فلسفہِ لسانیت و قوم پرستی

دو قومی نظریہ اسلام کا ایک اساسی اصول ہے ، ایسے ہم کسی ذات ، نسل کے حوالے سے تصور نہیں کرسکتے ، لسانیت یا صوبائیت کے تصورکی وجہ سے مسلمانان ِ ہند کیلئے دو قومی نظریہ کے تحت حاصل کردہ مملکت پاکستان کیلئے جہاں قائد اعظم دس تک جد وجہد کرتے رہے تو علامہ اقبال نے دوقومی نظریہ کے مقاصد کیلئے جداگانہ مملکت کا تصور دیا ، تشکیل پاکستان کے بعد ، یہاں کے ذمہ دار ابنائے ملت نے اس سے مجرمانہ ٹغافل برتا ، اور بتدریج اعلانیہ کہا جانے لگا کہ دو قومی نظریہ خود قائد اعظم کے تصور پاکستان کے خلاف ہے۔روزنامہ آزاد لاہور اشاعت ۲۵ اکتوبر ۱۹۷۱ ء کے ادارئیے میں لکھا تھا کہ "پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر قوموں کی تخصیص بانی پاکستان کے اصولوں سے بغاوت ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ جو لوگ اٹھتے بیٹھتے قائد اعظم کے فرمودات کا درد کرتے رہتے ہیں وہ کس بنا پر پاکستان میں جداگانہ طرز انتخاب کا نعرہ لگا کر پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے کی جرات کرسکتے ہیں۔"علامہ اقبال’ قومیت ‘کے اس تصور کے خلاف ہیں جس کی بنیاد رنگ ، نسل ، زبان یا وطن پر ہو ، کیونکہ یہ حد بندیاں ایک وسیع انسانی برداری قائم کرنے میں رکاؤٹ بنتی ہیں ، ان کی’ قومیت‘ کے اجزائے ترکیبی وحدت مذہب ، وحدت تمدن و تاریخ ماضی اور پر امید مستقبل ہیں ، جہاں تک بات مذہب کی جائے تو اسلام اس ملت کی اساس ہے اور اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی اصول توحید خدا ملی وحدت کا ضامن ہے اس کا دوسرا رکن رسالت ہے اور یہی دونوں اساس ملت ہیں، نہ کہ وطن جو جنگ اور ملک گیری کی ہوس پیدا کرتا ہے۔علامہ اقبال نے ہمیشہ اپنی تحریروں میں ملت بمعنی قوم استعمال کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ "ان گزارشات سے میرا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک میں دیکھ سکا ہوں ، قرآن کریم میں مسلمانوں کیلئے" امت "کے سوا کوئی لفظ نہیں آیا ہے ،" قوم"رجال کی جماعت کا نام ہے ۔ یہ جماعت بااعتبار قبیلہ ، نسل ، رنگ ، زبان ، وطن اور اخلاق ہزار جگہ اور ہزار رنگ میں پیدا ہوسکتی ہے ۔ لیکن ـ"ملت"سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی ۔ گویا "ملت"یا "امت"جاذب ہے اقوام کی ، خود ان میں جذب نہیں ہوتی"۔

روزنامہ مساوات اپنی ۲۸ اکتوبر ۱۹۷۱ ء کی اشاعت کے مقالہٗ افتتاحہ میں لکھتا ہے کہ"پاکستان کے تمام باشندے ایک ہی پاکستانی قوم کے فرزند ہیں اور اس لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔"جس کا جواب معاصر ِ نوائے وقت نے اس طرح دیاتھا کہ"پاکستان میں صرف ایک قوم ہے اور وہ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہے ، باقی تمام غیر مسلم پاکستان کے شہری ہیں۔"حالاں کہ روزنامہ مساوات اس سے قبل لکھ چکا تھا کہ "پاکستان اس دو قومی نظرئیے کی پیداوار ہے جسے بر صغیر پاک و ہند میں سراج الدولہ سے لیکر قائداعظم تک ہمارے اکابر نے اپنے خون اور پسینے سے سینچا، دو قومی نظریہ ہی تھا جس نے ایک ملک کو دو مختار مملکتوں میں بانٹ کر دنیا کا جغرافیہ بدل دیا اور ہندوستان میں بسنے والی ایک اقلیت کو دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کا وارث بنا دیا۔" پاکستان کسی بھی نسل، ذات، لسانی یا صوبائی اکائی کی متروکہ میراث نہیں ہے بلکہ پاکستان بجا طور پر قائد اعظم کی میراث ہے ، لیکن قائد اعظم کی اصل میراث دو قومی نظریہ ہے جس نے پاکستان کو جنم دیا اور جو خود انہیں ٹیپو سلطان ، سید احمد شہید، سید احمد خاں فاتح دیر عمرا خان جندول،فاتح میوندمحمد ایوب ،محمد علی جوہر ، ، حاجی صاحب تر نگزئی ، خوشخال خان خٹک اوراقبال سے ورثے سے ملا تھا اگر اس دو قومی نظرئیے کو لسانیت ، نسلی عصبیت ، صوبائیت یا فرقہ وارنہ تناظر میں لیا جائے تو دو قومی نظریہ پر زد پڑتی ہے اورپاکستان کے تما وجود کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے اور ہماری جداگانہ قومیت کے نیچے سے زمین سرک جاتی ہے۔

طاہر فاروقی"سیرت اقبال"میں لکھتے ہیں کہ"وطنیت کا وہ نظریہ جس کی تبلیغ سیاست مغرب کی طرف سے آئی ہے ، آپ اس کے شدید مخالف ہیں اور اقوام و عمل کے حق میں اس کو سم قاتل خیال کرتے ہیں لیکن وطنیت کا یہ مفہوم کہ ہندی ، عراقی ، خراسانی ، افغانی ، روسی ،مصری وغیرہ ہونے کے اعتبار سے ہر فرد کو اپنے وطن ولادت سے تعلق اور نسبت ہے اور اسی لئے اس کو اپنے وطن کی خدمت کرنی چاہیے اور قربانیوں سے دریغ نہ کرنا چاہیے ، اس کے آپ قائل اور معترف ہیں۔
یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی ، وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل ، اچھل کر بیکراں ہوجا

علامہ اقبال نے مارچ 1938ء میں ایک مضمون لکھا جس میں وطینت کے مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ بحث کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ وہ کس قسم کی وطینت کے مخالف ہیں اقبال لکھتے ہیں ۔ "میں نظریہ وطینت کی تردید اس زمانہ سے کر رہا ہوں جبکہ دنیا ئے اسلام اور ہندوستان میں اس نظریہ کا کچھ ایسا چرچا بھی نہ تھا مجھ کو یورپین مصنفوں کی تحریروں سے ابتدا ہی سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی تھی کہ یورپ کی دلی اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کیلئے اس سے بہتر کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میں نیرنگی نظریہ وطنیت کی اشاعت کیجائے ، چنانچہ ان لوگوں کی یہ تدبیر جنگ عظیم میں کامیاب ہوگئی۔اقبال مزید لکھتے ہیں کہ" بعض مسلمان علما اس فریب میں مبتلا ہیں کہ "دین"اور" وطن"ـ بحیثیت ایک سے اسی تصور کے یکجا رہ سکتے ہیں تو میں مسلمانوں کو ہر وقت انتباہ کرتا ہوں کہ اس راہ سے آخری مرحلہ اول تو لادینی ہوگی اور اگرلادینی نہیں تو اسلام کو محض ایک اخلاقی نظریہ سمجھ کر اس کے اجتماعی نظام سے لاپرواہی۔ "

انسانی فکریت اور بت پرستی کی ایسی خوگر رہی ہے کہ جب ایک بت ٹوٹ جاتا ہے تو دوسرا نیا بت تراش لیتی ہے ، نت نئے بت تراشنے کا سلسلہ قدیم زمانہ کی طرح آج بھی جاری ہے ۔ ان بتوں کی شکلیں تھوڑی بہت بدل گئی ہوں تو بدل گئی ہوں ، ورنہ ان میں کوئی فرق نہیں ہے ، آج انسانی گروہوں نے وطینت کا نیا بت تراشا ہے ، جس کے آگے وہ سر بسجود ہیں ۔ اس بت پر بلا تکلف و تامل انسانیت کو بھینٹ چڑھایا جارہا ہے ، چنانچہ اقبال کا دعوی ہے کہ جس طرح دوسرے بت توڑے گئے ضرور ہے کہ اب اس بت کو بھی توڑا جائے تاکہ انسانیت کی گلو خلاصی ہو۔

اقبال کا خیال ہے کہ جدید دور میں سامراجی ملوکیت وطینت کے سیاسی تصور کا ہی کرشمہ ہے اس لئے وہ اس تصور کے اس پہلو کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اسی سلسلہ میں ڈاکٹر یوس حسین اپنی کتاب"روح اقبال"میں لکھتے ہیں۔"اقبال ملوکیت یا امپریلزم کو’ جارحانہ وطینت‘ ہی کا ایک شاخسانہ تصور کرتا ہے اور اس کو اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی رد خیال کرتا ہے ، قومیت کے علمبرداروں کا نظریہ’میرا وطن غلط ہو تو بھی صحیح ہے‘ہے۔ـ"

پاکستان میں شناخت کیلئے صرف ایک ہی اصول اپنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت پاکستان کا حصول ممکن بنایا گیا،اگر دو قومی نظریہ کا وجود نہیں تھا تو پاکستان کے قیام کیلئے اتنی جد وجہد کی کیا ضرورت تھی ، ہندوستان میں بھی نماز روزے، زکوۃ اور حج کئے جاتے رہے ہیں اور اب بھی پاکستان سے زیادہ مسلمان وہاں رہتے ہیں،جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وطن کی بنیاد پر قوم کا تصور بنتا ہے تو پاکستان کے قیام کے نظرئیے کو سامنے رکھتے ہوئے کہناپڑے گا کہ وہ دو قومی نظریہ کے موید نہیں، دو قومی نظریہ کے معنی یہ ہیں کہ پاکستانی قوم صرف یہاں کے مسلمان باشندوں پر مشتمل ہے غیر مسلم اس قوم کا حصہ نہیں اس لئے نہ وہ یہاں کسمبلیوں کے ممبر بن سکتے ہیں ، نہ امور مملکت میں شریک کئے جا سکتے ہیں۔ دو قومی نظرئیے پر اعتراض کیا جاتا ہے لیکن یہ ضروری سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام نے جتنے حقوق با حیثیت انسان سب کو دئیے ہیں اسی طرح غیر مسلموں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو اسلام انھیں دیتا ہے ، لیکن پاکستان میں دو قومی نظریہ کی جو درگت بنائی جا رہی ہے وہ ایک المیہ ہے۔مسلم اور غیر مسلم کا فرق مٹتا جا رہا ہے، پاکستان کا نام اسلامی بھی ہے اور جمہوریہ بھی ہے ، دو کشیتوں کی اس سواری میں پاکستان کے شہریوں کو آدھا تتر آدھا بیٹر بنا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی فرقہ ورانہ کشیدگیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور شدت پسندی کا طوفان تھمنے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ کیا کوئی اس بات کو ثابت کرسکتا ہے کہ پاکستان میں اگر سب مذہبی اکائیاں، مسلم قوم کے تصور کے مطابق تھے تو پاکستان کیوں حاصل کیا گیا ، شناخت ، حقوق اور وسائل پر اختیار آج ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ ہے ، تو کیا پاکستان کا حصول وطنیت کے اصول کے تحت تھا ؟۔ اگر ایسا تھا تو پاکستان بنانے کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی ، اور بھارت اکھنڈ بھارت کے سپنے نہیں دیکھتا ، پاکستان میں رہنے والے تما م مسلم باشندے ایک قوم اور غیر مسلم پاکستان کے شہری ہیں اور غیر مسلموں کو وہ تمام حقوق جو اسلام نے دئیے وہ حاصل ہیں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 743915 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.