عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کوپولیو پھیلانے والا ملک قرار دے دیا!
(Akhtar Sardar, Kassowal)
عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو
دنیا بھر میں پولیو وائرس پھیلانے والا واحد ملک قرار دے دیا ۔یہ ہے اخبار
کی خبر اخبار میں مزید لکھا ہے کہ بین الاقوامی ہیلتھ کمیٹی کی رپورٹ میں
پاکستان سے پوچھا گیا ہے کہ کتنے پاکستانی سرٹیفیکٹ لے کر بیرون ملک گئے
اور کتنے افراد کو سرٹیفیکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے روکا گیا ۔پاکستان سے مزید
کہا گیا ہے کہ 6 ماہ کے اندر پولیو وائرس پر کنٹرول حاصل کرے ۔اس طرح کی
چند ہدایات دینے کے بعد کہا گیا ہے کہ اگر ان پر عمل نہ کیا گیا تو
پاکستانی مسافروں کی اسکریننگ کی جائے گی ۔ اس میں تو مکمل صداقت ہے کہ
دنیا میں تقریبا اس مرض کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔اس سا ل پاکستان میں اب تک
پولیو کے دو سو سے اوپر کیس سامنے آئے ہیں اتنے کیس گذشتہ دس سال میں کسی
سال سامنے نہیں آئے ۔پاکستان میں پولیو کے 80 فیصد مریض پائے جاتے ہیں ۔وزیر
اعظم نے اس بات کا نوٹس لے کر انسداد پولیو فوکس گروپ قائم کر دیا ہے جو ہر
پندرہ دن بعد وزیر اعظم کو رپورٹ دینے کا پابند ہے ۔پاکستان میں اس مرض پر
قابو کیوں نہ پایا جا سکا اس کی کئی ایک وجوہات ہیں مثلا پولیو کی روک تھام
کے جو قطرے پلائے جاتے ہیں ان کا خالص نہ ہونا یعنی ادویات میں ملاوٹ ،اب
تک جتنی بیرونی امداد اس مرض کی روک تھام کے لیے لی گئی اس کا اسی مد میں
استعمال نہ ہونا یعنی کرپشن ،پولیو کے بارے میں عوام کو آگاہی کا نہ ہونا
الٹا پولیو قطروں کو صحت دشمن خیال کیا جانا ،بعض ایسے علاقے ہیں جہاں تک
پولیو قطروں کی ٹیم رسائی ممکن نہیں ہے وہاں بچوں کو قطرے پلائے نہ جا سکے
ہیں ،پولیو ورکرز کے خلاف بعض مقامات پر تشدد کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں
اس کی وجہ وہاں پولیو کے قطروں کے بارے میں غلط فہمی کا پایا جانا ہے ۔اس
غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے حکومت کیا کوشش کر رہی ہے اس بارے میں مجھے
کوئی خاص کام نظر نہ آیا اگر کہیں کام ہو بھی رہا ہو گا تو اشتہارات یا
کوئی کمیٹی بنانے کے سوا کیا ہو رہا ہو گا ۔ پولیو کا پاکستان سے خاتمہ
کیوں نہ ہو سکا اس کی ایک وجہ پولیو قطروں کے بارے میں غلط افواہیں بھی ہیں
،بھکاریوں کے بچوں کو بھی پولیو کے قطروں کا مکمل کورس نہیں کروایا جاتا ،بعض
مقامات ایسے ہیں جہاں پولیو ٹیموں کا جانا مشکل تر ہے ، اس وقت دنیا میں
صرف تین ممالک ہیں جن میں پولیو کے مریض پائے جاتے ہیں پاکستان ،افغانستان
اور نائیجیریا اس کے علاوہ شام میں ایک مریض ملا جب اس کی جنیاتی تحقیق کی
گی تو وہ پاکستانی وائرس سے پھیلنے والا ثابت ہوا جس کے بعد پاکستان پر
عالمی ادارہ صحت نے دباو بڑھا دیا کہ اس مرض کا خاتمہ کیا جائے ۔پولیو ایک
قدیم مرض ہے اس کا اب تک علاج دریافت نہ کیا جا سکا جب یہ مرض لا حق ہو
جاتا ہے تو علاج ممکن نہیں ہے ہاں اس کا علاج حفاظتی تدابیر ہی ہیں 1960
میں پہلی مرتبہ پولیو ویکسین ایجاد ہوئی ۔یہ ویکسین قطروں کی صورت میں پہلی
دفعہ 1966 دی جانے لگی بہت جلد دنیا سے اس مرض کا خاتمہ ہو گیا ۔لیکن
پاکستان میں اس وقت یہ مسئلہ ایک سنگین صورت اختیار کر گیا ہے اگر اس مرض
پر قابو نہ پایا گیا تو ہمارے بچوں کا مستقبل تو خطرے میں ہے ہی ہم دنیا سے
بھی بہت پیچھے رہ جائیں گے ۔ہم پر دنیا کے سفر کی پابندی کے علاوہ بدنامی
کا سبب بھی بن جائے گا ۔اس کا حل یہ ہے کہ ہمارے علماء کرائم ،اساتذہ ،منتخب
نمائندے اور سب سے بڑھ کر حکومت ا اس پر اپنی ذمہ داری محسوس کرے ۔اور اس
بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ جو پولیو قطروں کے خلاف ہیں وہ ملک کی ترقی اور
صحت کے دشمن ہیں ان کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے ہو سکے تو قانون سازی کی
جائے۔اور قطرے نہ پلانا ،اس میں رکاوٹ ڈالنا،قابل سزا جرم قرار دیا جائے
وغیرہ ،پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمہ کے لیے مردم شماری کا ہونا بھی
ضروری ہے۔عوام کو بھی اس بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے اور ملک
کی نیک نامی کے لیے دن رات کام کرنا چاہیے ۔میڈیا اس بارے بہت اہم خدمات سر
انجام دے سکتا ہے ،اسی طرح کالم نویس، پیر ،مرید ،ڈاکٹر ،استاد،مولوی ،
لیڈر ،وغیرہ اپنا اپنا کردار ادا کریں تو کوئی مشکل نہیں ہے کہ ہم اس مرض
سے نجات حاصل کر لیں اور دنیا میں سر اٹھا کر چل سکیں ۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.