جمہوریت کی پِچ پر
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں
ایک بار پھر جمہوریت داؤ پر لگی ہے۔ جمہوریت کی پِچ پر پاکستان کی تمام ہی
سیاسی جماعتیں اپنی اپنی بساط کے مطابق سیاسی کھیل ، کھیل رہے ہیں، 14؍اگست
کو اسی پِچ پر طاہر القادری اور عمران خان نے بھی فاسٹ بالنگ کا سلسلہ شروع
کیا۔ قادری صاحب کی اننگز کا تو فی الحال اختتام ہو چکا ہے مگر خان صاحب کی
اِن سوئنگ اور آؤٹ سوئنگ ابھی تک جاری ہے۔ خان صاحب نواز شریف صاحب کی وکٹ
لینے کے لئے اپنی بالنگ کے تمام تجربات کو کام میں لا رہے ہیں مگر ابھی تک
وہ مطلوبہ وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔اور تاحال ان کی دنا دن
بالنگ جاری ہے۔ ہر تیکنیک اور ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں ۔ ہر قسم کے
سیاسی طوفانوں کے تھپیڑے کھانے والے نواز شریف ہیں کہ ذرا بھی ٹس سے مَس
نہیں ہو رہے ہیں۔وہ ہر بال کو آسانی سے کھیل کر عمران خان کی حکمتِ عملی کو
ناکام بنا رہے ہیں۔ انہیں پاکستان کے منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑیوں کا بیک اَپ
بھی حاصل ہے۔ تقریباً تمام بڑی جماعتیں پارلیمنٹ میں پاس کردہ ایک قرار داد
کے تحت انہیں اپنی حمایت جاری رکھنے کے فیصلہ پر قائم ہیں۔ ادھر ’’ نیوٹرل
امپائر ‘‘ باریک بینی سے حالات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کوئی موقع نہیں مل
رہا ہے کہ آؤٹ کا اشارہ کیا جائے۔
فی الحال کسی حتمی فیصلہ کی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔ کب تک یہ شہ مات کا
کھیل چلتا رہے گا؟ کسی کو معلوم نہیں۔ ان حالات کا جن کو سب سے زیادہ
خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ، وہ عام لوگ ہیں، کاروبار ٹھپ پڑے ہیں، ترقیاتی
کاموں کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے، پورا سسٹم مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ پوری
قوم کی رضا مندی سے انتہا پسندی کے خلاف جنگ چھیڑی گئی ہے لیکن اب کسے فکر
ہے اور کس کے پاس وقت ہے، بس افواجِ پاکستان ہی ہے جو ’’ ضرب عضب ‘‘ کے تحت
کاروائیوں کا جائزہ لے رہی ہے۔یہ بھی کہا جا تا رہا ہے کہ چند ہزار لوگوں
نے پورے نظام کو ایک طرح سے یرغمال بنا رکھا ہے۔ مگر دوسری طرف ملک گیر
جلسوں کو دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ چند ہزار لوگ ہونگے۔
ویسے تو جلسہ اور دھرنا میں فرق ہے پھر بھی لوگ ان کے ساتھ تو ہیں اس کا
ثبوت حالیہ جلسے ہیں۔برعکس اس کے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یا کسے موردِ الزام
ٹھہرایا جائے؟ اس کا جواب اتنا آسان نہیں ہے۔ غالباً خود وزیراعظم صاحب کو
بھی اندازہ نہیں رہا ہوگا کہا اچانک ان کے سامنے اتنا بڑا طوفان کھڑا ہو
جائے گا۔ زرداری صاحب نے جس طرح اقتدار کی تاریخی منتقلی کی تھی، اس سے
نواز شریف مطمئن ہو گئے تھے کہ شاید اب پاکستان میں جمہوریت کی جڑ مضبوط
ہونے لگی ہے اور وہ بڑے اطمینان سے اپنے ایجنڈے پر کام کرنے لگے تھے۔
روایتی سیاست کے ماہر وزیراعظم شاید یہ بھول گئے تھے کہ سیاست میں کوئی
مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ اس لئے انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے
پہلے روایتی سیاست کی جانب مصروف ہو گئے۔حکمران عوام کو Deliverکریں تو
شاید پانچ سال پورے کر لیں ورنہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پانچ سال مشکل
سے ہی پورے ہونگے۔
وزیراعظم کو چاہیئے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھ کر فیصلہ کریں ، کسی
کے بہکاوے میں نہ آئیں، ان کے دوستوں کے مشورے خطرناک ہو سکتے ہیں جیسا کہ
انہوں نے چوہدری شجاعت حسین، پرویز الٰہی اور شیخ رشید کو اپنا دشمن بنایا
ہوا ہے جو ان دنوں طاہر القادری اور عمران خان کے کیمپ میں موجود ہیں۔ اُن
وجوہات کو تلاش کریں کہ آخر کیوں ان کی حکومت کے بارہ مہینوں بعد ہی لانگ
مارچ اور دھرنے شروع ہو گئے، اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں، کیونکہ
کابینہ میں بھی تجزیہ کاروں کے مطابق بیشتر وزراء خاندان سے لئے گئے ہیں
جبکہ بھتیجے اور بیٹی کے علاوہ دیگر رشتہ داروں کو بھی اہم عہدوں سے نوازا
گیا ہے۔ ان کی یہی پالیسی ان کے زوال کا سبب بن رہی ہے۔دوسری جانب پاکستانی
سیاست کے اسی میدان میں سابق صدر نے انتقامی سیاست کو خیر باد کہہ کر
مصالحت اور در گزر کی سیاست کو اپنایا۔ اور اپنے دور اقتدار میں تمام مخالف
جماعتوں کو اپنے ساتھ ملایا۔اسی سیاسی بصیرت اور دانشمندی کے ساتھ اس جماعت
نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے پانچ سال پورے کئے اور تاریخ رقم
کی۔ عمران کی سیاست دوسروں سے قدر ے مختلف ہے ۔ انہوں نے سیاست میں نئی
جہتیں اور نئے انداز متعارف کرائے ہیں۔ وہ ایک دبنگ سیاست داں کی طرح ابھرے
ہیں۔ عمران خان نوجوانوں کو سیاست میں لائے۔ عمران خان نے اپنے جلسوں میں
نئے انداز متعارف کرائے، موسیقی اور لوگوں کے جوش کو اجاگر کرنے کے لئے
جذبے اور جنوں کی سیاست کو پروان چرھایا۔ یہی پالیسی انہوں نے کرکٹ کے
میدان میں بھی آزمائی اور ان کی جارحانہ قیادت نے انہیں کامیابیوں کی
بلندیوں پر پہنچایا۔ آج وہ اکیلے تام سیاسی جماعتوں کے مد مقابل ہیں۔
لوگوں کو تو یہ بھی کہتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ سر زمین بے آئین میں رہنا
اور زندگی گزارنا جنگل کے قانون کے تحت زندگی بسر کرنے کے مترادف ہے ایک
ایسی جگہ میں جہاں استحصال، ظلم اور جبر کے خلاف کوئی روک ٹوک نہ ہو، بے
خوف نقل و حرکت کی آزادی نہ ہو، اپنے ضمیر کے مطابق بولنے یا لکھنے کا
اختیار نہ ہو۔ ایک بڑے قید خانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، آج بھی کئی لوگ
اس ملک میں ایسے ہونگے جنہوں نے اس ہولناک ماحول کا خود مشاہدہ کیا ہے جو
آزادی سے پہلے موجود تھا۔ان تکالیف کو بھگتا ہے جو جرم غلام کی سزا کے طور
پر ان کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی، جمہوریت میں حق خود اختیار ی کا حق سب
کو ملنا چاہیئے۔
ہمارا تو کہنا ہے کہ جمہوریت میں جلسے جلوس کا ہونا، احتجاج کا ہونا اور
دیگر سلسلے ہی جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں، ملک کے سیاسی و سماجی منظر نامے
میں مثبت تبدیلی کرنے کی اپنی بساط بھر کوشش سبھی کر رہے ہیں، عام سیاسی
روش سے ہٹ کر کچھ کر کزرنے کی کوشش تو ہو رہی ہے، اب حکمرانوں کو بھی صرف
وعدوں کی حکومت نہیں کرنی چاہیئے بلکہ عوام کو ظلم، مہنگائی، بے روزگاری
سمیت دیگر مسائل کا حل نکالنا چاہیئے تاکہ عوام خوشحال ہو سکیں۔میں تو بس
اس شعر پر ہی اکتفا کرنا چاہوں گا، اگر سمجھ آ جائے تو اس مضمون کی قدر و
منزلت بدل جائے۔
لکھنا میرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا
یہ سیاسی طوفان جمہوریت کے نام پر کھڑا کیا گیا ہے۔ عمران خان اور طاہر
القادری یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ جمہوریت میں احتجاج اور مظاہرے کرنے کی
پوری آزادی ہے۔ ہم اپنی بات منوانے کے لئے مظاہرے کا سہارا لے رہے ہیںَ
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمہوریت میں کسی بھی آزادی کی کوئی حد ہے
یا نہیں۔ ٹھیک ہے، آپ مظاہرے کر رہے ہیں، آپ نے اپنی بات ، اپنے اعتراضات
ارباب اقتدار تک پہنچا دیئے لیکن اب اس کے بعد کیا ہوگا؟ پاکستان کے سینئر
سیاستدان اور عمران خان کے سابق ساتھی جاوید ہاشمی نے واضح لفظوں میں یہ
اشارہ دے دیا ہے کہ ’’ ہم میں اور مارشل لاء میں زیادہ فاصلہ نہیں رہ گیا
ہے۔‘‘حالانکہ فوج کی جانب سے اس بات کی پُر زور تردید کر دی گئی ہے۔ یہ سب
کچھ جو آج تک ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے ،اس پر سوچنے اور سمجھنے کی اشد
ضرورت ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں نا کہ ’’ یہ بے خودی بے سبب نہیں ہے، کچھ تو
ہے جس کی پردہ داری ہے۔‘‘ |
|