بے طرز کالم نگار۔ڈاکٹر صفدر محمود
(Dr Rais Samdani, Karachi)
کالم نگاری ادب کی ایک صنف قرار
پاچکی ہے۔ لکھاریوں اور صحافیوں نے مل کر اس صنف کو باقاعدہ پروان چڑھیا۔
کسی بھی موضوع کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو قلم کی زبان دینا کالم ہی کے
زمرہ میں آتا ہے۔ ان موضوعات میں ادبی ، معاشی، معاشرتی،سماجی، سیاسی، مزاح،
تعلیمی شامل ہیں۔کالم نگاری نے جس قدر وسعت اور شہرت اختیار کی ادب کی کسی
اور صنف نے نہیں کی۔ ایک زمانہ تھا کہ ادب کی کسی ایک صنف سے وابستگی پر
ادیب اکتفا کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ناول نگار اپنے آپ کو ناول نگار
کہلانے میں فخر محسوس کیا کرتا تھا، افسانہ نگار اپنے آپ کوافسانہ نگار
کہلانے میں فخر محسوس کیا کرتا تھا، مزاح لکھنے والا مزاح نگاری کو اپنے
لیے باعث اطمینان تصور کیا کرتا تھا، شاعر تو بس شاعری میں مگن رہتا اور
شاعری ہونا اس کے لیے اعزاز ہوا کرتا تھا، یہی صورت حال دیگر اصناف سے
وابستہ لکھاریوں کی بھی تھی۔ اﷲ بھلا کرے سیاست کااور سیاست دانوں کا ،
دونوں کے بیچ ایسا دنگل شروع ہوا ہے کہ ہر بہ شعور شخص جو پڑھنا جانتا ہے
سیاست پر لکھے گئے کالم پڑھنے لگا اور وہ باشعور جو پڑھ نہیں سکتا تھا برقی
میڈیا نے اس ان پڑھ کو سیاسی ٹاک شو کے ذریعہ یہ تفریح فراہم کردی۔ دوسری
جانب لکھاریوں نے جب یہ دیکھا کہ اب کالم نگاری کی سیل جاری ہے تو سنجیدہ
لکھنے والوں،مزاح لکھنے والوں، معاشی و معاشرتی موضوعات پر لکھنے والوں،
سائنس و فنون پر لکھنے والوں ، تعلیم کے موضوعات پر لکھنے والوں ، شاعروں،
ڈاکٹروں اور صحافیوں نے اپنے اصل یا بنیادی موضوع کے ساتھ ساتھ سیاسی
موضوعات کو اپنامرکز و منبع بنایا ، سیاسی موضوعات پر کالم لکھنا ان کا
محبوب مشغلہ ٹہرا،جس کو برقی میڈیا میسر ہاتھ آگیا وہ سیاسی تجزیہ نگار بن
گیا۔ حتیٰ کہ مجھ جیسا عام موضوعات پر لکھنے والا بھی کالم نگاروں کی صف
میں گھس نے کی کوشش کرنے لگا۔
تمہید کچھ زیادہ طویل ہوگئی مجھے تو سیاسی تجزیہ نگار و کالم نگار داکٹر
صفدر محمود کی کالم نگاری کا پوسٹ مارٹم کرنا تھاجو برقی میڈیا پر سیاسی
تجزیہ نگار کی حیثیت سے اکثر و بیشتر سیاسی مسائل پر اپنی آراء سے عوام
الناس کو مستفیض کرتے ہیں اور پرنٹ میڈیا میں روزنامہ جنگ میں ’’صبح بخیر‘‘
کے عنوان سے ہر اتوار کو جلوہ افروز ہوتے ہیں اور کسی نہ کسی موضوع
پرخوبصورت انداز سے اظہار خیال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے علاوہ تمام
کالم نگاروں کو ’صاحب طرز ‘کالم نگار اور اپنے ایک کالم ’مٹی‘ میں اپنے آپ
کو ’’بے طرز‘‘ لکھاری قراردیاہے۔میرے کالم کے عنوان سے ہوسکتا ہے کہ قارئین
یہ سمجھ رہے ہوں کہ مَیں نے ڈاکٹر صفدر محمود کو بے طرز کالم نگار تصور
کرتا ہوں ۔جناب میری کیا مجال کہ میں ایک مستند، قابل، خوبصورت تحریرکے
مالک، وسیع علم ، وسیع مطالعہ اور وسیع تجربہ رکھنے والے لکھاری کو بے
طرزکالم نگار لکھوں۔
ڈاکٹر صفدر محمود پاکستان کے ان چند کالم نگاروں میں سے ہیں جو کمپنی کی
مشہوری کے لیے یا روٹی روزی کے لیے نہیں لکھتے ۔ انہیں تو اﷲ تعالیٰ نے ہر
نعمت اور دولت سے نوازا ہے سینئرسپیریئر سروس میں اعلیٰ عہدوں پر رہے،
وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ان کا قلم سچائی کی تلاش، درست
سمت رہنمائی، سچ کو سچ اور غلط کو غلط کہنے میں مصروفِ عمل ہے۔ وہ اپنے وقت
کے بہترین منتظم تھے ۔ پاکستانیت اور محب الوطینی ان کی نس نس میں رواں
دواں ہے۔ بقول خود ان کے ’میری زندگی کا معتدبہ حصہ پاکستان کی تاریخ و
سیاست پر تحقیق کرتے اور کتابیں لکھتے گزراہے اس کے باوجود میں سیاسی
تجزیوں سے ’پرہیز‘ کرتا ہوں لیکن کبھی کبھار منہ کاذائقہ بدل اور قارئین کو
تبدیلی کا احساس دلانے کے لیے سیاست کے اندھیرے میں ٹامک ٹو ئیاں مارنے سے
باز نہیں آتا‘۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق گجرات کے گاؤں ’ڈنگا ٹاؤن‘ سے ہے۔ اسی حوالے سے فخرِ
گجرات کہے جاتے ہیں۔گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں۔تاریخ اور تاریخ
پاکستان ان کا خاص موضوع ہے۔ اس موضو ع پر متعدد کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔
’آئینِ پاکستان ۱۹۷۳ء‘، ’پاکستان کیوں ٹوٹا‘۔ ’پاکستان تاریخ و سیاست‘ دردِ
آگہی‘ ان کی خاص کتابیں ہیں۔ ان کی کتابوں کا غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ
ہوچکا ہے۔ تاریخ میں نمایاں کارکردگی پر انہیں حکومتِ پاکستان نے’پرائیڈ آف
پرفارمینس‘ سے نوازا۔ تاریخ پاکستان کے ساتھ ساتھ بانیِ پاکستان قائداعظم
محمد علی جناح کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کے متعدد کالم روزنامہ جنگ میں شائع
ہوچکے ہیں۔ان میں قائد اعظم کی ارآن فہمی، مولوی قائداعظم محمد علی جناح،
اقبال سے قائداعظم محمد علی جناح تک، قائداعظم اور قائداعظم ثانی، گیارہ
ستمبر اورقائداعظم ، معاملہ ہے بابائے قوم کا دوستوں احتیاط سے کم
لو،قائداعظم ادھورے سچ،قائداعظم کے حوالے سے چند ضروری وضاحتیں،قائداعظم
کیا چاہتے تھے، قائداعظم محمد علی جناح؟،قائداعظم کے بارے میں وضاحتیں
تحقیق کی روشنی میں،قائداعظم کے بارے میں بد گمانی، افکار قائد کی ایک
جھلک،قائداعظم جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ،جناب الطاف حسین کے قائداعظم
پر ڈرون حملے،قائداعظم نظریہ پاکستان اور موجودہ سیاست،پاکستان اور
قائداعظم شو شوں کی زد میں،قائداعظم اور مولانا اشرف علی تھانوی،قائداعظم
کا پاکستان چلے چلو کے وہ منزل ابھی نہیں آئی، خد ارا قائداعظم کو معاف
کردو، پاک بھارت تعلقات اور قائداعظم ،قائداعظم کا اے ڈی سی اور زیارت کے
آخری ایام، قائداعظم پر بہتان لگانے والے،قائداعظم کیا چاہتے تھے،اقبال،
قائداعظم ، بندے ماترم اور ،مخالفین پاکستان،کیری لوگر بل اور قائداعظم پر
الزام، قائداعظم کا ماٹو اور ہم وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کے مسائل اور
تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کے کالم کی تعداد بے شمار ہے۔ ان کالموں سے
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح اور پاکستان کے
سچے عاشق اور سچے محب وطن ہیں۔
سیاسی تجزیہ نگاری اب عام سے بات ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ عوام الناس میں سیاسی
شعور و آگہی کا پایا جانا ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی ڈگری یا باقاعدہ کسی کی
شاگردگی اور تربیت کی ضرورت نہیں یہی وجہ ہے کہ اب سیاسی تجزیہ نگار کی
اکثریت وہ ہے جنہیں پرنٹ میڈیا یا برقی میڈیا میں کسی ہائی فائی شخصیت کی
آشیرباد حاصل ہوجائے وہ اگر کوئی اور کام نہیں کرسکتا تو تجزیہ نگار ہی بن
جاتا ہے۔ بے شمار نام اس حوالے سے گنوائے جاسکتے ہیں جو اعلانات کیا کرتے
تھے، خبریں پڑھا کرتے تھے، عوام الناس کی دل جوئی کے پروگراموں کی میزبانی
کیاکرتے تھے آج وہ مقبول تجزیہ نگار ہیں۔ البتہ پرنٹ میڈیا پر یہ صورت حال
نہیں یہاں صرف زبان چلانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ عقل و سمجھ ، علم و
دانش ، سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ ساتھ زبان پر بھی مضبوط گرفت کا ہونا ضروری
ہے کیونکہ یہاں پر لکھی ہوئی بات جو چھپ چکی ہو آسانی سے گرفت میں آسکتی
ہے۔ برقی میڈیا پرآپ نے اگر کوئی غیر اخلاقی جملہ کہہ بھی دیا تو سنے والوں
نے سن لیا بعد میں اسے سننا مشکل ہوتا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں ایسے تجزیہ نگار
بھی پائے جاتے ہیں جو کی اعلیٰ تعلیم کسی ایسے شعبہ کی میں ہے جس کا دور
دور تک سیاست سے تعلق نہیں ، تجربہ بھی کسی ایسے شعبہ کا ہے جس کا میڈیا سے
تعلق نہیں لیکن پرچی کی بنیاد پر تمام تر تعلیم اور تجربہ کو دور رکھ کر وہ
اسکرین پر اپنے جوہر دکھا رہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود ان سیاسی تجزیہ
نگاروں میں سے نہیں وہ تعلیم، انتظامی تجربے کے ساتھ ساتھ تاریخ و سیاست کا
وسیع مطالعہ رکھتے ہیں ۔ ان کے سیاسی تجزیے سیاست کے کھلاڑیوں کو درست سمت
دکھا رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے ازراہ انکساری اپنے آپ کو بے طرز کالم نگار
لکھ دیا بصورت دیگر وہ ہر گز گز بے طرز نہیں وہ بجا طور پر صاحب طرز سیاسی،
سماجی، تاریخی اور معاشی تجزیہ نگاروں کی صف میں اول درجہ کے شہسوار ہیں۔
مَیں اپنے آ پ کو بے طرز تجزیہ نگار کہہ سکتا ہوں۔ اس لیے کہ میں نے سیاست
میں ماسٹر ز ضرور کیا لیکن میری اعلیٰ ڈگری یعنی پی ایچ ڈی کی ڈگری سماجی
علوم میں ہیں۔ میں حکیم محمد سعید کی کتاب سے محبت اور کتب خانوں سے گہری
وابستگی کے حوالے سے پی ایچ ڈی کی سطح پر اولین تحقیق ہے۔ میں بھی ڈاکٹر
صفدر محمود کی مانند انتظامی، تدریسی، تصنیفی و تالیفی تجربہ ہی رکھتا ہوں۔
ادب سے وابستگی میرا خاندانی ورثہ ہے۔ میرے لکھنے کے موضوعات ادب میں
شخصیات ہیں۔ شخصی خاکوں اور مضامین پرمشتمل میرے مجموعے ’’یادوں کی مالا‘‘
اور ’’جھولی میں ہیرے اور موتی‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ اسی طرح لائبریری و
انفارمیشن سائنس کے موضوعات ، اسلام، سماجی علوم کے موضوعات پر لکھتا رہا
ہوں۔بات ڈاکٹر صفدر محمود سے شروع ہوئی میں بلاوجہ درمیان میں آگیا۔ ڈاکٹر
صفدر محمود کی کالم نگاری خصوصاً سیاسی کالم نگاری کو خراج تحسین
پراپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ |
|