ممبئی حملوں کو چھ سال پورے ہو
گئے،بھارت نے شروع ہی سے پاکستان پر الزامات لگائے اور پروپیگنڈہ کیا۔ان چھ
سالوں میں بھارت ان حملوں کا پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کا کوئی
واضح ثبوت نہیں دے سکا۔واحد زندہ بچ جانے والے ملزم کو بھارتی عدالت نے
عجلت میں فیصلہ سناتے ہوئے سزائے موت دی اور بھارتی حکومت نے اسے تختہ دار
پر لٹکا دیا۔پاکستان کی طرف سے جانے والے عدالتی کمیشن کو اجمل قصاب سے جرح
کرنے والوں سے بھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔اجمل قصاب کے کیس کے آغاز
میں بمبئی کی بار ایسوسی ایشن نے وکلاء کو کیس لڑنے سے روکا جبکہ انتہا
پسندوں نے پتھراو اور مظاہروں سے روکنے کی کوشش کی۔وکیلِ صفائی عباس کاظمی
کو تمام گواہوں پر جرح کے جرم میں فارغ کردیا گیااور اجمل قصاب کے کیس کے
یکے بعد دیگرے 3 وکیل تبدیل کئے گئے۔ممبئی حملہ کیس میں 6 مئی 2009 کو فردِ
جرم عائد کی جاتی ہے اور 362 دنوں میں سزا کا فیصلہ سنا دیا گیا۔اجمل قصاب
کے مقدمے کے 14280 صفحات کی چارج شیٹ تھی، 2202 گواہان تھے جس میں سے 657
گواہان عدالت میں پیش ہوئے اور صرف 110 دفتری ایام میں کیس مکمل کر لیا
گیا۔اجمل قصاب کا بھارت میں پھانسی کی سزا پانے والوں میں 309 (تین سو نواں
) نمبر تھا۔دسمبر 2012 تک بھارت میں 477 لوگ ایسے تھے جن کو پھانسی کی سزا
سنائی جا چکی تھی لیکن عمل درآمد باقی تھا۔سب کو چھوڑ کر بھارت نے اجمل
قصاب کو پھانسی دی گئی۔ان حملوں کے بعد حکومت پاکستان نے انڈیا کے
پروپیگنڈے اورعالمی دباؤ کے بعد امیر جماعۃ الدعوۃ پروفیسر حافظ محمد سعید
کو نظر بند کیا جبکہ جماعۃ الدعوۃ مظفرا ٓباد کے امیر ذکی الرحمان لکھوی کو
اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا ۔پروفیسر حافظ محمد سعید اور جماعۃ
الدعوۃکے مرکزی رہنما ؤں کی نظر بندی پاکستان کی اعلیٰ
عدالتوں،ہائیکورٹ،سپریم کورت نے ختم کی مگر ذکی الرحما ن لکھوی و انکے ساتھ
آج پانچ سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی جیل میں ہیں ۔انڈیا ان کے
خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت نہیں دے سکا۔صرف اور صرف الزامات بھارت کا وطیرہ
ہیں۔بھارتی وزارت داخلہ کے سابق افسر ستیش ورما نے انکشاف کیا تھا کہ دلی
میں پارلیمنٹ پر حملے اور ممبئی حملوں کے پیچھے خود بھارتی حکومت کا ہاتھ
تھا تا کہ دہشت گردی کے خلاف سخت قوانین بنائے جا سکیں۔پولیس مقابلوں کے
حوالے سے ہونے والی تحقیقات میں بھارتی وزارت داخلہ کے افسر نے اپنے بیان
میں واضح کیا کہ ملک بھر میں نیکسل باغیوں اور دوسری علیحدگی پسند تنظیموں
نے حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے اور بھارت کی تمام حکومتیں ان پر قابو
پانے کیلئے ماورائے آئین اقدامات کرتی رہی ہیں۔پارلیمنٹ پر حملے کے بعد
حکومت نے انسداد دہشت گردی قوانین بنائے جس سے مقبوضہ کشمیر میں فوج کو
آپریشن کا قانونی جواز ملا۔ممبئی حملوں کے بعد یو اے پی اے کے نام سے نیا
قانون لایا گیا اور بھارت کے مختلف علاقوں میں جاری آزادی کی تحریکوں کے
خلاف بدترین آپریشن کیے گئے۔ ان حقائق کے آنے کے بعد پاکستان کو بھارت کو
واضح کہہ دینا چاہئے تھا کہ یہ حملے تم نے خود کروائے ہم پاکستان میں
گرفتار بے گناہوں کو رہا کر رہے ہیں مگر پاکستان کی اس معاملہ پر خاموشی
افسوسناک رہی۔بھارتی وزارت داخلہ کے سابق افسر ستیش ورما کے انکشاف سے اس
بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ بھارت میں ممبئی حملوں اور پارلیمنٹ پر ہونیوالی
دہشت گردی میں خود بھارت ملوث ہے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کے
منصوبے پر بھارت کام کر رہا ہے اور ممبئی حملوں پر ہٹ دھرمی اور تعصب کا
مظاہرہ کر رہا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس کے باوجود بھارت نے
حفاظتی انتظامات کیوں نہ کئے۔ اجمل قصاب کو اپنی صفائی کا موقع تک نہ دیا
گیا۔ بھارت میں دس سال میں صرف اجمل قصاب اور افضل گورو کو پھانسی ہوئی۔
پاکستان میں قید ملزمان کو دفاع کا حق نہیں دیا جا رہا۔ اجمل قصاب کے
اقبالی بیان پر پاکستانی ملزمان کو سزا نہیں دی جاسکتی، بھارت کے بھجوائے
گئے مراسلے بوگس ہیں وہ ثبوت کا درجہ نہیں رکھتے۔ بھارت نے پاکستانی عدالتی
کمشن کو اجمل قصاب تک رسائی نہیں دی۔ پاکستانی عدالتی کمشن کو گواہان پر
جرح کی اجازت بھی نہیں ملی، اجمل قصاب کو دفاع کیلئے وکیل مقرر نہیں کرنے
دیا گیا۔ اجمل قصاب کو عجلت میں پھانسی دیکر واحد زندہ ثبوت ختم کردیا گیا،
امریکی ایجنٹ ڈیوڈ ہیڈلے حملوں میں ملوث ہونے کا اقرار کرچکا ہے۔ امریکی
عدالت ممبئی حملوں کی تحقیقات کو ناقص قرار دے چکی ہے۔ دو بھارتی ملزمان
عدم شہادت پر عدالت سے بری ہوچکے ہیں، بھارت سیاسی بنیادوں پر ممبئی حملہ
کیس کا فیصلہ چاہتا ہے۔ حملہ آوروں کے پاکستان میں ہینڈلرز سے رابطہ ثابت
نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں ممبئی حملوں کے کیس کے فیصلے میں تاخیر کی وجہ
بھارت ہے۔ بھارت ممبئی حملوں سے متعلق اہم حقائق دنیا سے پوشیدہ رکھنا
چاہتا ہے۔یہ وقوعہ بھارت میں ہوا اسلئے ضروری تھا کہ بھارت پاکستان میں کیس
کی تحقیقات کیلئے برابری کی بنیاد پر مکمل تعاون کرے اور بھارت تحقیقات کے
معاملے میں تحقیقی معاملات، مقامات اور افراد تک پاکستان کو رسائی دے مگر
بھارت نے ایسا نہ کیا بلکہ تحقیقات چھپانے کی ہرممکن کوشش کی بار بار
مطالبہ پر بھی فہیم ارشد انصاری اور اجمل قصاب تک پاکستان کو رسائی دی گئی۔
نہ ہی گواہوں سے جرح کرنے کی اجازت ملی جس کی وجہ سے کمشن کی رپورٹ
پاکستانی عدالت نے ناقابل قبول قرار دیدی۔ اجمل قصاب کو سزا میں انصاف کے
تقاضے پورے نہیں کئے گئے انہیں نہ تو آزاد وکیل کرنے کی اجازت دی گئی اور
نہ ہی سرکاری وکیل سے تنہائی میں ملنے کی اجازت دی گئی۔اجمل قصاب سے پولیس
نے جبری بیان لیا جس سے وہ عدالت میں منحرف ہو گیا۔پاکستان میں جن سات
لوگوں پر الزام ہے ان میں ذکی الرحمن لکھوی، حماد دین صادق، شاہد جمیل،
ریاض، محمد یونس، عبدالواجد اور یونس انجم شامل ہیں۔ ممبئی حملوں کے دوران
انسداد دہشت گردی یونٹ کے چیف اور کچھ دیگر اعلیٰ پولیس افسران کے ہلاک
ہونے پر اب تک بھارت میں سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں۔ 2007ء میں ممبئی
دھماکوں کے بعد بھارتی افواج اور حکام نے پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیکس
بروئے کار لانے کی دھمکیاں دیں۔ بھارتی حکام یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ بھی
پاکستان کے خلاف پیشگی حملے کی ڈاکٹرائن پر عمل درآمد کرنے کا استحقاق
محفوظ رکھتے ہیں۔ بھارت خود پاکستان پر الزامات لگا کر اور اسے عالمی دنیا
میں دہشت گردثابت کرنا چاہتا تھا ۔حالانکہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو
کچھ ہوتا ہے اسے پاکستان کو دنیا کے سامنے لانا چاہئے۔بھارت میں نسل
پرستانہ اور فرقہ وارانہ فسادات کے ان گنت ہولناک واقعات کو بھارتی حکومت
اور میڈیا پروپیگنڈا کے قالین کے نیچے چھپانے میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے
ہیں۔بھارتی حکمرانوں اور سیاستدانوں کا کمال یہی ہے کہ وہ سیکولر ازم کے
پردے میں ہندتوا(رام راج) کے فلسفے کو پروان چڑھا رہے ہیں، بھارت میں انتہا
پسند ہندو دہشت گردانہ واقعات کا تھیٹر سجا کر الزام پاکستان پر عائد کر
دیتے ہیں۔1947 ء سے آج تک کسی بھی بھارتی حکومت کو راشٹریہ سیوک سنگھ
پریوار سے تعلق رکھنے والی کسی جماعت کے خلاف کسی بھی سطح پر کارروائی کی
جرات نہیں ہوئی جو مسلمانوں پر مظالم کی ذمہ دار ہیں ۔پاکستان کو اب بھارت
کے دباؤ و پروپیگنڈے میں آنے کی بجائے ممبئی حملہ میں گرفتار بے گناہ
ملزمان کو رہا کرنا چاہئے اور ملک کے دفاع کے لئے جراتمندانہ فیصلے کرنے
چاہئے- |