عمران خان کا پلان ”سی“ ....مستقبل کیا ہوگا؟

پلان ”اے“ اور ”بی“ کی ناکامی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں عمران خان کے تھیلے سے ”پلان سی“ کی بلی باہر آگئی ہے اور اس کے بعد معاملہ شاید پلان ”ڈی“، ”ای“ سے ہوتا ہوا ”زیڈ“ تک جا پہنچے، ممکن ہے تب تک موجودہ حکومت اپنا دور اقتدار مکمل کر لے۔ بہر حال تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 30کو اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”وہ 4 دسمبر سے ملک کے مختلف شہروں کو بند کرنا شروع کردیں گے۔ 4 دسمبر کو لاہور، 8 دسمبر کو فیصل آباد، 12 دسمبر کو کراچی اور 16 دسمبر کو پورا پاکستان بند کردیں گے، اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو 16 دسمبر کے بعد ”پلان ڈی“ آئے گا۔“ عمران خان نے 30نومبر کے جلسے کو ”حتمی معرکے“ کا نام دیا تھا، لیکن جلسے سے اگلے روز ہی پی ٹی آئی کے اجلاس میں یہ طے پایا کہ لاہور کو 4دسمبر کی بجائے 15دسمبر اور ملک کو 16دسمبر کی بجائے 18دسمبر کو جام کیا جائے گا، تاہم فیصل آباد اور کراچی میں احتجاج بدستور 8 اور 12 دسمبر کو ہی ہوگا۔ پچھلے تین مہینوں کے دوران حکومت سے ہار منوانے کے لیے وہ مختلف کوششوں میں مصروف ہیں۔ عمران خان نے ملک کے تین بڑے شہروںا ور اس کے بعد پورے ملک کوبند کرنے کی دھمکی دی ہے ،جو حکومت کے لیے شاید زیادہ باعث آزارنہیں ہوگی، ہاں اس سے ملک کا کاروباری طبقہ ازحد پریشان ہوگا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر کاروباری اور تجارتی ادارے عمران خان کے حکم پراپنا کاروبار بند نہیں کرتے تو کیا تحریک انصاف کے لٹھ بردار یا اسلحہ بردار بزور طاقت انہیں بند کرنے پر مجبور کر سکیںگے؟ شاید اس سوال پرخان صاحب نے غور نہیں کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پلان اے اور بی کی طرح خان صاحب کا پلان سی بھی ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی سیاسی جماعتوں نے پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا ہے، لیکن کامیابی سب کو نہیں ملی۔ اب عمران خان اپنے مقصد میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا، بہر حال عمران خان کے لیے کراچی بند کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ کراچی میں بظاہر اپنی حریف جماعت ایم کیو ایم کی حلیف نہ بن جائے، اس طرح عین ممکن ہے کہ عمران خان ایم کیو ایم کے تعاون سے کراچی بھی ایک دن کے لیے بند کرنے میں کامیاب ہو جائیں، لیکن اگر ایم کیو ایم نے عمران خان کا ساتھ نہیں دیا تو کراچی بند کرنے کی عمران خان کی کال نا کام ہو جائے گی۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے بھی عمران خان کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی کراچی بند نہیں کرنے دیں گے۔ جس کے بعد عمران خان کے لیے کراچی بند کرنا انتہائی مشکل ہے۔ جہاں تک لاہور اور فیصل آباد کو بند کرنے کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی اہم ہو گی۔ اب تک تو مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف سے براہ راست ٹکراﺅ سے اجتناب کیا ہے، لیکن اب پالیسی بدلتی نظر آرہی ہے۔ اسی تناظر میں حکومت نے کہا ہے کہ محب وطن پاکستانی ہر شہر میں عمران خان کا مقابلہ کریں گے۔ عمران خان نے ملک دشمن ایجنڈا بتا دیا ہے، جس کے بعد ان کا اصل چہرہ عوام نے دیکھ لیا، کپتان نے 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکا کے زخموں کو تازہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر عمران خان پاکستان کوڈبونے کے لیے سازش کا حصہ بنے تو وہ سر پرکفن باندھ کرنکلیں گے۔

اپنے جلسوں میں عوام کی حمایت دیکھنے کے بعد عمران خان کافی پر اعتماد ہیں، لیکن کیا پی ٹی آئی اپنے سی پلان سے حکومت گرانے میں کامیاب ہو کرسکے گی؟ بظاہر ایسا ناممکن ہے ، کیونکہ جلسوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو لانا اور ان کے بل پر ایک منتخب حکومت کو گرانا، جو بھلے ہی کتنی ہی نااہل اور کمزور ہو، دو الگ الگ باتیں ہیں اور اگر عمران خان ایک دن کے لیے شہر اور ملک بند بھی کر لیں تو کس طرح مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کو خطرہ ہو جائے گا؟ یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگر 109 دن کا دھرنا حکومت کو گرانے میں نا کام رہا تو ایک ایک دن شہر بند کرنے سے حکومت کیسے چلی جائے گی؟ کیا عمران خان واقعی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے اس پلان سے میاں نواز شریف پریشان ہو جائیں گے اور فوری طور پر ان کے مطالبات ماننے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ شاید ایسا نہیں ہے، اسی لیے انہوں نے اس کو پلان سی کہا ہے اور اس کے بعد پلان ڈی کی بات کی ہے۔ عمران خان کو علم ہے کہ فی الحال دلی دور است۔ خان صاحب کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ ملک بند کرنا کتنا مشکل ہے۔ عمران خان اس سے قبل سول نا فرمانی کا اعلان کر چکے ہیں، جو نا کام ہو گیا۔ انہوں نے بجلی کے بل نہ دینے کی اپیل کی ، لیکن ان کی یہ بات بھی کسی نے نہیں مانی۔ حکومت سے عدم تعاون کی بات بھی کسی نے نہیں مانی۔ اب ملک بند کرنے کی بات کون مانے گا۔ عمران خان کو سول نا فرمانی، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی اور دھرنوں کی طرح اس پلان سی کی نا کامی کو سامنے رکھتے ہوئے اگلے اعلان کی تیاری کرنی چاہیے، کیونکہ وہ بند گلی میں پھنس چکے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ بھلے ہی انتخابی اصلاحات کے لیے پی ٹی آئی کے زیادہ تر مطالبات درست ہوسکتے ہیں، جن کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے حمایت بھی کی ہے، لیکن شورش کی سیاست پر جمے رہنے کی پالیسی کی وجہ سے انہوں نے گزشتہ سال کے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات اور انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا ایک اچھا موقع گنوا دیا ہے۔

دوسری جانب عمران خان نے ایک بار پھر حکومت سے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری ٹیم تیار بیٹھی ہے، مذاکرات وہیں سے شروع ہوں، جہاں سے ختم ہوئے تھے۔ وزیراعظم کے نام پیغام میں عمران خان کا کہنا تھا کہ جب تک تحقیقات ختم نہیں ہوں گی، ہمارا دھرنا ختم نہیں ہوگا، آپ استعفیٰ نہ دیں۔ جبکہ حکومت کا عمران خان کی طرف سے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر کاربند شخص سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ بعض سیاست دانوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے۔ حکومت کو مذاکرات کرنا پڑیں گے اور مذاکرات ہی بہتر حل ہے۔جس کے بعد حکومت نے عمران خان سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ملک کے اکثر سیاست دانوں نے عمران خان کی طرف سے پاکستان بند کرنے کی دھمکی پر کڑی تنقید کی ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی اے بی سی پلان کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ سابق صدر اور پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ عمران خان کی سیاست امپائر کی انگلی پر چلتی ہے، شک ہے ان کی کرکٹ بھی امپائر کے زور پر تھی۔ ابھی کپتان کو باﺅلنگ کرنے دیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماﺅں نے عمران خان کے پلان سی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی کال پر پاکستان بند نہیں ہوگا ، حکومت اور عمران خان ریاست کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ عمران خان شیخ رشید کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں، ان کا پلان ”اے“ اور ”بی“ ناکام ہوچکا ہے، پلان ”سی“ کے تحت 16دسمبر کو پاکستان بند ہوگا یا نہیں اس کا پتہ 4 دسمبر کو لاہور کی صورتحال دیکھ کر چل جائے گا۔ وفاقی وزرا نے کہا ہے کہ عمران خان کی پاکستان بند کرنے کی خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی، عمران خان نے 14اگست کو احتجاج کر کے قوم کو دو حصوں میں تقسیم کر نے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے عوام کو نیا وڑن اور ایجنڈا نہ مل سکا۔ ثابت ہو گیا کہ عمران خان خود بھی تبدیلی کے ایجنڈے سے مکمل طور پر نا آشنا ہیں۔ عمران خان ایک طرف ہر جماعت کا مسترد شدہ سیاستدان قبول کرتے ہیں، دوسری طرف اسمبلی میں بیٹھے سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ عمران خان کا ملک کے بڑے شہروں کو بند کرنے کا اعلان خود ان کے لیے جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں لائے گا۔ پاکستان کوبندکرنے کاعمران کااعلان افسوسناک ہے، پاکستان بندکر نے سے عوام کونقصان ہوگا۔ لہٰذا موجودہ حالات میں پاکستان کسی تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا، مذاکرات کے ذریعے ہی تمام معاملات بہتر طریقے سے حل کیے جاسکتے ہیں، لیکن ایک طرف عمران خان ملک کو بند کرنے کے اعلانات کررہے ہیں، جبکہ دوسری جانب مذاکرات کی باتیں کر رہے ہیں۔ان کو اپنی روش پر غور کرنا چاہیے، کیونکہ ایسی روش اختیار کرنا ملک کو نقصان کے سوا کچھ بھی نہیں دے سکتی۔ لہٰذا حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو اپنے معاملات مذاکرات کے ذریعے ہی حل کرنا ہوں گے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.