راہ ترقی میں اہم رکاوٹ

ملک پاکستان کو درپیش چیلنجز ، مشکلات اور پریشانیوں سے کیسے نمٹا جا سکتاہے اور ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کیسے کھڑا ہو سکتا ہے ؟ اس کے لئے یقینا جہاں ہمیں سخت محنت کی ضرورت ہے وہاں اپنے اندر پائی جانے والی برائیوں مثلا ناخواندگی ، بے حسی ، جھوٹ، بد دیانتی اور کرپشن وغیرہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔ اس ضمن میں ایک اہم معاشرتی برائی کی نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں جو کہ ہماری پوری قوم کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ جب کبھی کسی طاقتور کا سامنا کرنا پڑے تو نہ صرف اس کا حق اس کو دیتے ہیں بلکہ لومڑی کی طرح یہ کہتے ہوے کہ انگور کھٹے ہیں ، اپنے حق سے بھی دستبردار ہو جاتے ہیں اور اگر بدقسمتی سے کوئی کمزور ہمارے سامنے آجائے تو اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا حق وصول کرنے کے ساتھ اس کا حق بھی بڑی دیدہ دلیری سے ظلما چھین لیتے ہیں گویا کہ ہمارے ہاں طاقت کا راج ہے اور طاقت ہی حصول حق کا واحد ذریعہ ہے نہ کہ شرافت۔ چنانچہ علاج معالجہ ، عدل و انصاف ، تعلیم و تربیت، سرکاری ملازمت اور دیگر بنیادی حقوق آپکو صرف طاقت کی بنیاد پر ملتے ہیں ۔ اگر آپ کے پاس طاقت ہے یا کسی طاقت ور کے ساتھ آپ کا تعلق ہے تو ہسپتالوں میں ڈاکٹر کی توجہ اور علاج معالجہ کی سہولت ، تھانو ں کچہریوں اور عدالتوں میں سستا اور فوری انصاف ، تعلیمی اداروں میں آپ کے بچوں پر خصوصی توجہ اور ان کی تعلیم و تربیت اور دیگر محکموں مثلا بجلی ، گیس وغیرہ کے محکموں میں آپ کو سرکاری سہولت میسر آسکتی ہے ۔ اور اگر آپ کے پاس صرف شرافت ہے، تو آپ ان سہولیات کو صرف دیکھ سکتے ہیں حاصل نہیں کر سکتے ۔بات یہاں تک محدود نہیں بلکہ ایک قصاب ، معمولی ریڑھی بان، پھل اور سبزی فروش اور دیگر اشیائے خورد و نوش بیچنے والوں کی بھی حالت یہ ہے کہ جب کسی صاحب طاقت و منصب کو دیکھتے ہیں تو اچھی عمدہ اور چنیدہ چیز دیتے ہیں اور ایک شریف آدمی کو عمو ما گھٹیا چیز پر ٹرخا دیتے ہیں ۔ہماری پارلیمنٹ اور حکومت کی حالت بھی ایسی ہی ہے کہ جب محسوس کرتے ہیں کہ اپنے حق کی آواز اٹھانے والا اور اپنے مطالبات پر احتجاج کرنے والا طاقتور ہے ، اس کو اگر کچھ کہا گیا تو ہمیں اپنی حکومت کو بوریہ بستر گول کرنا پڑسکتا ہے تو بھیگی بلی کی طرح آنکھیں موند لیتے ہیں ، چاہے احتجاج کرنے والا غلط طریقہ کار اپنائے ، چاہے ریڈ زون کراس کر جائے اور پارلیمنٹ پر حملہ کر کے ملکی سالمیت کو سرعام چیلنج کرے اور سرکاری ٹی وی اور دیگر عمارتوں و تنصیبات کو نقصان پہنچا کر کھلی دہشت گردی کا ثبوت دے ، اس سب کے باوجود ہم چھ میں سے پانچ مطالبات بھی مانتے ہیں ، ایف آئی آر بھی درج کرتے ہیں ، اگر پھر بھی نہ مانے تو اس کے آگے ہاتھ بھی جوڑتے ہیں ۔اور کہیں اگر احتجاج کرنے والے کمزور ہوں تو ہم ان کے سرکاری لائبریری پر احتجاج کے طور پر علامتی قبضے کو بھی برداشت نہیں کرتے ہیں اور پھر نہ صرف ان سے احتجاج کا حق چھین لیتے ہیں بلکہ زندگی کا حق بھی انتہائی برے طریقے سے چھین کر ان کو جائے احتجاج میں دفن کر دیتے ہیں ۔ہمارا رویہ اس معاملے میں عالمی طاقت امریکہ کہ جس کو ہم گالی دیتے نہیں تھکتے ، سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے ۔ جب وہ کسی طاقتور ملک کو دیکھتا ہے تو فورا دوستی کا ہاتھ بڑھا دیتا ہے اور جب کسی کمزور ملک کو دیکھتا ہے تو اس کا جینا دوبھر کر دیتا ہے ، ہمارا لب و لہجہ بالکل فرعونیت کی طرح ہے کہ جب شریف موسیٰ سامنے آتا ہے تو انا ربکم الاعلیٰ کے نعرے لگتے ہیں اور اگر خداوند عالم کی قہاری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ـ ـ’’ اٰمنت برب ہارون و موسیٰ ‘‘ جیسے الفاظ فورا زبان پر آجاتے ہیں ۔ ہمیں اس مذہبی ، معاشرتی اور بہر حال اپنے اندر سے نکال کر دور پھینک کر ہر شخص سے برابر کا سلوک کرنا ہو گا ۔ ہمیں اپنے اس رویہ اور لب و لہجہ کو بدلنا ہو گا جب ہی ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں ۔۔ اﷲ تعالیٰ ہماری حامی و ناصر ہو ۔ اٰمین
Abdul Ghani Muhammadi
About the Author: Abdul Ghani Muhammadi Read More Articles by Abdul Ghani Muhammadi: 30 Articles with 31341 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.