صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ کے تعلقات

اسلامی تاریخ کا ایک اندوہناک باب ”سانحہ کربلا“ ہے۔ یہ واقعہ یقینا پوری امت مسلمہ کیلئے ایک دردناک المیہ ہے جس میں فسق و فجور میں مبتلا یزیدی قوتوں نے حضرت امام حسینؓ، آپکے خانوادہ اور احباب کو میدان کرب و بلا میں انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے اپنے انداز میں ہر مکتبہ فکر ان عظیم المرتبت شہداء کے حضور نذرانہ عقیدت و محبت پیش کرتا اور امن و امان کی کیفیت برقرار رہتی۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماہ محرم الحرام کا آغاز ہوتے ہی عجیب و غریب صورت حال جنم لیتی ہے۔مسلم ممالک میں تمام سیکیورٹی ا یجنسیاں، پولیس اور دفاعی ادارے الرٹ ہو جاتے ہیں۔ خطرہ یہ ہوتا ہے کہ کہیں مختلف مکاتب فکر کے درمیان قتل و غارت گری کا بازار گرم نہ ہو جائے۔ ایسے سینکڑوں واقعات اس سے قبل رونما ہوچکے ہیں جن میں ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ اگر جائزہ لیا جائے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے مابین صحابہ کرامؓ اور اہل بیت اطہارؓ کے باہمی تعلقات کے حوالے سے کچھ اختلافات ہیں۔ مختلف کتب تاریخ کے حوالہ جات جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ بالآخر جذباتی انتہا پسندی، تقریری و تحریری بے احتیاطیاں اور توہین آمیز لہجے فسادات اور قتل وغارت کا سبب بنتے ہے۔ جو کہ یقینا افسوسناک ہے۔

حضور پرنورﷺ نے 23 سال کی محنت شاقہ سے ایک قابل رشک معاشرہ تشکیل فرمایاجس کے خد و خال اور نوک پلک قرآن اور صاحب قرآن نے خود سنوارے۔ صحابہؓ و اہل بیتؓ اسی بابرکت اسلامی معاشرے کے خوش بخت افراد تھے۔ قرآن پاک کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر103 میں وہی اہل ایمان اِس ارشاد ربانی کے اولین مخاطبین ہیں کہ ”اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔ اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن ہوا کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں الفت و محبت پیدا کردی۔ اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے تم بھائی بھائی بن گئے“ یک طرف اللہ کا قرآن کہتا ہے کہ ان اہل ایمان (صحابہ و اہل بیت) کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے باہمی الفت و محبت تھی اور دوسری طرف کچھ تاریخی روایات عجیب و غریب قسم کے قصوں اور حکایتوں سے بھری پڑی ہیں۔ اپنوں کی بے اعتدالیوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے پیدا شدہ یہی صورتحال امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیرنے کا سبب ہیں۔ آج مسلم امہ کو ہوش کے ناخن لیکر حقیقت پسندی کی طرف آنا ہوگا۔ بحیثیت مسلمان فیصلے کا معیار قرآن ہے اور وہ واضح ارشاد فرماتا ہے کہ حضورﷺ کے تربیت یافتگان آپس میں الفت و محبت کارشتہ رکھتے تھے۔ بیشمار ایسے واقعات مختلف مکاتب فکر کی کتب میں موجود ہیں جو اس موقف کو مزید تقویت دیتے ہیں۔ ان میں سے دور نبوی اور خلافت راشدہ کے چند مستندواقعات پیش کروں گا جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یقینا ان ہستیوں کے دل ایک دوسرے کیلئے الفت و محبت کے جذبات سے لبریز تھے۔ ایک خصوصیت یہ کہ آج کے تمام حوالہ جات صرف شیعہ مکتب فکر کی مستند کتب سے ہوں گے۔ہمارا مقصد الجھاؤ پیدا کرنا نہیں بلکہ بکھری اور الجھی ہوئی طنابوں کو اکٹھا کرکے مسلم امہ کی عظمت رفتہ کو بحال کرنا او ر ا سے امت واحدہ بنانا ہے اور یہی منشا قرآنی ہے۔

1۔ (بحوالہ کشف الغمہ جلد اول صفحہ نمبر 478-483-484 اور ناسخ التواریخ جلد سوم صفحہ نمبر 37-38-46) حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ۔ عمر فاروقؓ اورسعدؓ نے یہ مشورہ کیا کہ ہم حضرت علیؓ کے پاس جاکر ان کو مشورہ دیں کہ حضورﷺ کی خدمت میں حضرت فاطمہؓ کے رشتے کیلئے عرض کریں۔ جب یہ تینوں احباب حضرت علیؓ سے ملے اور دل کی بات کہی تو حضرت علیؓ نے کہا کہ میرے مالی حالات ابھی اجازت نہیں دیتے کہ گھرآباد کر سکوں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ آپ مالی معاملات کی فکر نہ کریں اور جا کر بارگاہ نبوت میں التجا کریں۔ حضرت علیؓ اندر گئے اور ابو بکرؓ و عمرؓ ان کے انتظار میں باہر کھڑے رہے۔ جب حضرت علیؓ نے خوشخبری سنائی کہ عرض قبول ہو گئی ہے تو دونوں بہت خوش ہوئے۔ صاحب کشف الغمہ کے الفاظ ہیں کہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں ”ففرحا فرحا شدیدا و رجعا معی الی المسجد“ کہ یہ سن کر دونوں بہت خوش ہوئے اور پھر میرے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہو گئے“

2۔ غزوہ خیبر میں جب شمشیر حیدری سے عرب کا ایک بہادر شہسوار عمروبن عبدود شکست کھا انجام کو پہنچا تو اس موقع پر صحابہ کرام نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ صاحب کشف الغمہ جلد اول صفحہ نمبر 243 پرلکھتے ہیں کہ”فقام ابوبکر و عمر و قبلا راس علی“ کہ حضرت ابوبکر اور عمر کھڑے ہوئے اور حضرت علیؓ کے سر پر بوسہ دیا۔

3َ۔ خلافت راشدہ کے دور میں حضرت علیؓ مجلس شوریٰ کے اہم ترین رکن رہے۔ حضرت عمرؓ نے تو یہاں تک فرما دیا کہ کہ”اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا“ حضرت علیؓ نہ صرف (War Council)مجلس حربیہ کے مشیر تھے بلکہ مجلس قانون ساز میں بھی برابر کے شریک تھے۔ حضرت عمر ؓ آپ ؓکے فقہی اجتہادات اور شرعی آراء کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ایران کی طرف لشکر کی روانگی اور بعد ازاں خراسان کی طرف حضرت ابو موسیٰ اشعری کی قیادت میں پیش قدمی بھی حضرت علیؓ کے مشورے سے ہی ہوئی تھی۔ اسی طرح رومیوں کی جارحانہ کاروایوں کے خاتمے کیلئے عمر فاروقؓ کے دور میں جنگ کا فیصلہ بھی حضرت علیؓ کے مشورے سے ہوا۔ ”بحوالہ ناسخ التواریخ“

4۔ جب دور فاروقی میں ماہانہ وظائف کی فہرستیں تیار ہوئیں تو اہل بیت کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سر فہرست حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ کے نام لکھے۔ حسنین کریمینؓ غزوہ بدر میں شریک تو نہ تھے لیکن قربت نبوی کی وجہ سے ان کے ناموں کو حضرت عمرؓ نے بدری صحابہ کی فہرست میں رکھا اور اسی کے مطابق وظائف دیے۔

5۔ جب ایران فتح ہوا تو شاہ ایران کی بیٹی شہربانوؓ بھی قیدیوں میں تھی۔ حضرت عمرؓ نے ان کا نکاح حضرت امام حسینؓ سے کیا اور”جلاء العیون صفحہ نمبر497 مطبوعہ ایران“ پر لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے مہر بھی بیت المال سے ادا فرمایا۔انہیں کے بطن پاک سے حضرت امام زین العابدینؓ پیدا ہوئے۔ جو حسینی سادات کے جد امجد ہیں۔ یقینا یہ واقعات ان نفوس قدسیہ کی باہمی الفت و محبت کے غماز ہیں۔

6۔ تلخیص شافی صفحہ نمبر 428 مطبوعہ نجف اشرف کے مطابق حضرت امام جعفر صادق اپنے والد گرامی سے اور وہ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ کی شہادت ہوئی اور غسل کے بعد کفن پہنا دیا گیا تو حضرت علیؓ تشریف لائے اور فرمایا ”ماعلی الارض احب الی من اَن القی اللہ بصحیفۃ ھذہ المسجیٰ بین اظہرکم“کہ مجھے روئے زمین پر اس سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں کہ میں اس ہستی جیسا صحیفہ عمل لیکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوں جو تمہارے پاس موجود ہے“ خوف طوالت لاحق نہ ہوتو صدہا ایسے دل افروز واقعات ضبط تحریر میں لائے جا سکتے ہیں۔ اور اگر بتقاضائے بشریت کہیں کوئی اختلا ف بھی ہو تو منفی سوچ کیساتھ آدھا گلاس خالی ہے کی رٹ لگانے کی بجائے مثبت سوچ کے ساتھ یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ آدھا گلاس بھرا ہوا ہے۔
 
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 241349 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More