محاسبہ کیا جائے بھائی محاسبہ

غصہ تو آنا ہی تھا ایسے لگتا تھا کہ اس ٹریفک پولیس کانسٹیبل نے صرف ہم ہی کا چالان کاٹنا تھاکیوں کہ ہمارا چالان کاٹنے کے دوران کوئی دس سے پندرہ موٹر سائیکل ہمارے پاس سے ایسے گزرے جن پر ڈبل سواری اندھوں کو بھی دکھائی دے رہی تھی مگر ٹریفک پولیس کے اس کانسٹیبل کا انوکھا انصاف تھا کہ اسے صرف ہم ہی ڈبل سواری نظر آئے ۔اتنا اعلیٰ اور بہترین انصاف کرنے والے اس ٹریفک پولیس کانسٹیبل کو جب ہم نے اس اعلیٰ انصاف کا شکوہ کیا تو صاحب بولے کہ میں اکیلا بندہ ہوں کیا کیا کروں ۔بتاتو وہ مجبوری رہا تھا مگر انداز ایسا تھا کہ جیسے اس کی یہ ڈیوٹی لگانے کی غلطی ہم سے سرزد ہوئی ہو،خیرانصاف کے تقاضوں کو ہم پر ادا کرنے کے بعد یہ پولیس کانسٹیبل فٹ پاتھ پر کھڑا ہوگیا۔ اسی دوران ہمارے پاس سے پھر پانچ چھے موٹر سائیکل ایسے گزرے جو ڈبل سواری کے جرم کے مرتکب ہوئے مگر اس پولیس والے کا انصاف میرے خیال میں ہمارے چالان کاٹنے کے بعد ختم ہوگیا تھا یا ہوسکتا ہے کہ ڈبل سواری کی پابندی ہی تب اٹھ گئی ہو۔ شش و پنج میں مبتلا ہم نے اس کانسٹیبل کو پھر انصاف کے اصل تقاضوں کا درس دینا چاہا تو حضور بولے کے پورا دن ہم ایسی باتیں سنتے رہتے ہیں اس لیے میرے سامنے یہ انصاف اور برابری کی باتیں مت کرو۔یہ نصیحت کرکے وہ سڑک کی دوسری طرف روانہ ہوا اور ہم اس فرسودہ سسٹم کو برا بھلا کہتے گھر کو روانہ ہوئے ۔

یہ اس سسٹم کی ایک ہلکی سی جھلک ہے جس کو بچانے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اس سسٹم کے داعی سرگرم نظر آتے ہیں بے شمار تو اس سسٹم کو جمہوریت کے پیچھے پناہ دے کر اپنے آپ کو بچا رہے ہیں ۔دھرنوں نے جہاں عوام میں کئی چیزوں کو بے دار کیا وہاں ہی اس فرسودہ سسٹم کے بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کی تب ہی تو جگہ جگہ اس فرسودہ سسٹم کے خلاف بولنے والے سامنے آئے اور دھڑلے سے اپنا اثر ایسا چھوڑا کہ فرسودہ سسٹم کو مزید خراب کرنے والے سٹپٹاسے گئے۔اس فرسودہ سسٹم کے موجب اور وجہٗ فرسودہ سسٹم ان دھرنوں سے اتنے عاجز آچکے ہیں کہ آپ اخبار کے صفحات دیکھ لیں آپ کو فرسودہ سسٹم بچانے کے داعی چھوٹی بڑی ساری سرخیوں میں عجیب و غریب بیان دیتے واضح نظر آئیں گے۔

اس فرسودہ سسٹم کو بچانے والوں میں نہ صرف وہ لوگ شامل ہیں جو تقاریر میں ایک دوسرے کے باہم دست و گریبان تھے بل کہ وہ سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو مذہبی سیاسی جماعتیں کہلاتی ہیں ۔ ان مذہبی سیاسی جماعتوں میں سے ایک جماعت کے قائد سراج الحق نے سب سے پہلے اس فرسودہ سسٹم کو بچانے کے لیے نعرہ لگایا جب کہ اس فرسودہ سسٹم کو بچانے کے لیے تو وہ 14اگست سے پہلے ہی برسر پیکار تھے جب کہ دوسری مذہبی سیاسی جماعت کے قائد فضل الرحمان نے بھی اس بات کا عندیہ حال ہی میں ایک اخبار کو انٹرویودیتے ہوئے دیا کہ وہ بھی موجودہ سسٹم اور جمہوریت بچانے کے درپے ہیں ۔سسٹم کون سا اور جمہوریت کون سی؟یہ ان دونوں حضرات نے واضح نہیں کیا ۔۔۔وجہ بوٹوں کی چاپ بھی ہوسکتی ہے اور اپنی نشستیں بھی ۔۔۔۔بہر حال ایک عام بندے (جو چالاک و شاطر نہ ہو مطلب سیاست دان نہ ہو) کے لیے جمہوریت وہ عمل ہے جس میں جمہور کی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھ کر ایک ایسا سسٹم بنایا جائے جس میں جمہور کے لیے آسانیاں ہوں اور جمہور کی ہر پریشانی کا ازالہ فلفور ہوجائے مگر موجودہ سسٹم طاقت ور جمہور کے لیے ہے جب کہ معاشی و معاشرتی طور پر کم زور جمہور کے لیے یہ سسٹم مذکورہ بالا سسٹم ہی نہیں شاید اسی نقطہ کو مدنظر رکھتے ہوئے طاقت ور اس سسٹم کو بچانے کے لیے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے ہیں اپنی بقاء تو سب کو عزیز ہوتی ہے ۔کم زور اس سسٹم کو ختم کرنے کے درپے ہیں جب کہ طاقت ور اس سسٹم کو بچانے کے درپے ہیں ۔

موجودہ فرسودہ سسٹم کے نظارے آپ تھرپارکر میں بھوک و پیاس سے مرتے معصوم بچوں کی صورت میں کر سکتے ہیں جس وقت راقم یہ تحریر اخبار کو روانہ کرنے لگا تھا اس وقت تک تھرپارکرمیں47دنوں سے جاری بھوک و پیاس کے رقص سے 72بچے مر چکے تھے جب کہ کل ملا کر سیکڑوں افراد بھوک و پیاس اور بیماریوں کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔اذیت ناک خبر تو یہ ہے کہ وہاں کے بیشتر افرادان حالات سے اتنے تنگ آچکے تھے کہ مایوس ہوکر اپنی زندگی کا خاتمہ خود اپنے ہاتھوں کر بیٹھے ۔بھوک و پیاس سے مرنے والے بچوں اور خود کشی کرنے والے افراد کے چہروں کو نظروں سے کریدا جائے تو آپ کو ان حکمرانوں کے چہرے واضح دکھائی دیں گے جو خود تو مخمل و کمخواب میں سوتے ہیں ، دعوتوں میں 70سے زائد ڈشز رکھتے ہیں ، علاج معالجے کے لیے پاکستان کے ڈاکٹرز کو دھتکار کر بیرون ملک لاکھوں لگا کر جاتے ہیں اور ملک میں آکر اس فرسودہ سسٹم کو بچانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں ۔جب ان سے تھرپارکر میں مرنے والوں کا گلہ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ وہاں بھوک و ننگ نہیں ہیں بچے تو زچگی سے مر رہے ہیں ۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ زچگی سے مر رہے ہیں تو کیا زچگی کے عمل کے لیے حکمرانوں کا فرض نہیں بنتا کہ ماں اور نومولود کو اعلیٰ علاج معالجہ فراہم کیا جائے ۔ جمہوریت کیا اسی کو کہتے ہیں کہ لوگوں کی توجہ تھر کی بھوک و ننگ سے ہٹا کر زچگی سے اموات پر ڈال دی جائے ۔

اس فرسودہ سسٹم کی قباحتیں آپ کو جگہ جگہ دکھائی بھی دیں گی اور آپ اس فرسودہ سسٹم کے کسی نہ کسی صورت شکار بھی ہوں گے اگر پھر بھی آپ اس سسٹم کو آئیڈیل یا بہترسسٹم کہتے ہیں تو آپ غربت سے تنگ اس باپ کو سامنے رکھیں جو اپنا گردہ بیچ دیتا ہے ، اس بیٹی کی آہ و بکا کے لیے کان کھولیں جو انصاف نہ ملنے پر تھانے کے سامنے خود سوزی کر کے اس دنیا سے رخصت ہوجاتی ہی، اس ماں کا پیار محسوس کریں جو بچوں کو کھانا نہ دے سکنے کی صورت میں بچوں سمیت دریا میں چھلانگ لگا لیتی ہے ، یہ اسی سسٹم کے رنگ ہیں کہ حکمران اپنی نااہلی چھپانے کے لیے عوام کو دو ٹوک الفاظ میں کہتے ہیں کہ ہم بجلی نہیں دے سکتے عوام بارش کے لیے دعا کریں ، بجلی کے بل تب زیادہ آتے ہیں کہ عوام یو پی ایس بند نہیں کرتے ہیں ، الیکٹرونکس گھٹیا استعمال کی جاتی ہیں ۔سسٹم کے بہترین ہونے کی گواہی یہ یوتھ فیسٹیولز دیتے ہیں جن پر کروڑوں لگا دئیے جاتے ہیں مگر بھوک و پیاس سے مرتے بچوں کو ایک روٹی اور ایک گلاس پانی فراہم نہیں کیے جاتے ہے جب کہ لاکھوں لیٹر پانی سرکاری گوداموں میں پڑا پڑا خراب ہوجاتا ہیں مگر عوام تک نہیں پہنچتا ہے ۔

اس سسٹم کو فرسودہ کرنے میں جہاں حکمرانوں یا اشرافیہ کا ہاتھ ہے تو میرا نہیں خیال کہ عوام اس سسٹم کو فرسودہ کرنے میں ان حکمرانوں اور اشرافیہ کے ممدومعاون نہیں ہیں ۔ حکمران یا اشرافیہ کی تعداد چند سو میں ہے یا چلیں ہزاروں میں ہے مگر عوام کی تعداد تو کروڑوں میں ہے پھر کیوں حکمرانوں پر انگلی اٹھائی جائے اور سسٹم کے فرسودہ ہونے کا سارے کا سارا نزلہ حکمرانوں یا اشرافیہ پر ڈالا جائے ۔ ۔۔محاسبہ کیا جائے محاسبہ اوروہ بھی اپنا محاسبہ جس کے لیے نہ کسی عدالت کی ضرورت ہے ، نہ جرح کی اور نہ ہی تاریخوں کی،وکیل بھی خود ، جج بھی خود اورکٹہرے میں کھڑا مجرم بھی خود-
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86134 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.