جی آیاں نوں Welcome

محترم جناب ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب آج صبح وطن وآپس تشریف لے آئے ہیں ، میں نے چند سطریں انکی آمد پر لکھیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔
آئے ہیں وطن وآپس محترم قائد انقلاب
انقلاب کا وجود نہیں پر آگئے قائد انقلاب
معلوم نہیں کیسے ماضی کے دعوے بھلائیں گے
اس بار نیا چورن ہیں لیکر آئے محترم قائد انقلاب
قسمیں کھانے اٹھانے کے تو ہیں ماہر جناب
قسم کی تو ہیں چلتی پھرتی مشین محترم قائد انقلاب
عثمان مرگئے چودہ بندے جو کہ تھے غریب
انکا قصاص نہ لینے آئے ہیں محترم قائد انقلاب

میں نے یہ سطور ٹیوٹر پر ٹویٹ کردیں اور قادری صاحب کے چاہنے والوں کے دل نازک پر گراں گذریں اور تنقید کے تند وتیز تیر برسنے لگے جن کی مجھے پرواہ نہیں کیونکہ مرا عجیب ذوق ہے مجھے اپنی تعریف کسی کی زبانی سنکر اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی تنقید سنکر ہوتی ہے ۔ اسکی ایک وجہ شائد یہ بھی ہے کہ میں دوسروں پر بہت زیادہ تنقید کرتا ہوں اور اسی لئیے تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہوں - آجکا مضمون لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ شخصیات کے طلسم سے نکلیں اور اپنے اپنے لیڈران سے سوالات کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں اور ان پر کیجانے والی تنقید کو ہضم بھی کریں ۔ پوری کائنات میں قرآن کریم ہی وہ لاریب کتاب ہے جسمیں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں باقی تمام کتب انسانوں کی لکھی ہوئی ہیں اور ان پر تنقید بھی کیجاسکتی ہے ۔ اسی طرح روئے زمین پر صرف ایک ہستی ہے جو بے عیب ہے اور وہ ہیں میرے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی شافع روز جزا صلی الله علیہ وسلم ۔ باقی جتنے بھی انسان ہیں انبیاء علیھم السلام کے سوا ان پر بحث کیجاسکتی ہے اور تنقید یا سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں اسلامی قانون میں کسی کو استثناء حاصل نہیں سب برابر ہیں البتہ الله کے ہاں عزت مقام و مرتبہ اسکا ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے ان اکرامکم عندالله اتقاکم ۔

اب قادری صاحب کے عقیدت مندوں سے درخواست ہے کہ آپ سے اگر ڈاکٹر صاحب پر کیجانے والی تنقید برداشت نہیں ہوتی تو قادری صاحب کو ریورس گئیر لگائیں اور انھیں منہاج القرآن میں کسی عالیشان مسند پر بٹھائیں اور انکو چپ کا روزہ رکھوائیں پھر انکی آڑتی اتاریں انکے قدم چومیں یا عقیدت کی ساری حدیں پھلانگ جائیں ، بخدا میں تنقید کا ایک حرف بھی زبان پر نہ لاؤں گا کیونکہ یہ آپکا نجی معاملہ ہے ۔ لیکن اگر قادری صاحب حجرہ چھوڑ کر برسر میدان آئیں گے اور سیاسی جماعت کی قیادت فرماتے ہوئے تحریر و تقریر فرمائیں گئے تو پھر نکتہ نظر کا اختلاف بھی ہوگا اور تنقید بھی ہوگی جسے برداشت بھی کرنا پڑے گا ۔ یہ نکتہ سمجھنے کا ہے کہ اگر میں گوشہ نشین ہوں تو کوئی مجھ پر تنقید نہیں کرے گا لیکن اگر میں گوشہ نشینی ترک کرکے تحریر لکھوں یا تقریر کروں گا تو میری تحریر و تقریر پر تنقید کرنے کا دوسروں کو پورا حق حاصل ہے کیونکہ بعض افراد کو میری تحریر پسند آئے گی اور بعض کو ناپسند ، ایک ہی وقت میں تمام لوگوں کو میں خوش نہیں کرسکتا ۔ اگر آپکے نذدیک شیخ الاسلام صاحب پوتر اور تنقید سے مبراء ہیں تو انھیں سیاست اور انقلاب کی سنگلاخ وادیوں سے نکال کر کسی جگہ گوشہ نشین کروا دیں ، سونجیاں ہون گلیاں وچ مرزا یار پھرے ۔ لیکن اگر گوشہ نشینی نہیں اور گلیاں بھی سونجی نہیں تو مرزا یار کے علاوہ بھی لوگ پھریں گئے اور کندھے سے کندھا بھی ٹکرائے گا جسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ہی بڑاپن ہوتا ہے۔ قادری صاحب نے دھرنا ختم کیا اور کینڈا پیا گھر سدھار گئے اور جب سوال ہوا تو محترم فرمانے لگے کہ میں نے حکمت عملی بدلی ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ انکا حق تھا ، حکمت عملی بدلنا اگر انکا حق ہے تو اس پر تنقید کرنا میرا حق ہے۔ اب شیخ الاسلام صاحب بڑی بڑی قسمیں اٹھائیں گئے تو تنقید تو پھر میں کروں گا اور پوچھوں گا کہ جناب کیا ضرورت تھی بڑھکیں مارنے کی اور جھوٹی قسمیں کھانے کی ۔ مانا آپکے قادری صاحب بہت بڑے عالم ہیں اور خواب کی حالت میں بیس سال امام ابو حنیفہ سے پڑھتے رہے مگر جناب چند کتابیں ہم نے بھی حالت بیداری میں پڑھ رکھی ہیں آپکو جھوٹی قسمیں کھانے کا مسئلہ بیان کردیتا ہوں ۔ إِنَّ الَّذينَ يَشتَر‌ونَ بِعَهدِ اللَّهِ وَأَيمـٰنِهِم ثَمَنًا قَليلًا أُولـٰئِكَ لا خَلـٰقَ لَهُم فِى الءاخِرَ‌ةِ وَلا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلا يَنظُرُ‌ إِلَيهِم يَومَ القِيـٰمَةِ وَلا يُزَكّيهِم وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ ( آل عمرآن آیت ٧٧ ) ۔ بے شک وہ جو اللہ کے عہد اور اپنی جھوٹی قسموں کے بدلے تھوڑی قیمت خریدتے ہیں،ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، قیامت والے دن اللہ نہ تو ان سے کلام کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا،اور نہ ہی ان کو پاکیزہ کرے گا، اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ نبی کریمﷺ نے کباءر بیان کرتے ہوئے فرمایا: الكبائر الإشراك بالله وعقوق الوالدين وقتل النفس واليمين الغموس ( بخاری شریف ) ۔ کبیرہ گناہ یہ ہیں:اللہ کے ساتھ شرک کرنا،والدین کی نافرمانی کرنا،کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ قسم کے کفارہ میں فقط ۱۰ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہی نہیں ہے ،بلکہ اس میں تین چیزیں اور بھی شامل ہیں،آپ ان میں سے جو میسر ہو وہ ادا کر سکتے ہیں۔ارشاد باری تعالی ہے: لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم وَلـٰكِن يُؤاخِذُكُم بِما عَقَّدتُمُ الأَيمـٰنَ ۖ فَكَفّـٰرَ‌تُهُ إِطعامُ عَشَرَ‌ةِ مَسـٰكينَ مِن أَوسَطِ ما تُطعِمونَ أَهليكُم أَو كِسوَتُهُم أَو تَحر‌يرُ‌ رَ‌قَبَةٍ ۖ فَمَن لَم يَجِد فَصِيامُ ثَلـٰثَةِ أَيّامٍ ۚ ذ‌ٰلِكَ كَفّـٰرَ‌ةُ أَيمـٰنِكُم إِذا حَلَفتُم ۚ وَاحفَظوا أَيمـٰنَكُم ( المائدہ ) ۔ اللہ تمہاری بے مقصد (اور غیر سنجیدہ) قَسموں میں تمہاری گرفت نہیں فرماتا لیکن تمہاری ان (سنجیدہ) قَسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم (ارادی طور پر) مضبوط کر لو، (اگر تم ایسی قَسم کو توڑ ڈالو ) تو اس کا کفّارہ دس مسکینوں کو اوسط (درجہ کا) کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا (اسی طرح) ان (مسکینوں) کو کپڑے دینا ہے یا ایک گردن (یعنی غلام یا باندی کو) آزاد کرنا ہے، پھر جسے (یہ سب کچھ) میسر نہ ہو تو تین دن روزہ رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قَسموں کا کفّارہ ہے جب تم کھا لو (اور پھر توڑ بیٹھو)، اور اپنی قَسموں کی حفاظت کیا کرو۔

خیر قادری صاحب کو چاہئیے قسموں کا کفارہ ادا کریں اور ایک مشورہ بھی مفت لے لیں ۔
چودہ لعشوں پر نہ کھڑی کرو اقتدار کی عمارت
کل کوئی اٹھائیس لے آیا تو چھوڑو گے تم امارت
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186476 views System analyst, writer. .. View More