آجکل پاکستان، افغانستان اور ان
خطوں میں دلچسپی رکھنے والے دیگر ممالک کے ذمہ داران اور باشعور عوام کے
سیاسی و اقتصادی حلقوں میں ،وزیراعظم پاکستان ،میاں نواز شریف اور نو منتخب
افغان صدر،اشرف غنی کے حالیہ دوروں کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے ۔دونوں
سربراہان کے باہمی فیصلوں اور متفرق معاملات میں، اظہار یکجہتی کے نتائج پر
مختلف قیاس آرائیاں بھی اپنے عروج پر ہیں ۔بے شمار تجزیہ نگار اور اقتصادی
امور کے ماہرین، افغان صدر کے پاکستان میں موجود جاری سیاسی کشیدگی کے
حالات میں اس دورہ کے پاکستان کے لیے کس حد تک نفع بخش اور مناسب ہونے کے
بارے میں غوروفکر اور اظہار رائے کر رہے ہیں ،کیونکہ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ
چند سالوں سے پاک افغان، تعلقات مسلسل گو مگو اور کشیدگی کی حالت میں رہے
ہیں ۔لہذا اب ان دوطرفہ دوستانہ اقدام کرنے سے تعلقات میں کس حد تک بہتری
آسکتی ہے ۔یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس کے اوپر جتنی بھی مثبت اور تعمیری
نوعیت کی گفتگو اور رائے زنی کی جائے وہ بالکل بجا ہو گی ۔
اس حقیقت سے تو انحراف ممکن نہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک کی عملی، حکمت عملی
کے بغیر دونوں ممالک کا امن و استحکام پائیدار نہیں رہ سکتا ۔افغانستان
جغرافیائی اعتبار سے، اپنی اقتصادیات کی بقا کے لیے دوسری دنیا کے ساتھ
رابطہ قائم رکھنے پر مجبور ہے ۔جبکہ اس کے لیے پاکستان ایک آسان اور موضوع
ترین رابطہ ہے، جس سے وہ اس کر ارض کی تمام دنیا سے اپنا راستہ استوار رکھ
سکتا ہے ۔یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کے ساتھ دوستی بنا
کر افغانستان کو بہت زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے، مگر اگر وہ اس راستہ سے
دنیا کے دیگر ممالک سے راہ و رسم ،لین دین اور روابط استوار کرنے کا
گرانقدر فائدہ اور موقع حاصل کر لیتا ہے تو پاکستان کو چاہیئے کہ وہ کم
ازکم چار معاملات میں انتہائی محتاط اور باہوش رہے ۔
اولاً یہ کہ وہ ہماری ہی راہ گزر کو استعمال کر کے، ہمارے دشمنوں کو مختلف
طریقوں سے مضبوط نہ کرے ۔دوئم ،اس گزرگاہ کے ذریعے عالمی سطح پر قرار دی
گئی ممنوعہ اشیاء کو بر آمد نہ کرے ۔سوئم ،بیرونی ممالک سے ممنوعہ اور قابل
اعتراض ایسی اشیاء کی در آمد یا اجازت نہ دے جو کہ آنے والے وقت میں
پاکستان کی سالمیت اور بقاکے لیے خطرے کا باعث ہوں ۔چہارم ،اس گزرگاہ سے
اپنے ملک سے یا بیرونی ممالک سے قابل اعتراض اور مضموم کاروائیاں کرنے والے
افراد یا گروہوں کو پاکستان میں داخل کرنے کی کسی بھی قسم کی کوشش نہ کرے ۔
پاکستان کے سیاسی ماضی کو اگر مدنظر رکھا جائے تو یہ بات نظر آتی ہے کہ
پاکستان نے آج تک افغانستان کی سالمیت ،بقا اور امن عامہ یا ملکی وحکومتی
استحکاموں کے معاملات میں ،کبھی کسی غیر ذمہ داری کامظاہرہ نہیں کیا ۔حتی
کہ کسی غیر ملکی صف اول کی عالمی طاقت کے کہنے پر بھی ،پاکستان نے اپنے
ہمسایہ ممالک کے مفادات کا ہمیشہ خیال رکھا ہے ۔جبکہ افغانستان بر سر
اقتدار رہنے والی ماضی کی بعض حکومتوں نے ان باتوں کی اکثر طور پر پاسداری
نہیں کی، بلکہ سرحدی کشیدگی اور مختلف نوعیت کی خلاف ورزیاں آئے دن کی جاتی
رہی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ باہمی تعلقات کو بہتر اور مثالی بنانے کے
لیے منفی سوچوں اور غلط فہمیوں کو ختم کرنا پڑتا ہے ۔لیکن جو حکمران اور
قومیں ماضی کے تجربات سے سبق نہیں سیکھتیں ،ان کے ساتھ بار بار زیادتیاں
بھی ہوتی ہیں اور ملکوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان میں اس وقت شدید خطرناک دہشت گردی موجود
ہے ،اس کے تانے بانے بھی افغان بارڈر کے آرپار ہیں ،اس دہشت گردی کو ختم
کرنے کے لیے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ مخلص اور ہمدرد
ثابت ہونا ہو گا ۔اگر متذکرہ بالا تمام امور کو مد نظر رکھ کر فیصلے کیے
جارہے ہیں تو بلا شبہ موجودہ حکومت کا اپنے مسلم ہمسایہ ملک ،افغانستان کے
ساتھ دوستی کا یہ ماحول پیدا کرنا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرنا
قابل تحسین ہے ۔یہ دورہ اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ خاص طور پر
سابق صدر ،حامد کرزئی کے دور میں دو طرفہ عدم اعتماد اور باہمی دشمنی کی جو
فضا قائم ہو چکی ہے اس کا قلع قمع ضروری ہے ۔واضح رہے کہ ماضی میں دریائے
کابل کے پانی کا تنازعہ دونوں ممالک کے مابین متنازعہ رہا جبکہ اب یہ باہمی
اتفاق رائے ے طے کر لیا گیا ہے ۔رہی بات دفاعی تحفظات کی تو پاکستان کی
موجودہ فوجی قیادت دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پر عزم اور شب و روز سرگرم
عمل ہے ۔اسی مقصد کے حصول کے لیے ہی پاکستان کے وزیر خارجہ ،سرتاج عزیز اور
آرمی چیف ،جنرل راحیل شریف نے پہلے کابل کا دورہ کیاتھا اور اسی دورے کا
خیر مقدم کرتے ہوئے ،افغان صدر‘ اشرف غنی نے پاکستان کا دورہ کیا ہے ۔اور
اس میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے پاکستان،چین اور افغانستان ،
سہہ ملکی دوستانہ روابط کی بات کی ہے ،جس سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان کی
قیادت کو احساس ہو چکا ہے کہ ان کے ملک کو بیرونی طاقتیں استحکام نہیں دے
سکتیں بلکہ ہمسایہ ممالک ان کے استحکام اور امن عامہ میں نمایاں کردار ادا
کر سکتے ہیں ۔اورگزشتہ کئی سالوں سے،بیرونی مداخلت اور کشت و خون سے جو
تباہی و بربادی افغانستان میں ہوئی ہے وہ اس سے نہ صرف چھٹکارا پا سکتے ہیں
بلکہ بیرونی سرمایہ کاروں کے ترقیاتی منصوبوں سے افغانستان کی از سر تعمیر
نو بھی کر سکتے ہیں ،جو کہ نہ صرف ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا بلکہ
افغان قوم کے لیے بھی، بیرونی دنیا سے رابطوں اور تجارت کے نئے در وا ہونگے
۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ دو طرفہ خطوں میں نہ صرف امن عامہ بلکہ مثبت
تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔اور مسلم ممالک کا ایک ہی صف میں کھڑا ہونا
بلا شبہ وقت کی ضرورت ہے اور یہ موجودہ عالمی طاقتوں کے مضموم عزائم پر ایک
کاری ضرب ہوگی ۔جہاں تک بات پاکستان کی ہے، وہ ہمیشہ سے ہی امن کی آشا کا
پیامبر رہا ہے اور آج بھی اسی مقصد کے لیے کوشاں ہے ۔مگر ۔۔۔یہ بات طے ہے
کہ پاک افغان دوستانہ تعلقات میں اگر ممکنہ خدشات اور خطرات پر گہری نگاہ
نہ رکھی گئی تو پاکستان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ۔اس لیے پاکستان کے
ذمہ داران کو چاہیئے کہ وقتی مفادات پر کم اور مستقبل کے دور رس نتائج پر
گہری نگاہ رکھیں ۔ |