میں توبہ کرنا چاہتا ہوں، لیکن؟؟؟
(Professor Masood Akhter Hazarvi, luton)
جوانی کی بد مستیوں کا شکار ایک
نوجوان ڈاکو بن گیا۔ لوگ اس کے خوف میں مبتلا رہا کرتے۔ ایک دن ایک گھر میں
ڈاکہ زنی کی نیت سے داخل ہو گیا۔ اندر سے پر سوز آواز میں تلاوت قرآن کی
آواز آرہی تھی۔ ”الم یان للذین آمنو ان تخشع قلوبہم لذکراللہ“ کہ ”کیا ابھی
تک مومنوں کیلئے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر سے خوف زدہ ہو
جائیں“ اُس نوجوان کے کانوں نے قرآن کی یہ آیت کیا سنی کہ دل کی دنیا ہی
بدل گئی۔ آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے اور زبان لرز لرز کے کہ رہی
تھی کہ ”اے میرے ربّ یقینا وہ وقت آگیا ہے۔ اے میرے مولا بیشک وہ وقت آگیا
ہے“۔ فورا مسجد کا رخ کیا، توبہ کی، جن لوگوں کو ایذا دی تھی ان کا ازالہ
کیا اور معافی مانگی اور اپنے آپ کو مخلوق خدا کی اصلاح کیلئے وقف کر دیا۔
آج دنیا اس نوجوان کو ”حضرت فضیل بن عیاض ؒ“کے نام سے یاد کرتی ہے۔ بیشمار
لوگوں کو ان کی وجہ سے ایمان کامل اور اصلاح احوال کی توفیق نصیب ہوئی۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ سے علم دین حاصل کیا اور اپنے وقت میں تقوی اور خدا
خوفی کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے۔ آخری وقت میں خانہ کعبہ شریف کے پاس ڈیرہ
لگا لیا۔ وہیں وفات ہوئی اور جنت المعلی میں تدفین ہوئی۔ (بحوالہ تاریخ
اسلام للذہبی جلد12 صفحہ 344)
سلطنت خراسان کا نوجوان حکمران عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ شراب نوشی
اور رقص و سرور کی موج مستی میں ہر وقت مگن رہتا ہے۔ ایک دن قرآن عزیز کی
اِس آیت کی صدائے دلنواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی ”افحسبتم انما خلقنا کم
عبثا و انکم الینا لا ترجعون“ ”کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں
بیکار پیدا کیا ہے اور تم نے ہماری طرف لوٹ کر نہیں آنا“ اس آیت کو سننا ہی
تھاکہ اس نوجوان کی زندگی میں انقلاب آگیا۔ اس نے سوچا کہ میں اِن فضولیات
کیلئے تو پیدا نہیں ہوا جن میں مبتلا ہوں۔ فورا توبہ کی اور اللہ تعالی کا
اطاعت شعار بندہ بن گیا۔ اللہ تعالی نے انہیں ایسا قرب عطا فرمایا کہ ان کی
صحبت سے بیشمار لوگ گناہوں سے تائب ہوئے اور صراط مستقیم کی منزل پائی۔
تاریخ اسلام میں ان کا نام ”ابراہیم بن ادہم ؒ“ کے طور پر زندہ جاوید ہے“
(البدایہ والنہایہ 144/10)
بیشمار ایسے واقعات ہیں کہ کسی ایک آیت یا واقعہ نے انسانوں کی تقدیر بدل
کے رکھ دی۔ انہوں نے صدق دل سے رجوع الی اللہ کیا اور قرب الہی کی دولت
لازوال سے مالا مال ہوئے۔ آج انفرادی اور اجتماعی طور پر گناہوں کی جس دلدل
مین ہم پھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا راستہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے اندر
احساس پیدا کریں۔ جو ہو چکا اس پر تلافی ما فات کرتے ہوئے در توبہ کو
کھٹکھٹائیں۔ قرآن پاک پکار پکار کے ہمیں اسی رستے کی دعوت دے رہا ہے۔ سورہ
تحریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے
سامنے صدق دل سے توبہ کرو۔ امید ہے کہ وہ تمارے گناہ تم سے دور کر دے گا۔
اور تمہیں بہشت کے ان باغوں میں داخل کر دے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی
ہیں“۔ امت مسلمہ ذلت و رسوائی کے جس گڑھے میں آج گری ہوئی ہے اس کا سبب یہی
ہے کہ ہم فانی اور نفسانی لذتوں میں محو ہو چکے ہیں۔ احکامات الہیہ سے منہ
موڑ رکھا ہے۔ نہ صرف حقوق اللہ میں کو ہتاہیاں ہیں بلکہ حقوق العباد کو غصب
کرنا اپنا کارنامہ خیال کرتے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم سچے دل سے توبہ
کیلئے تیار ہو جائیں تو وہ ربِّ ذوالجلال اتنا رحیم و کریم ہے کہ سورہ
الزمر کی آیت نمبر 53میں نبی کریمﷺ کو حکما یہ ارشاد فرماتا ہے کہ ”آپﷺ
فرما دیجئے کہ اے میرے وہ بندو جو (گناہوں کی لت میں مبتلا ہو کر) اپنی
جانوں پر زیادتی کر بیٹھے ہو رحمتِ خدا وندی سے مایوس مت ہونا۔ وہ تمہارے
سارے کے سارے گناہوں کو معاف کر دیگا۔ بیشک وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو
معاف کرنیوالا اور مہربان ہے“ لیکن ہماری معروضی صورت حال بد قسمتی سے کچھ
اسی کی مصداق ہے کہ
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے، کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیال ِروز ِجزا گیا
توبہ کے رستے سے باز رکھنے کیلئے نفس امارہ کئی ایک رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔
کبھی تو مشورہ دیتا ہے کہ ابھی تو بڑی عمر پڑی ہے۔ ابھی توزندگی انجوائے
کرنے کے دن ہیں۔ مزے کرو۔بڑا وقت پڑا ہے۔ بعد میں توبہ کرلینا۔ لیکن اس
حقیقت سے کوئی ذی ہوش انکار نہیں کرسکتا کہ موت سر پر کھڑی ہے۔ ہو سکتا ہے
کہ اگلے ہی لمحے موت آجائے، توبہ کا وقت گزر جائے اورمغفرت کے دروازے بند
ہو جائیں۔ یہ بات بھی اہم اور قابل غور ہے کہ دل میں توبہ کا خیال آنا بھی
توفیق الہی کے بغیر ناممکن ہے۔ گویا دل میں توبہ کا خیال من جانب اللہ
پیامِ ہدایت ہے۔بھلائی اسی میں ہے کہ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہم آج ہی
عمل کرلیں۔ ہو سکتا ہے کہ کل یہ توفیق بھی نہ مل سکے۔ نفس امارہ توبہ سے
روکنے کیلئے دوسری رکاوٹ یہ ڈالتا ہے کہ تم نے اتنے گناہ کر لیے کہ جو معاف
ہو ہی نہیں سکتے۔ تو پھر توبہ کا فائدہ؟ یا پھر یہ کہ ہم گناہوں کو تو چھوڑ
نہیں سکتے پھر توبہ کس لیئے ؟ حدیث قدسی میں فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ”اگر
کوئی اتنے گناہ کرے کہ پوری زمین اس کے گناہوں سے بھر جائے اور میرے پاس
آجائے بشرطیکہ حالت شرک میں نہ ہو تو میں اس کو اپنی مغفرت اتنی عطا کردوں
گا جتنے کہ گناہ تھے“ پھر فرمایا کہ ”میری رحمت میرے غضب پر حاوی ہے“۔ اس
قدر کر م نوازیوں کے باوجود فرسودہ خیالی کا شکار رہو کرہم گناہوں کی دلدل
میں پھنسے رہیں تو اسے شومئی قسمت کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ بقول مولانا
رومؒ
باز آ بازآ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
ٓ ایں درگاہ درگاہ ِنوا میدی نیست
گر سو با ر توبہ شکستی باز آ
(تو جو بھی ہے اب توبہ کرکے واپس آجا۔ اگر کافر، بت پرست یا نجومی ہی کیوں
نہ ہو واپس لوٹ آؤ اور توبہ کرلو۔ یہ بارگاہ ربّ العزت ہے جو کہ نا امیدی
والی درگاہ نہیں بلکہ سو مرتبہ بھی توبہ ٹوٹ جائے، پھر بھی واپس آ جاؤ)
ہمیں چھوٹے چھوٹے بچوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جب تکلیف میں ہوں یا
ضرورت مند ہوں تو رونا شروع کردیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس سے
ہماری مشکل حل اور ضرورت پوری ہو گی۔ آج ہمارے پاس بھی یہ موقع ہے کہ تاریخ
کے اس مشکل ترین دور میں رو رو کر اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے معافی
مانگیں۔ یقینا اس کی رحمت کے دروازے کھلے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم کام
یہ کہ ماضی کی
کو تاہیوں کا ازالہ کیا جائے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ یا دیگر فرائض جو رہ گئے
ہوں ان کی ادا یئگی کا اہتمام کیا جائے۔ توبہ کے بعد ہر نوع کے گناہ سے
بچیں۔ اگر پھر بھی گناہ سرزد ہوجائے تو بار بار اخلاص نیت کے ساتھ توبہ
کریں۔ انشااللہ بگڑی بن جائے گی اور قسمت سنور جائے گی۔ |
|