(صوفیاء کرام کا طرز ِتبلیغ اورہم)
(Professor Masood Akhter Hazarvi, luton)
تبلیغ اسلام، اشاعت دین اور
اصلاح معاشرہ میں خانقاہی نظام کا ایک ناقابل فراموش کردار ہمیشہ سے رہا ہے۔
یہ کردار اس قدر روشن اور عظیم تر ہے کہ اصلاح امت اور تبلیغ و اشاعت کی
کوئی تاریخ خانقاہوں کے بوریہ نشینوں کے تذکرے کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔
خصوصی طور پر برصغیر کی سرزمین پر آج تک قال اللہ اور قال الرسول اور توحید
و رسالت کی جو صدائے دلنواز گونج رہی ہے، یہ اِسی چشمہ فیض کی مرہون منت ہے۔
ان خانقاہوں کی دعوتی اور تبلیغی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ کروڑہا انسان اپنے
دلوں میں شمع توحید و رسالت جلائے بیٹھے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جو لوگ
تصوف یا نظام خانقاہی کے سخت ترین مخالف ہیں، اِس حقیقت کا انکار کرنے کی
جرائت وہ بھی نہیں کرسکتے۔
اسلام اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے نام آخری پیغام ہے جو تا ابد قائم رہے
گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اپنے ذمے لی۔
امت اجابت کیلئے یہ لازم ہے کہ اپنے فرض منصبی کے طور پر اس دین کی نورانی
کرنوں کو پھیلاتے رہیں۔ چونکہ یہ دین تزکیہ نفس اور کتاب و حکمت کی تعلیمات
پر مبنی ہے لہذا وہی نفوس قدسیہ اس کی تبلیغ کا حق ادا کرسکیں گی جو ان
دونوں اوصاف حمیدہ سے متصف ہونگی۔ اگر تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیا جائے
تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ حقیقت میں دین کی خدمت کا حقیقی فریضہ مؤثر طریقہ
سے انہوں نے ہی سرانجام دیا جن کے قلوب واروح کثاوتوں اور آلائشوں سے پاک
تھے۔ علم ظاہری اور علم لدنی سے بہرہ ور تھے۔ ان کی زبان میں اثر، لہجے میں
شائستگی اور شخصیت میں وقار تھا۔ ان کا اٹھنا، بیٹھنا، لوگوں سے میل جول
اور کار و بار زندگی تک ذریعہ تبلیغ و اشاعت ِدین تھا۔ نبی کریمﷺ کے اوصاف
حمیدہ میں سے ایک وصف ”مبلغ اعظم“ ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ”میری طرف سے
ایک آیت بھی تم تک پہنچے تو اسکو آگے پہنچا دو“۔ جب آپ خطبہ حجۃ الوداع
ارشاد فرما رہے تھے تو آپ نے صحابہ کرام ؓسے پوچھا تھا کہ”کیا میں نے دین
کی تعلیمات آپ تک پہنچا دیں“ تو تمام صحابہؓ و اہلبیت ؓ نے یک زباں ہو کر
جواب دیا تھا کہ آپ نے یہ پیغام حق پہنچانے کا حق ادا کردیا ہے۔ پھر تین
دفعہ آپ نے آسمان کی طرف انگلی شہادت کا اشارہ کیا اور بارگاہ الہی میں
التجا کی کہ ”اے رب ذوالجلال تو بھی گواہ رہنا“۔ بعد ازاں آپ نے جملہ
حاضرین کو حکما یہ ارشاد فرمایا کہ ”فلیبلغ شاہد الغائب“ کہ جو یہاں موجود
ہیں ان تک یہ پیغام حق پہچاتے رہیں جو یہاں موجود نہیں۔ صحابہ کرامؓ وہاں
سے اٹھے، اس فرمان رسولﷺ کو پلے باندھا اور پورے کرہ ارضی پر جہاں تک ان سے
بن پڑا انہوں نے دین ِحق کے دلنشیں پیغام کو پہنچایا۔ اس وقت سے لیکر آج تک
اسلام کی ترویج و اشاعت کا یہ کام وہ بندگان خدا کر رہے ہیں جنہیں توفیق
باری تعالیٰ نصیب ہوتی ہے۔
آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ذرائع ابلاغ کے طور پر بیشمار تیز ترین
ایجادات معرض وجود میں آچکی ہیں۔پرنٹنگ اور پبلشنگ کیلئے جدید ترین مشینری
استعمال ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود تبلیغ کے حاصلہ افزاء نتائج کے ابھی تک
ہم منتظر ہیں۔ لیکن چشمِ تصور میں صدیوں قبل ان ادوار کو لائیے جب ایسی
کوئی سہولت بھی میسر نہ تھی۔ ان خرقہ پوش صوفیائے کرام کی تبلیغی مساعی نے
عقل کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والے وہ کارنامے سر انجام دیے جو آج بھی
ہماری تاریخ کا ایک حسین باب ہیں۔ وجہ کیا ہے؟
ان الوالعزم ہستیوں کے کردار و عمل کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی
زبان سے نکلنے والے الفاظ حقیقت میں دل ہی کی آواز ہوتی ہے۔ حد درجہ اخلاص
کی دولت لازوال سے وہ خود بھی مالا مال ہوتے ہیں اور ان خدمت میں آنے والا
بھی تعلیم و تربیت، توجہ اور ذکر و فکر کی برکات سے اسی رنگ میں رنگ جاتا
ہے۔ انہوں نے معاشرے میں لوگوں میں مل جل کر زندگی گزاری۔ سادگی کو رواج
دیا۔ الفاظ اور تقریروں سے زیادہ ان کا کردار لوگوں کیلئے قابل تقلیدرہاہے۔
اپنے تو اپنے رہے نوے لاکھ کافر بھی خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے ہاتھ
پر اسلام قبول کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے۔ ہر دور پرفتن میں ان
صوفیاء کا کردار ہمیں مشعل راہ کی مانند نظر آتا ہے۔ جب بغداد کی اینٹ سے
اینٹ بجا کر رکھ دی گئی۔ طرح طرح کے علی، فکری، اعتقادی اور سیاسی فتنوں نے
سراٹھایا تو مسلمانوں کو سنبھالا دینے کیلئے ہمیں سلسلہ قادریہ عظیم صوفی
بزرگ حضور غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی شخصیت ہمیں کہیں مسند تدریس
پر جلوہ فگن اور کہیں مسند فقر و درویشی پر متمکن دکھائی دیتی ہے۔ برصغیر
میں جب جلال الدین اکبر خود ساختہ ”دین ِ الہی“ کا شوشہ چھوڑتا ہے تو وہاں
بھی سلسلہء نقشبندیہ کی عظیم خانقاہ کے چشم و چراغ مجدد الف ثانی شیخ
احمدسرہندی ؒ اپنی پوری جرئت اور توانائی کے ساتھ میدان عمل میں آکر اکبر
کے مذموم عزائم کو کیفر کردار تک پہنچاتے ہیں۔ توحید خالص اور عشق رسولﷺ کو
لوگوں کے دلوں میں اس طرح سمو دیا کہ زمانے کے حوادثات بھی آج تک اسے مٹا
نہ سکے۔ اسی طرح ہندوستان میں جب فتنہ قادیانیت نے جنم لیا تو ایک وقت وہ
تھا کہ علماء کیلئے یہ ایک چیلنج بن دیا۔ لیکن اس سلسلے میں خانقادہ چشتیہ
کی ایک عظیم علمی اور روحانی شخصیت حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ نے اس
چیلنج کو قبول کیا۔ آپ کے روحانی تصرفات اور علمی وجاہت کی وجہ سے مرزے کو
راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔ لوگوں پر عقیدہ ختم نبوت روز روشن کی طرح واضح
ہوا۔”سیف چشتیائی“ لکھ کر آپ نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جو رہتی دنیا تک
تاریخ ختم نبوت کا ایک یادگار اور حسین باب رہے گا۔
مختلف سلاسل کے صوفیاء کے کارناموں سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے۔ آج بھی
مادیت پرستی کی اس فضاء میں لوگ روحانیت کے چشمہ صافی سے جام بھر بھر کے
پینے کے منتظر ہیں۔ ڈیپریشن اور ٹینشن کی وجہ سے خود کشی عام ہو رہی ہے۔
لوگ اطمینان قلب کے لیے ترس رہے ہیں۔ گمراہی آج بھی عروج پر ہے۔ آج کے دور
پر فتن میں ضرورت اس بات کی ہے خانقاہیں اپنا مؤثر کردار ادا کریں اور اپنے
بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پریشان حال انسانیت کیلئے اخلاقی اور
روحانی بالیدگی کا سامان مہیا کریں- |
|