پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی ایک فصل ہے جو اُگی ہوئی ہے
اور کوئی نہ کوئی نئی پارٹی اُگ کر اس فصل کی اٹھان میں نیا اضافہ کر دیتی
ہے لیکن ہوتا کچھ نہیں ہے نہ عوام اور خواص کے درمیان خلیج پاٹی جاتی ہے نہ
مسائل حل کیے جاتے ہیں ، نہ ملکی ترقی کے لیے کام کیا جاتا ہے، نہ قومی
یکجہتی ضروری سمجھی جاتی ہے اورنہ مذہبی رواداری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی
ہے یعنی جن مسائل اور بنیادوں پر سیاست ہونی چاہیے وہ کہیں نظر نہیں آتے
بلکہ کوئی مذہب، کوئی مسلک، کو ئی لسانیت ، کوئی صوبائیت اور کوئی قومیت کے
نام پر اپنی اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہے۔ اکثر پارٹیاں اور سیاست دان
تو فوج مخالفت کا سہارا بھی لیتے ہیں اور اسے جمہوریت کا سب سے بڑا دشمن
قرار دے دیتے ہیں اور یوں خود کوزیرک سیاستدان ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں
یعنی ہر ایک اپنا راگ الاپتا ہے اور پاکستان او رایک عام پاکستانی اپنی
قسمت پر ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں مختلف قسم کی ان
سیاستوں میں کوئی صرف پاکستان کی بات کرتا تو شاید ہماری تقدیر بدل چکی
ہوتی ۔ میں یہ نہیں کہتی کہ دین کو سیاست میں سے نکال دیا جائے دین ہماری
زندگی کا حصہ ہے لیکن جس طرح مذہبی جماعتیں نام مذہب کا لیتی ہیں اور جنگ
اپنی اقتدار کی لڑتی ہیں وہ کسی طور پر بھی جائز نہیں یہ عوام سے اپنی ذات
اور اپنی پارٹی کے لیے ووٹ ما نگنے جاتے ہیں لیکن جذبات ان کے مذہبی ابھارے
جاتے ہیں۔ ہر ایسی جماعت نے اپنے مسلک کے مدارس کھولے ہوئے ہیں جن کے طلبا
ء جب فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ہیں تو دوسرے تمام مسالک سے بدظن ہو کر اُن
کے لیے معاندانہ رویہ اپنا چکے ہوئے ہیں ۔ یہ جماعتیں اپنے مدرسوں کے ان
طالبعلموں کو اپنے جلسوں کا حجم بڑھانے کے لیے اور اپنے ووٹوں کی گنتی میں
اضافے کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں ۔ یہی حال نیم مذہبی جماعتوں کا ہے جنہوں
نے مدارس کے ساتھ ساتھ سکول بھی کھول رکھے ہیں اور ان کے اساتذہ اور طلباء
سے بھی وہی کام لیا جاتا ہے جو مدارس کے طلبا اور اساتذہ کرتے ہیں ۔ اگر یہ
جماعتیں اِن مدارس اور سکولوں کو غیر سیاسی رکھ کر ان سے صرف دین اور علم
کی خدمت کا کام لیتے تو ملکی ترقی میں اضافے کا باعث بن کر قابل تحسین بن
جا تے اور لوگ خود بخود اِن کی طرف مائل ہوتے لیکن کسی بھی قسم کی مذہبی
خدمات کے بغیر ہی یہ رہنما خود کو بھی اور ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا
بھی ان کو مذہبی رہنما قرار دے دیتا ہے جبکہ معذرت کے ساتھ لیکن لگتا یہی
ہے کہ مذہب کو یہ لوگ صرف اور صرف سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں اپنی ذات
پر اسے لاگو نہیں کرتے۔ یہی حال لسانی جماعتوں کا ہے جنہوں نے زبان کو
سیاست کی بنیاد بنایا ہے۔ زبان یقیناًکسی فرد کی پہچان ہوتی ہے، یہ برادری
کی شناخت بھی ہو سکتی ہے لیکن اسے سیاسی طور پر قوم کی پہچان بنانے کا
رجحان کسی طور پر بھی جائز نہیں بلکہ قابل مذمت ہے کیونکہ اگر اسے ہی بنیاد
بنایا جائے تو پاکستان کے ہر صوبے میں مختلف زبانیں بولنے والے رہتے ہیں۔
ایک بلوچستان کو لیجئے جہاں بلوچی، پشتو، براہوی، دری، سرائیکی اور معلوم
نہیں کتنی اور چھوٹی چھوٹی زبانیں بولی جاتی ہیں یہی حال پنجاب کا ہے کہ
پنجابی، پوٹھوہاری، سرائیکی ہر زبان بولی جاتی ہے ۔سندھ اور خیبر پختون
خواہ کا حال بھی مختلف نہیں لیکن لسانی بنیادوں پر ہی کراچی خون خرابے میں
ڈوبارہتا ہے اور مختلف جماعتیں مختلف زبانیں بولنے والوں کی نمائندہ بنی
بیٹھی ہیں اور انہیں پلیٹ فارموں سے پاکستان کی سا لمیت کو دھمکیاں دی جاتی
ہیں ۔ ہمارے ہاں سیاست کی ایک اور قسم بھی پائی جاتی ہے جن کے رہنما خود کو
قوم پرست کہتے ہیں ۔ جبکہ یہ کسی ایک زبان ، قبیلے، گروہ یا ایک محدود
علاقے کے نمائندہ ہوتے ہیں اور شاید نمائندہ بھی نہیں بلکہ خود ہی خود کو
ایسا سمجھتے ہیں اور قومیت کے نام پر خون خرابہ پھیلاتے ہیں اوربجائے ان کی
مذمت کرنے کے اظہار آزادی کے نام پر ہمارے میڈیا اینکرز اور صحافی انہیں
قوم پرست رہنما قرار دے دیتے ہیں اور عام لوگ بھی انہیں ایسا ہی سمجھنے
لگتے ہیں جبکہ یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ اس قوم کا نام پاکستان ہے اور یہ لوگ
پاکستان کے خلاف اپنے قبیلے کی سیاست کرتے ہیں۔ جب انہیں حکومت پاکستان
کوئی عہدہ دے دے تو یہ قومی دھارے میں شامل ہو جاتے ہیں اور جب یہ عہدہ لے
لیا جائے تو پھر یہ پاکستانی قوم کو بھول کر اپنے قبیلے کو قوم قرار دے
دیتے ہیں۔
انہی سارے عوامل کی وجہ سے پاکستان میں مخلص سیاسی قیادت ابھر کر سامنے
نہیں آسکی ۔ہماری سیاست تو اسی سے محدود دائرے میں قید ہو جاتی ہے جب امید
وار کی شخصیت ، اس کی قابلیت، اسکے کردار سے بڑھ کر اس کی برادری اہم ہو
جاتی ہے، اسے صرف برادری کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں ٹکٹ دیتی ہیں کہ جس کی
جتنی بڑی برادری ہوگی اتنے زیادہ ووٹ ملیں گے اور اسمبلی میں سیٹوں کی
تعداد بڑھ جائے گی یعنی بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لانہیں کرتے۔ کیونکہ اگر
تولا گیا تو بہت سارے پلڑے ہوا میں اچھل جائیں گے لیکن سوچنے اور سمجھنے کی
بات یہ ہے کہ آخر یہ ملک کب تک اس غیر معیاری سیاست کا حامل ہو سکے گا اور
کب تک انتظار کر سکے گا کہ کوئی پاکستان کے نام پر سیاست کرے۔ پاکستان بفضل
خداایک اسلامی ملک ہے جہاں ستانوے فیصد مسلمان رہتے ہیں جن میں سے ایک
چھوٹی سی اقلیت کو نکال کر اکثریت صوم و صلوۂ کی پابند ہے ، مذہب کے بنیادی
اصولوں سے بھی واقف ہے بات تو صرف اسلام پر عمل کرنے کی ہے جو یہ مذہبی اور
مسلکی سیاسی لیڈر کروانے میں کامیاب نہیں ہو رہے کیونکہ ایسا کروانے کے لیے
خود بھی صاحب عمل ہونا ضروری ہے۔ اردو ، پنجابی، بلوچی، سندھی اورپشتو سبھی
یہی زبانیں بولتے رہیں گے چاہے ان کے لیڈر ہر وقت ان پر لسانی سیاست مسلط
کریں یا نہ کریں اور یہ بھی بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ اگر شاہ یا گیلانی
یا کسی اور برادری کا نمائندہ منتخب ہوا تو ساری برادری نہیں بلکہ صرف ممبر
صاحب کا گھرانا ہی مالا مال ہوگا۔
میری سیاسی رہنماؤں سے درخواست ہے اور دست بستہ درخواست ہے کہ برائے خدا
ایک بار پاکستا ن کے لیے بھی سیاست کیجئے پاکستان کے نام پر نہیں بلکہ
پاکستان کے لیے تاکہ کچھ حق اس ملک کا بھی ادا ہو جس نے آپ کو نام دیا ہے
اور جب آپ پاکستان کے لیے سیاست کریں گے تو اللہ آپ کو ضرور کامیابی دے گا
پھر آپ کو مذہبی رہنمائی کا لبادہ اوڑھنے کی ضرورت نہ رہے گی کیونکہ یہ ملک
اللہ کے نام پر بنا ہے۔ نہ آپ کو زبان کا سہارا لینے کی ضرورت رہے گی
کیونکہ خلوص اور محبت کی زبان ہر ایک سمجھتا ہے، نہ علاقائیت اور قومیت کی
لاٹھی ٹیکنا پڑے گی کیونکہ پاکستان کا ہر کونا اپنی زمین آپ کے لیے کشادہ
کر دے گا ،نہ فوج کی مخالفت کرنا پڑے گی نہ موافقت کیونکہ آپ اپنے محاذ پر
سرگرم ہوں گے اور فوج اپنے محاذ پر بغیر آپس کی کسی چیقلش کے۔ اور یہ ایک
حقیقت ہے کہ چاہے سارے ادارے اپنا ہر قسم کا زور لگالیں لیکن ہمارے سیاست
دان اپنے اندر سے سیاسی، ذاتی اور جذباتی کرپشن نہ ختم کر دیں تو ہم ایک
مضبوط پاکستان نہیں بنا سکتے جہاں ہم امن اور سکون سے رہ سکیں اور دنیا میں
اپنا مقام بنا سکیں۔ |