آج سے ٹھیک تیرہ ماہ قبل صوبہ
پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ مسٹر شہباز شریف اپنے حکومتی سٹاف کے ہمراہ سرکاری
دورے پر برلِن تشریف لائے بظاہر تو وہ سرکاری دورہ تھا لیکن ڈپلومیٹک
انٹرنل افیئرز سے شاید ہی کوئی واقف ہو،اس کاررواں کے آنے اور جانے پر
کروڑوں روپوں کا ضیاع ہوا جو ظاہر ہے ملک و قوم کی ملکیت ہیں،دورے کا اصل
مقصد کچھ اور ہی تھا لیکن اٹھارہ انیس کروڑ پاکستانی عوام کا منہ ،کان اور
آنکھیں بند کرنے کیلئے میڈیا میں جو بیانات دئے گئے شاید پاکستانی قوم اور
میڈیا فراموش کر چکے ہوں لیکن ہر انسان کی یاداشت کمزور نہیں ہوتی۔ مشترکہ
کانفرنس میں مسٹر شریف اور ان کے ساتھیوں نے جرمنوں کے سامنے میز پر مکے
مار مار کر بلند بانگ دعوے کئے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے چاپلوسی کی
اور کشکول کا سہارا بھی لیا کہ ہم دہشت گردی کو ختم کرکے دم لیں گے، جرمن
اپنا سرمایہ پاکستان میں لگائیں، ہمیں سستی بجلی مہیا کی جائے، سولر پلانٹ
لگائیں،انرجی پلانٹ کیلئے ہم پانچ ہزار ایکڑ زمین دیں گے، ہماری حکومت
سرمایہ کاروں کو سیفٹی فراہم کریگی، ہم نوجوان طبقے کو ہمہ وقت تیار رکھیں
گے وغیرہ وغیرہ اورملک و قوم کا سرمایہ اس غیر ملک میں انویسٹ کرنے کے بعد
چلے گئے وہ دن اور آج کا دن کسی جرمن کبوتر کے بچے نے بھی پاکستان میں پر
نہیں مارا تو کون سا انرجی پلانٹ یا سولر پلانٹ ۔مسٹر شریف کی جرمنی آمد
اور رخصتی کے بعد راقم نے کوشش کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا جس کا مختصر
حصہ پیش خدمت ہے۔
کوشش۔اکتوبر دو ہزار تیرہ میں صوبہ پنجاب کے وزیرِ آعلیٰ جناب محمد شہباز
شریف جرمنی کے سرکاری دورے پر برلِن تشریف لائے اور ایک آعلیٰ سطحی کانفرنس
میں شرکت کے دوران جرمن حکومت کو پاکستان میں ناسور کی طرح پھیلی دہشت گردی
کے خاتمے اور توانائی کے بحران سے نجات پانے کا ایک سپیشل آئیڈیا پیش
کیا۔کانفرنس میں ان کا موقف تھا کہ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے جرمنی
پاکستان میں بجلی کے بحران کو حل کرنے میں مدد کرے ،پاکستان میں دہشت گردی
کے علاوہ توانائی بحران بھی کینسر کے مرض کی طرح پھیل چکا ہے اور بجلی ہی
واحد حل ہے جس کے توسط سے دہشت گردی کو شکست دی جا سکتی ہے،اگر ہم بجلی کے
بحران پر قابو پالیں تو دہشت گردی سے بھی پچاس فیصد نجات حاصل کر سکتے
ہیں،مسٹر شریف نے تین سو جرمن اور مختلف ممالک سے آئے سرمایہ کاروں اور
سفیران پر مشتمل اس تقریب میں کہا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے
ہمارے تعمیراتی کارکن ،تیکنیکی ماہرین اور کمپنیز کے ملازمین آپ کے ساتھ
کام کریں گے ،ہماری حکومت تعلیم اور روزگار کیلئے سرمایہ کاری کر رہی ہے
تاکہ انتہا پسندی پر قابو پایا جا سکے اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن
ہو،ہم چاہتے ہیں کہ ملک دہشت گردی کے اس موذی مرض سے نجات حاصل کرے اور ایک
زندہ مملکت بنے،ہم جرمن سرمایہ کاروں کو جنوبی پنجاب میں پانچ سو ایکٹر
زمین میگا سولر پلانٹ لگانے کیلئے مہیا کریں گے،اقتصادی امور کے وزیر مسٹر
قاسم ایم نیاز نے کانفرنس میں بجلی کی بندش پر نہایت افسردہ اِلفاظ میں کہا
کہ پاکستان میں اکثر مسلسل اور تقریباً تمام دن بجلی کی بندش قومی ایمر
جینسی کی صورت اختیار کر گئی ہے ہم چاہتے ہیں کہ تین سال کے اندر اس بحران
پر قابو پالیں(یہ دعوہٰ زرداری حکومت کے اقتدار میں آنے کے چند روز بعد
مسٹر پرویز اشرف نے بھی کچھ ایسا بیان دے کر کیا تھا کہ دو ماہ کے اندر
بجلی کے بحران پر قابو پالیں گے )آنے والے تین سالوں میں سو فیصد نتیجہ نہ
آئے لیکن عوام روشنی دیکھیں گے اور جدید ٹیکنالوجی ہی اس بحران کا حل
ہے۔مسٹر شریف نے کہا کہ جرمنی میں سورج نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی بائیس
ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے اسکے برعکس پاکستان سورج کی نعمت سے
مالا مال ہے ہمارے پاس سورج ہے اور آپ کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور ایکسپرٹ
عملہ جو پاکستان کو توانائی کے بحران سے نجات دلا سکتا ہے،ہم اچھے منافع
اور سلامتی کا وعدہ کرتے ہوئے سرمایہ کاروں سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنی
پروڈکٹس اور مارکیٹس پاکستان میں روشناس کرائیں ہم روکاوٹیں ہٹائیں گے
وغیرہ وغیرہ اور تقریر کے اختتام پر ایموشنل ہو کر میز پر مکا مارتے ہو ئے
کہا پاکستان جرمن دوستی زندہ باد۔یہ تمام بیانات ریکارڈڈ ہیں اور اگر
قارئین کو کسی قسم کا شک ہو تو گزشتہ برس اکتوبر نومبر کے اخبارات یا ویب
سائٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں بڑے برادر بھی اپنے کاررواں سمیت جرمنی پدھارے اور چھوٹے برادر
کی تقریر سے مشابہت رکھتے ہوئے وہی ڈائیلاگ ادا کئے جو گزشتہ برس چھوٹے نے
مکے مار مار کر کئے تھے ،چین اور جرمنی کے بعد برطانیہ میں بھی ملک اور قوم
کی ترقی کیلئے رٹے رٹائے اور گھسے پٹے اینٹیک بیانات دئے جس سے نہ تو ملک
ترقی کر سکتا ہے اور نہ عوام کو روزگار ، توانائی ،صحت اور روٹی پانی مہیا
ہو سکتی ہے،سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کوئی کیوں پاکستان میں سرمایہ کاری
کرے ؟بیرون ممالک میں عشروں سے رہائش پذیر پاکستانیوں نے اپنے ملک میں کئی
بار سرمایہ کاری کی ، لیکن انہیں کاروباری نقصان سے زیادہ ذہنی و جسمانی
نقصان کا سامنا کرنا پڑاان تکالیف اور نقصانات کا آغاز پاک سر زمین پر لینڈ
ہونے کے بعد کسٹمز والوں سے ہوتا ہوا توانائی کے بحران ، لاقانونیت، رشوت ،
کرپشن ، چوری ،ڈکیتی ،بھتہ خوری ،اغوا برائے تاوان ،فرقہ بندی اور لاتعداد
واقعات کے علاوہ دہشت گردی کے خوف پر ختم ہوتا ہے ،ان حالات کے پیش نظر اگر
کوئی پاکستانی اپنے ملک میں ایک روپے کا کاروبار نہیں کرنا چاہتا تو ایک
غیر ملکی کیسے کسی غیر محفوظ ریاست میں لاکھوں کروڑوں ڈولرز یا یوروز
انویسٹ کرے گا۔
حکومتوں کا اولین فرض ہوتا ہے ریاست اور عوام کا تحفظ ،جس ریاست کے عوام
غیر یقینی زندگی بسر کرتے ہوں کہ نہ جانے کب کیا آفت آن پڑے وہاں سرمایہ
کاری تو درکنار کوئی اس ریاست کا نام لینا بھی گوارہ نہیں کرتا ،شریف
برادران کو اگر اتنا ہی شوق ہے کہ بیرون ممالک کے افراد پاکستان میں سرمایہ
کاری کریں تو پہلے ریاست کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں نہ کہ سیر سپاٹے کریں ،غیر
ملکیوں کو مراعات دینے کی بجائے اندرونِ ملک عوام کیلئے روزگار کی راہیں
ہموار کی جائیں مثلاً فیکٹریز یا انسٹیٹیوٹ وغیرہ کا سنگ بنیاد رکھا جائے
جہاں وہ تعلیم و ہنر کے علاوہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں، تعلیم یافتہ
اور ہنر مندافراد کو روزگار مہیا کیا جائے ،ریاست میں پھیلی غیر یقینی صورت
حال کا خاتمہ ہو گا تو پاکستانی ہی نہیں دنیا بھر کے لوگ سرمایہ کاری میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے،سرمایہ کاری کا راگ الاپنے کی بجائے سیلابی صورت حال
سے نمٹنا اشد ضروری ہے اگلے سال پھر سیلاب آئے گا اور بے گناہ لوگ بہہ
جائیں گے ،کل کس نے دیکھا ہے آج کی بات کریں ،آج تھر میں قحط سے پانچ سو سے
زائد معصوم بچوں کی اموات ہوئیں کس نے کیا کیا ؟ سندھ میں جو قحط پھیلا ہوا
ہے یا ملک کے اندر غلیظ سرکاری ہسپتالوں میں غریب عوام ایڑیا ں رگڑ رگڑ کر
مر رہی ہے انہیں دو ہزار کے چائنا اور کوریا کے بنے ہوئے لیپ ٹاپ اور ترکی
سے بھیک میں ملی میٹرو بسیں نہیں مریض کو دوا علاج اورقحط زدہ افراد کو دو
نوالے روٹی کی ضرورت ہے ،نہ کہ لیپ ٹاپ یا کھٹارہ بس کی۔
قحط میں بچوں کی اموات پر سندھ کے ایک مہان منسٹر کا بیان تھا بارشیں نہیں
ہوئی ہم کیا کر سکتے ہیں لعنت ایسے انسان پر جو انہی مرنے والوں کی بدولت
کرسی پر براجمان ہوا اور کہتا ہے ہم کیا کریں۔اپنے سپوک مین کے ذریعے میڈیا
میں اوچھے اور نپے تلے بیانات یا ظاہری ہمدردی جتانے کی بجائے پریکٹیکل
کریں ،کسی کو منہ زبانی نوٹس بھیج دینے سے مردے زندہ نہیں ہو جاتے،آج تک ان
رہنماؤں نے سوائے نوٹس لینے یا دینے کے کبھی کوئی تعمیری کام بھی کیا ہے ؟
شراب اور چرس کے نشے میں دھت بغیر لائسنس کے اگر کوئی بس ڈرائیور سو افراد
کو بٹھا کر بس ڈرائیو کرے گا تو مسافروں کو منزل پر کون پہنچائے گا ، ستاون
افراد بس کے حادثے میں ہلاک۔نوٹس لے لیا۔واہگہ بارڈر پر سیکیورٹی والوں کی
غفلت اور نااہلیت سے ساٹھ افراد جان سے گئے ۔ نوٹس لے لیا۔ محرم میں دہشت
گردی کا خطرہ۔نوٹس لے لیا۔جن افراد کو نوٹس بھیجے جاتے ہیں اگر واقعی ان کی
کوئی اہمیت یا وقعت ہوتی تو دوبارہ ایسے حادثات رونما نہیں ہوتے ،جتنے نوٹس
جمہوریت آنے کے بعد لئے اور دئے گئے اگر انہیں جمع کیا جائے تو ایک شہر ان
ردی نوٹسوں سے بھر جائے،آج بھی نوٹس لئے دئے جاتے ہیں اور عوام کو بے وقوف
بنایا جاتا ہے۔
قوم جانتی ہے کہ یہ سب سیاسی لٹیرے ، چور اور ڈکیت ہیں دنیا کی کوئی پولیس
ان کی شہہ رگ تک نہیں پہنچ سکتی،یہ قانون ہی وہ بنواتے ہیں جو غریب اور
لاچار پر لاگو ہواور یہ خود اس قانون کی آڑ میں دنیا کا ہر جائز ناجائز عمل
جاری رکھتے اسے روندتے اور مسلتے رہتے ہیں ،عوام اب جان چکی ہے کہ یہ سب نہ
تو رہنما اور لیڈر ہیں بلکہ مافیا گینگ ہے جو ان پر زبردستی مسلط ہوگیا ہے
اور کسی قیمت پر ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں جیسے ایک محاورہ ہے کہ
میں کمبل کو چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا، ستر کی دہائی سے عوام
اب رفتہ رفتہ عادی ہو چکے ہیں کہ ایک مافیا آتا ہے دوسرا جاتا ہے دوسرا
جاتا ہے تو پہلے والا پھر آجاتا ہے، جونک کی طرح چمٹ کر عوام کا خون چوس
رہے ہیں۔ |