اور شرم و حیا کا بڑا مقام ہے۔ لیکن
سوشل میڈیا پرفحاشی اور عریانی عام ہے جو نوجوانوں کے اخلاقی بگاڑ کا سبب
بن رہی ہے۔ بچوں کے ذہنوں کی کوری پلیٹوں پر جب تک ہم اسلامی اخلاقیات کی
تربیت کا رنگ نہیں چڑھائیں گے اس وقت تک اس سے بچنا بہت مشکل ہے۔ جھوٹ، بد
دیانتی اور دھوکہ دہی ایسی اخلاقی برائیاں ہیں جو ہر مذہب و ملت کے ضابطہ
اخلاق میں قابل مذمت ہیں۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو سختی کے ساتھ ان سے
منع کیا ہے۔ لیکن سماجی میڈیا پر یہ تمام برائیاں عروج پر ہیں۔ غلط آئی
ڈیز، جھوٹ پر مبنی تصویریں اور کلمات چسپاں کرنے سے پہلے ہمیں معلوم ہو نا
چاہیے کہ ہم گناہ کا ارتکاب کر رہے ہیں۔اور اپنے ان قبیح افعال پر یقینا
اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ دینی اور نظریاتی لحاظ سے مضبوط
اور سوشل میڈیا کے ماہر لوگوں کو چاہیے کہ انٹرنیٹ اور سماجی ذرائع ابلاغ
کے ذریعے موزوں اور اخلاقی بالیدگی پر مبنی مواد کو عام کریں۔ فیس بک اور
ٹویٹر جیسی سوشل ورکنگ ویب سائٹس کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
صحیح استعمال سے یہ بہترین ذریعہ تبلیغ بن سکتے ہیں۔ |
|