1987ء میں کشمیری حریت پسند
جماعتوں کے اتحادمسلم متحدہ محاذ نے اسی مطالبے پر کشمیریوں کی بھاری حمایت
کے ساتھ کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی
میں اکثریت حاصل کر کے ریاست جموں وکشمیر کے بھارت سے الحاق کو ختم کر دیں
گے لیکن بھارتی حکام نے کشمیریوں کی واضح طور پر بھاری اکثریت رکھنے والے
مسلم متحدہ محاذ کے امیدواروں کو بھرپور دھاندلی سے ہرا دیا تھا جس کے بعد
پہلے سیاسی ایجی ٹیشن اور پھر کشمیری نوجوانوں نے تحریک آزادی کومسلح
جدوجہد کے آغاز میں تبدیل کر دیا تھا۔آج بھارت کی ہندو انتہا پسند، مسلم
دشمنی کا واضح اظہار رکھنے والے پارٹی بی جے پی کی حکومت مقبوضہ کشمیر
اسمبلی میں 44سیٹیں جیت کر ریاست کشمیر کو مکمل طور پر بھارت میں مدغم کرنے
کے اعلان کے ساتھ متحرک ہے۔یوں27سال پہلے کشمیریوں نے بھارت کے قدم اکھیڑ
دیئے تھے اور آج بھارت کشمیر میں آزادی کے مطالبے کا مکمل خاتمہ کرنے کے
عزائم لئے ہوئے ہے۔
بھارتی حکام نے مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کے الیکشن 25نومبر سے 20دسمبر تک
پانچ مرحلوں میں کرانے کا اعلان کیا ہے۔25نومبر کوگریز،بانڈی پورہ،سونہ
واری،نوبرا،لہیہ ،کرگل،زنسکار ،کنگن،گاندربل،کشٹوار،اندر
وال،ڈوڈہ،بھدرواہ،رام بن اور بانہال میں پولنگ ہو گی۔2دسمبر کو گول گلاب
گڑھ،ریاسی ،ارناس،اودھمپور،چنانی،رام نگر،سرنکوٹ،منڈھر،پونچھ، حویلی، کرناہ،
کپواڑہ، لولاب، ہندوارہ، لنگیٹ، نور آباد،کولگام،ہوم شالی بگ اور
دیوسر،9دسمبر کو اوڑی رفیع آباد، سوپور، سنگرانہ، بارہمولہ،
گلمرگ،پٹن،چاڈورہ،بڈگام،بیروہ،خانصاحب،چرار
شریف،پانپور،پلوامہ،راجپورہ۔14دسمبرکو حضرت بل،زیڈی بل،عید گاہ،خانیار،حبہ
کدل،امیرا کدل،سونہ وار،بٹہ مالو،اننت ناگ،ڈورہ،ککر ناگ، شانگس، پہلگام،
وچی، شوپیاں،سانبہ،اور وجے پور۔20دسمبرکو بنانی،باسولی،کٹھوعہ،بلاوار،ہیرا
نگر،نگروٹہ،گاندھی نگر،جموں ایسٹ جمون ویسٹ،بشنا،آر ایس پورہ،سچیت
گڑھ،مروہ،دمانا،اکھنور،چھم،نوشیرہ،درہال اور راجوری کالو کوٹ میں پولنگ ہو
گی۔وٹوں کی گنتی23دسمبر کو ہو گی۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں ووٹروں کی کل
تعداد72لاکھ25ہزار پانچسو انسٹھ ہے جن کے لئے10015 پولنگ سٹیشن بنائے جائیں
گے۔
اس وقت مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کی28پی ڈی پی
کی21کانگریس 17بی جے پی11اور دیگر10ہیں۔بی جے پی کا دعوی ہے کہ وہ87رکنی
جموں و کشمیر اسمبلی میں 44سیٹیں حاصل کر کے اپنی حکومت بنائے گی اور
بھارتی آئین میں ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل370کو
ختم کر دے گی،جس کے مطابق بھارت جموں و کشمیر اسمبلی کی منظور ی کے بغیر
جموں و کشمیر سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔مبصرین کے مطابق اس الیکشن
میں بھی کو ئی ایک پارٹی اکیلے حکومت نہیں بنا سکے گی،بی جے پی زور لگا کر
جموں میں مقیم کشمیری پنڈتوں کے ووٹوں کی مدد سے زیادہ سے زیادہ ویلی میں
صرف اننت ناگ اور پلوامہ سے دو سیٹیں حاصل کر سکتی ہے۔نیشنل کانفرنس کی
پوزیشن بہت کمزور ہے اور این سی سے نفرت کی وجہ سے پیپلز ڈیموکریٹک
پارٹی(پی ڈی پی) کی پوزیشن بہتر بتائی جا رہی ہے۔این سی کی طرح کانگریس کی
پوزیشن بھی خراب بتائی جا رہی ہے۔سینئر حریت رہنما شہید عبدالغنی لون کی
پارٹی پیپلز کانفرنس کے دو گروپ ہیں جن میں سے ایک کی سربراہی ان کے بڑے
بیٹے بلال غنی لون کے پاس ہے جو حریت کانفرنس میں شامل ہے جبکہ پیپلز
کانفرنس کا دوسرا گروپ ان کے چھوٹے بیٹے سجاد غنی لون کی سربراہی میں قائم
ہے۔سجاد لون گزشتہ الیکشن میں بھی ناکام رہے۔گزشتہ دنوں سجاد لون نے بھارتی
حکمران پارٹی بی جے پی کے ایک لیڈر سے ملاقات کی اور اب خبر آئی ہے کہ سجاد
غنی لون نے نئی دہلی میں وزیراعظم نریندرا مودی کے ساتھ ملاقات کی ہے۔
چالیس منٹ کی اس ملاقات کے بارے میں پیپلز کانفرنس کی جانب سے جو بیان جاری
ہوا ہے ،اس کے مطابق میٹنگ کا بنیادی ایجنڈا ریاست کے مجموعی فروغ کیلئے
خیالات کا تبالہ تھا اورمیٹنگ میں کئی امور پر بات ہوئی۔تاہم باور
کیاجارہاہے کہ اس ملاقات میں مودی اور لون نے پیپلز کانفرنس اور بھاجپا کے
درمیان اشتراک عمل پر تبادلہ خیال کیا۔باخبر حلقوں کے مطابق میٹنگ میں
الیکشن کے بعد بھاجپا اور پیپلز کانفرنس کے درمیان ممکنہ اتحاد کے حوالے سے
کھل کر بات ہوئی اور اس ضمن میں سجاد لون کو ایک بہت بڑی پیش کش بھی کی گئی
اور انہیں بتایا گیا کہ اگر وہ بھاجپا کے ساتھ اشتراک کرتے ہیں تو انہیں اس
کا بھرپور معاوضہ دیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق یہ ملاقات بھاجپا لیڈر اور
سابق آر ایس ایس ترجمان رام مادھو اور موجودہ مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا کی
سجاد کے ساتھ میٹنگوں کے بعد ہی ممکن ہوئی اور مودی سے ملنے سے قبل بھی
سجاد نے دہلی میں کئی بھاجپا لیڈروں سے ملاقاتیں کی ہیں۔بی جے پی سے سجاد
لون کی اس '' قربت'' سے ظاہر ہو رہا ہے کہ بی جے پی مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے
الیکشن میں کامیابی کے لئے مقبوضہ وادی کے چھوٹے چھوٹے گروپوں کو ملا کر
اپنی طاقت میں اضافے کی کوشش میں ہے۔اس وقت تک پی ڈی پی ظاہری طور پر نیشنل
کانفرنس اور بی جے پی کی مخالفت میں الیکشن مہم چلا رہی ہے لیکن نظر یہی
آرہا ہے کہ پی ڈی پی باقی پارٹیوں سے زیادہ سیٹیں لیکر بی جے پی کے ساتھ
ملکر مقبوضہ کشمیر میں حکومت بنا سکتی ہے۔
دوسری طرف حریت کانفرنس کی تمام جماعتوں اور تنظیموں نے بھارتی چھتری تلے
اس الیکشن کو مسترد کرتے ہوئے اس کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان اورواضح کیا ہے
کہ ریاستی اسمبلی کے الیکشن مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت اور اہمیت پر اثر
انداز نہیں ہو سکتے۔بھارتی حکام نے الیکشن سے کئی ہفتے پہلے سے ہی آزادی
پسند وں کے خلاف وسیع پیمانے پر گرفتاریوں اور قید و بند کی کاروائیاں شروع
کر دی ہیں اور تمام حریت رہنماؤں سمیت حریت عہدیداران اور کارکنوں کو بھی
گرفتار کیا جا رہا ہے۔بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر اسمبلی الیکشن کے
بائیکاٹ کی پاداش میں فورسز کے ذریعے کشمیریوں کے خلاف خوف و دہشت کی اک
نئی فضا پیدا کر دی ہے۔تمام حریت رہنماؤں ،سینئر کارکنوں کو گرفتار کرنے کے
علاوہ عام کشمیری نوجوانوں کو بھی بڑی تعداد میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔اس
صورتحال میں کشمیری نوجوان روپوش ہو رہے ہیں۔بھارت کی طرف سے مقبوضہ
کشمیراسمبلی الیکشن فوج کی بندوق کی نوک پر کرانے کی کوشش کی جارہی ہے اور
اس کے لئے کشمیریوں پرتشدد،قید و بند اور دوسری زیادتیوں اور مظالم کا ایک
نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ بھارت واضح طور پر نہتے کشمیریوں کے خلاف مسلح
ریاستی طاقت کا بھرپور اور مسلسل استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کے مطالبہ
آزادی کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بھارتی حکومت سمجھتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف فوجی کاروائیوں میں
مصروف ہے اور ساتھ ہی اقتدار کی کھینچا تانی سے سیاسی انتشار کی صورتحال
میں پاکستان کی ان کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر اپنی
گرفت مضبوط بنانے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔عمومی طور پر کسی بھی بڑی قدرتی
آفت کے بعد اس علاقے کے طرز عمل میں کافی تبدیلی دیکھنے میں آتی ہے۔مقبوضہ
کشمیر میں ستمبر میں آنے والے ہولناک تباہ کن سیلاب سے وسیع پیمانے پر
تباہی پھیلی ہے اور اس کے اثرات سالہا سال قائم رہیں گے۔مقبوضہ کشمیر
اسمبلی کے الیکشن میں کشمیریوں کا عمومی روئیہ دیکھنے میں آتا رہا ہے تاہم
مسئلہ کشمیر کی نئی عالمی صورتحال،پاکستان کے ساتھ بھارت کی حالیہ کشیدگی
اور سیلاب کی وجہ سے اس حوالے سے ایک نئی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔اسی سال
مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی پارلیمنٹ کے الیکشن میں وادی کشمیر میں
جارحانہ طور پربائیکاٹ دیکھنے میں آیا۔ تاہم اس سیلاب سے کشمیریوں کی بھارت
کے خلاف بیزاری میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ |