پاکستانی ڈرامے ہر دور میں کامیاب رہے ہیں اور ان کو
کامیاب بنانے میں اچھی کہانی کے علاوہ سب سے اہم کردار ڈرامے میں اپنی
صلاحیتوں کے جوہر دکھانے والے اداکاروں کا ہوتا ہے- جب ذکر پاکستانی ڈراموں
کا ہو تو لوگوں کے ذہنوں میں چند خاص نام ضرور جگمگا اٹھتے ہیں جو ہمیشہ ہی
سے کامیاب رہے ہیں- ایسے ہی چند لیجنڈ ادکاروں کا ذکر کرتے ہیں آج کی اس
نشست میں-
|
معین اختر
معین اختر نے اپنے فنی سفر کا آغاز 1966 میں سولہ سال کی عمر میں کیا اور
اپنی پہلی ہی پرفارمنس میں معین اختر نے پاکستانی ناظرین کے دل جیت لیے۔
انہوں نے متعدد مشہور اسٹیج اور ٹی وی ڈراموں اس انڈسٹری کو دیے جن میں
قابلِ ذکر بکر ا قسطوں پر، بڈھا گھر پر ہے، روزی، ہاف پلیٹ، عید ٹرین، بندر
روڈ سے کیماڑی، سچ مچ، فیملی 93، آنگن ٹیڑھا، اسٹوڈیو ڈھائی، اسٹوڈیو پونے
تین، لوز ٹاک وغیرہ۔ لوز ٹاک وغیرہ شامل ہیں- معین اختر نے اپنی فنی زندگی
کے دوران ہزاروں روپ دھارے، شاید ہی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا ہو جس پر
انہوں نے اپنی اداکاری کے جوہر نہ دکھائے ہوں۔ پاکستان میں کامیڈی، سنجیدہ
اداکاری، فلم، اسٹیج، ریڈیو، گلوکاری، نقالی، میزبانی، لطیفہ گوئی، ماڈلنگ،
غرض فن کے ہر شعبے میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا-معین اختر کو
پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارۂ امتیاز سمیت بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ |
|
شکیل
1938 میں بھوپال میں پیدا ہونے والے اس مقبول فنکار نے اپنے فنی سفر کا
آغاز 1966 میں ایک فلم 'ہنر' کے ذریعے کیا جبکہ ٹی وی پر ان کا سب پہلا
ڈرامہ 1971 میں پیش کیا گیا جس کا نام 'نیا راستہ' تھا اور یہ ڈرامہ حسین
معین کا لکھا تھا۔ شکیل کو شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب انہوں نے حسینہ معین
کے ایک اور ڈرامے 'شہزوری' میں مرکزی کردار ادا کیا اور کامیاب ہوگئے مگر
انہیں عروج 'انکل عرفی' سے ملا- شکیل نے اس ڈرامہ انڈسٹری کو شمع، ان کہی،
عروسہ، آنگن ٹیڑھا سمیت کئی یادگار کلاسیک ڈرامے دیے- ان شکیل کو 1992 میں
پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا گیا۔
|
|
قوی خان
قوی خان ایک ایسے فنکار ہیں جو پی ٹی وی کی ابتدا سے ہی اس کے ساتھ منسلک
ہیں اور آج بھی اپنی ادکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں-قوی اب تک متعدد فلموں
اور تھیٹر ڈراموں میں کام کر چکے ہیں-قوی کا سب سے مشہور کردار “ اندھیرا
اجالا “ میں تھا اس کے علاوہ بھی انہوں نے متعدد سپر ہٹ ڈراموں میں کام
کیا-قوی نے پی ٹی وی کے سب سے پہلے ڈرامے 'نذرانہ' میں مرکزی کردار ادا کیا
جبکہ پی ٹی وی نے جب پہلی ڈرامہ سیریل 'لاکھوں میں تین' تیار کی تو قوی خان
بھی اس کا حصہ تھے-
|
|
فردوس جمال
فردوس جمال کا شمار پاکستان کے سب سے بہترین اداکاروں میں کیا جاتا
ہے- دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ گلوکاری میں نام بنانا چاہتے تھے مگر قسمت نے
انہیں ٹی وی ڈراموں کا حصہ بنا دیا۔ فردوس جمال نے جب 'وارث' کے ذریعے
چھوٹی اسکرین پر شہرت حاصل کی اور پھر کبھی اپنے فنی سفر کو رکنے نہ دیا۔
فردوس جمال کے بہترین ڈراموں میں سائبان شیشے کا، من چلے کا سودا، دلدل،
محبوب، پاگل احمق بیوقوف، ساحل، دھوپ دیوار، رسوائیاں سمیت متعدد مشہور
ڈرامے شامل ہیں- فردوس جمال وہ سب سے کم عمر فنکار ہیں جنہیں صرف 26 سال کی
عمر میں یعنی 1986 میں پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ دیا گیا- فردوس جمال
نے صرف ٹی وی ڈراموں میں ہی نہیں بلکہ متعدد اسٹیج ڈراموں اور فلموں میں
بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے-
|
|
عابد علی
عابد علی بھی پاکستانی ٹی وی ڈراموں کا ایک جانا مانا چہرہ ہے- عابد علی
سترہ مارچ 1952 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے اور کوئٹہ میں کالج کی تعلیم کے
دوران ہی وہ ریڈیو پاکستان کا حصہ بنے- 1973 میں پی ٹی وی میں کے ساتھ
منسلک ہوئے اور ان کا پہلا ڈرامہ 'جھوک سیال' تھا- لیکن عابد علی کو شہرت
سیریل 'وارث' سے ملی جو 80 - 1979 میں کی گئی- عابد علی نے ساتھ ساتھ، غلام
گردش، مہندی، سمندر، دوسرا آسمان، دشت، ایک حقیقت سو افسانے سمیت متعدد
سپرہٹ ڈراموں میں کام کیا۔
|
|
طلعت حسین
طلعت حسین بھی ان فنکاروں میں سے ایک ہیں جو کسی تعریف کے محتاج نہیں- طلعت
حسین کا سب سے پہلا ڈرامہ 'ارجمند' 1972 میں نشر ہوا- اس کے بعد وہ برطانیہ
منتقل ہوئے اور وہاں لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ کے ساتھ منسلک
رہے۔ طلعت حسین اب تک متعدد یادگار ڈراموں میں کام کر چکے ہیں جن میں بندش،
دیس پردیس، فنونی لطیفے، ہوائیں، ایک نئے موڑ پر، پرچھائیاں، دیس پردیس،
ٹائپسٹ، انسان اور آدمی اور کشکول شامل ہیں- اس کے علاوہ انہوں نے متعدد
فلموں بھی کام کیا اور انہیں 1982 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا
گیا-
|
|
خیام سرحدی
خیام سرحدی کا شمار ملک کے منجھے ہوئے اداکاروں میں ہوتا تھا۔ خیام سرحدی
ممبئی میں پیدا ہوئے اور پھر اپنے گھر والوں کے ساتھ پاکستان آگئے۔ خیام
سرحدی نے امریکہ سے تعلیم حاصل کی اور ستر کے دہائی میں ڈرامہ ’ایک تھی
مینا‘ سے اپنی فنی کیریر کی ابتدا کی- ان کے مشہور ڈراموں میں دہلیز،
داستان، لازوال، من چلے کا سودا، غلام گردش اور سورج کے ساتھ ساتھ شامل ہیں۔
انہوں نے قائداعظم پر بننے والی دستاویزی فلم میں سردار عبدالرب نشتر کا
کردار ادا کیا۔ فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی
نوازا گیا۔ |
|
قاضی واجد
قاضی واجد پاکستانی شوبز سے گزشتہ 50 سالوں سے منسلک ہیں- چھبیس مئی 1930
کو لاہور میں پیدا ہونے والے اس باصلاحیت فنکار نے اپنے کریئر کا آغاز 1956
میں ریڈیو سے کیا اور ٹی وی کے آغاز کے ساتھ ہی اس کا حصہ بنے- قاضی واجد
کے سدا بہار ڈراموں خدا کی بستی، حوا کی بیٹی، باادب باملاحظہ ہوشیار، دھوپ
کنارے، مرزا غالب بندر روڈ پر، تنہائیاں، پل دو پل، کرن کہانی، ننگے پاﺅں،
شمع، سوتیلی، کسک، ہوائیں، مہندی، شہزوری، خالہ خیرن اور دوراہا جیسے مشہور
ڈرامے شامل ہیں- |
|
توقیر ناصر
توقیر ناصر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ یعنی ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز کی ڈگری
کے حامل اداکار ہیں- توقیر ناصر نے پناہ، ایک حقیقت سو افسانے، سمندر،
دہلیز، درد اور درمان، پرواز، ریزہ ریزہ، لنڈا بازار، راہیں، کانچ کا پل،
کشکول، تھکن، دھرتی اور دیگر سمیت کئی سپرہٹ ڈرامے دیے۔ انہیں فنک خدمات کے
اعتراف میں پرائیڈ آف پرفارمنس اور تمغۂ امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا گیا
جبکہ وہ اس وقت پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر
بھی کام کر رہے ہیں۔ |
|
وسیم عباس
وسیم عباس نو ستمبر 1960 کو لاہور میں پیدا ہوئے اور انہوں نے پی ٹی وی
لاہور سے اپنے کریئر کا آغاز کیا- ان کے مشہور ڈراموں میں آشیانہ، دن،
فیملی فرنٹ، فشار، لنڈا بازار، رات، سمندر، ریزہ ریزہ سمیت دیگر متعدد
ڈرامے شامل ہیں- وسیم عباس آج بھی اپنے فن کے جوہر دکھا رہے ہیں- |
|