تحریر:ملک ارشد عاصم
اسلام دین ِ فطرت ہے ۔ دین ِ حق کاوصف ہے کہ اس کی تاریخ اﷲ کی برگزیدہ
ہستیوں کے کارناموں اورمثالی کردارکی وجہ سے رشدوہدایت کابہترین مرقع ہے۔
خاتم المرسلین ﷺ کی بعثت کے طفیل اﷲ نے امت محمدی ﷺ پراپنا خاص فضل کیاہے ۔
یوں تو تقوی وپرہیزگاری کی وجہ سے محسن کائنات ﷺ کا ہرامتی ایک سے بڑھ
کرایک ہے تاہم جن برگزیدہ ہستیوں کا شجرہ نسب خاندان نبوت سے ملتاہے ان کے
کارہائے نمایاں کی معاشرتی تاریخ ہمیشہ احسان مندرہے گی۔ حاجی ملک محمدشریف
جُھجھ رحمتہ اﷲ علیہ کاشماربھی ان سعادت مندہستیوں میں ہوتاہے جن کاشجرہ
نسب پشت درپشت خانوادہ نبوت سے جاملتاہے۔ زہدوعبادت اورریاضت کی بدولت
خاندان بنوہاشم وقریش کوامت مسلمہ میں غیرمعمولی مقام حاصل ہے۔عصرحاضر میں
آج بھی کچھ صاحب ِ کمال شخصیات ہیں جوتقوی وپرہیزگاری کی وجہ سے معاشرے میں
نمایاں مقام کی حامل ہیں۔ حاجی ملک محمدشریف جُھجھ رحمتہ اﷲ علیہ نے زندگی
کی نوے بہاریں دیکھیں ۔ مالک کائنات کے بے پناہ احسانات کے باوجودانہوں نے
ساری زندگی انتہائی سادگی میں بسرکی،ان کازیادہ تروقت بارگاہ الٰہی میں
ذکرواذکار،ریاضت وعبادت اوردوجہاں کے والی پردرود وسلام کے نذرانے پیش کرتے
گزرا۔ درویش صفت انسان نے تادم مرگ خود کوحصول رزق کے لیے کھیتی باڑی کے
پیشے سے منسلک رکھا اورزمینداری کے نتیجے میں جو روزی میسرآئی اسی
پرصبروشکر کے ساتھ قناعت کی ۔
قیام پاکستان کے وقت حاجی ملک محمدشریف جُھجھ رحمتہ اﷲ علیہ جوانی کی سیڑھی
پرقدم رکھ چکے تھے ۔ اسلام اورپاکستان کے دشمنوں کو پاک سرزمین دنیاکے نقشے
پرابھرتی ہضم نہیں ہورہی تھی یہی وجہ ہے کہ جہاں قیام پاکستان کی راہ میں
سیاسی طورپرروڑے اٹکائے گئے وہیں مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی پروارکرنے کابھی
کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیاگیا۔حاجی ملک محمدشریف جُھجھ رحمتہ اﷲ علیہ
کاخاندان زمیندارہونے کے ناطے چونکہ علاقے میں اپنی منفردپہچان کاحامل چلا
آرہاہے ۔ اس لیے علاقائی معاملات میں قیام پاکستان سے قبل اوربعد میں بھی
ان کے خاندان( جُھجھ قبیلے) کی ملک وملت کے لیے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں۔تقسیم برصغیرپاک وہندکے موقع پرحجرہ شاہ مقیم (ضلع اوکاڑہ) کے
گردونواح میں سکھ اورہندوبڑی تعدادمیں مقیم تھے۔ جب سکھ حجرہ شاہ مقیم سے
بھارت روانہ ہونے لگے توانہوں نے اسلام اورپاکستان سے بُغض کاثبوت مسلمان
خواتین کے اغواء کی شکل میں دیا۔حاجی ملک محمدشریف جُھجھ رحمتہ اﷲ علیہ کے
مطابق جس وقت سکھ مسلم خواتین کو جبرابھارت لے جارہے تھے وہ سکول میں
زیرتعلیم تھے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی وہ اپنے والد گرامی ملک لشکر جُھجھ
رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورمسلم خواتین کی بازیابی کے لیے
خواہش کااظہارکیا۔ان کے والدگرامی نے بغیرکوئی لمحہ ضائع کیے اپنے جواں سال
فرزند کواجازت عنائت فرمادی اورحکم دیاکہ جب تک مسلم خواتین کوبازیاب نہ
کرالوگھرواپس مت آنا۔ والدگرامی کی اجازت اورحکم ملتے ہی اسلام کے غازی نے
معرکہ حق کے لیے ضروری سامان لیااورچندقریبی عزیزوں کے ہمراہ سکھوں کے
قافلے پرہلہ بول دیا۔ غالباملک ودین کی حرمت کایہ معرکہ راجووال(اوکاڑہ) کے
مقام پرہواجس میں وہ تمام سکھ جہنم واصل کردیے گئے جنہوں نے مسلم خواتین
کوہندوستان لے جانے کامذموم ارتکاب کیا۔
حاجی ملک محمدشریف جُھجھ رحمتہ اﷲ علیہ کو قیام پاکستا ن کے بعدتعلیمی
قابلیت اورملک وملت کے لیے خدمات کے اعتراف میں حکومتی عہدوں کی پیش کش
ہوئی مگرانہوں نے تمام آفرز یہ کہہ کرٹھکرادیں کہ وہ خاندانی روایات کوپیش
نظررکھتے ہوئے زمینداری کو ترجیح دیناپسندکرتے ہیں۔
غازی اسلام رحمتہ اﷲ علیہ نے بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک ساری
زندگی یادالہٰی میں گزاری مگرزہد وعبادت کے نتیجے میں مالک کائنات کی طرف
سے حاصل کرامات کو کبھی بھی کسی کے سامنے آشکار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ صاحب
کمال ہستیوں سے کسب ِ فیض کے لیے رہنمائی لی۔ حاجی ملک محمدشریف جُھجھ
رحمتہ اﷲ علیہ کے ریاضت وعبادت بارے گاوں کے امام مسجد مولوی محمد طفیل نے
دوران اعتکاف راقم الحروف کے سامنے انکشاف کیاکہ وہ خواب میں مرحوم کی
بارگاہ رسالتﷺ میں رسائی کامنظرملاحظہ کر چکے ہیں۔اﷲ کے اس نیک بندے نے
اپنے خواب کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ حاجی ملک محمدشریف جُھجھ رحمتہ اﷲ
علیہ کی بارگاہ رسالت میں رسائی کاعالم یہ تھاکہ انہوں نے نے ان کاہاتھ
پکڑکربارگاہ رسالت مآب ﷺ میں حاضری دی اورعرض کیا کہ یارسول اﷲﷺ یہ بندہ
(مولوی محمدطفیل)آپ کے دیدارکا بہت طلب گار ہے اس پراپنی نظرِکرم فرمادیں
۔جسے دوجہاں کے والی نے قبولیت بخشی اوران کے سرپر دست ِشفقت رکھ دیا۔
حاجی ملک محمدشریف جُھجھ رحمتہ اﷲ علیہ کے بقول انہوں نے ساری زندگی جمعہ
کی نمازقضا ء نہیں ہونے دی۔ جمعہ کے روزوہ اس قدرعبادت وریاضت کرتے کہ
انہیں دیکھ کررشک آتاکہ عصرحاضر میں اﷲ کے نیک بندے اب بھی موجودہیں جن کے
شب وروزکایادالہٰی میں گزرنامادہ پرستی میں مشغول انسانوں کے لیے کسی معجزے
سے کم نہیں۔ اسلام کاغازی جمعہ کے دن کواس قدراہمیت دیتاتھا کہ اس روز ان
کی عبادت کادورانیہ عام دنوں کی نسبت بڑھ جاتا۔پاکستان میں دستیاب کتب میں
جتنے بھی درودپاک درج ہیں وہ سب ان کوازبرحفظ تھے اور ان کے ورد کے ساتھ
ساتھ بعض مخصوص قرآنی سورتوں کی تلاوت جمعہ کے روز معمولات عبادت میں شامل
رہی۔ اس دن سے محبت کاصلہ انہیں یوں ملاکہ جب مختصرعلالت کے بعد انہوں نے
دار فانی سے کیا تووہ بھی جمعہ کابابرکت دن تھا۔ اوردوران تدفین ان کی
لحدمیں وہ خوبصورتی تھی جوناقابل بیان ہے۔
ان کی بارگاہ الہٰی و رسالت میں قبولیت کاعالم یہ ہے کہ آج بھی اگران کی
لحدپرکھڑے ہوکرخشوع وخضوع کے ساتھ دعائے مغفرت کی جائے توان کی مرقدسے
خوشبوکاسلسلہ شروع ہوجاتاہے جودل ودماغ کومعطرکردیتاہے۔ حاجی ملک محمدشریف
جُھجھ رحمتہ اﷲ علیہ بیت اﷲ اورروضۂ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت کے بعداکثریہ
فرماتے تھے کہ اب انہیں دنیامیں رب کی نعمتوں کاشکراداکرنے کی توفیق کے
علاوہ کسی چیزکی تمنانہیں۔
راقم الحروف اس بات کاشاہدہے کہ جب حا جی ملک محمدشریف جُھجھ رحمتہ اﷲ علیہ
کے دماغ پرفالج کاحملہ ہوااوراس کے نتیجے میں مرض نے دماغی نظام سمیت جسم
کے بعض اعضاء بھی متاثرکیے مگرپھر بھی انہوں نے رجوع الی اﷲ کاسلسلہ منقطع
نہیں کیا۔حتی کہ نیم بے ہوشی کی حالت میں بسترِ مرگ پرجوآخری نمازاداکی وہ
نمازعصرتھی۔ ان کی ریاضت کاثبوت اس سے بڑھ کرکیا ہوسکتا ہے کہ وہ علالت کے
باجودزندگی کے آخری سانس تک ذکرالہٰی میں مصروف عمل رہے جس کی جھلک جنبش لب
کی صورت واضح دکھائی دیتی رہی ۔اﷲ کے نیک انسان کومالک کائنات کے طرف سے
کئی کمالات عطا تھے مگر انہوں نے ہمیشہ انہیں پوشیدہ رکھا۔زندگی کی نوے
بہاریں دیکھنے والے اسلام کے غازی نے زندگی میں صرف ایک نمازکی امامت کرائی
اوروہ نمازمغرب تھی اوراس نمازکے مقتدی بھی ان کے دوصاحبزادگان تھے۔ اﷲ
اسلام کے غازی کی مغفرت فرمائے اورانہیں کروٹ کروٹ جنت عطا کرے۔آمین |