لاڈلی جمہوریت

آج میں جس موضوع پر لکھنے جارہا ہوں اس سے بہت سے جمہوریت پسندوں کے پیٹوں میں خوب مروڑ اُٹھیں گے۔کیونکہ جناب سچ تو کڑوا ہی ہوتاہے اور وہ بھی ایسا سچ جس کو آپ سب جانتے ہیں مگر زبان پر کم ہی لاتے ہیں۔ وہ عمران خا ن جو دو سا لوں سے ٹکریں مارہے ہیں ان کو انصاف ملنا تو دور کی بات کوئی صورت ہی نہیں دکھائی دیتی وہ طاہرالقادری جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف لینے ستر دن کا دھرنہ گُزار گئے پر ہنوز دہلی دور ست۔کیا جمہوریت اسی کا نام ہے ؟ جو مظلوم کو انصاف نہ دے سکے، جو غریب کوسکون نہ دے سکے ، جو بچوں کو تعلیم نہ دلا سکے ، جو انسا ن کو بنالدی ضروریات نہ دے سکے اور تو اور علاج بھی نہ دےسکے، یہ سب شکا یتیں اپنی جگہ لیکن جمہوریت چلنی چاہیے، لوگ مر جائیں پر جمہوریت بہترین طرز حکومت ہے ، عوام کا کچومر نکل جائے پر جمہوریت زندہ باد۔ کا ن پک گئے ایک ہی قسم کی گلی سڑی باتیں سن سن کر ، تھر میں بھوک اور پیاس سے بچے بلک بلک کر مر رہے ہیں اور جمہوریت کا رقص اپنے عروج پر ہے۔ کیسی فضول بات ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں کتنے ہی تضادات دیکھ اور سن رہے ہیں لیکن ایک ہی فضول رٹ لگائی ہو ئی ہے کہ جمہوریت کو بڑی مشکلوں سے پٹری پر چڑھایا ہے اور اب ہم کسی غیر آئنیی اقدام کو برداشت نہیں کریں گے۔

اگر ہم پنجا ب کو دیکھیں تو حبیب جالب صاحب کی یاد تازہ ہوجاتی ہے:
حق بات پہ کوڑے اور زنداں'باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کے سہمے بیٹھے ہیں خونخوا ر درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو اس لطف و کرم کو اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا ' صر صر کو صبا ' بندے کو خدا کیا لکھنا

یہ تو حال ہے پنجاب کا اور سندھ کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں بھٹو صاحب کے نام کو "اکسپلائیٹ " کرکے جس طرح جاہل اوران پڑھ عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے اسکی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ بھوک ، مہنگائی اور جہالت کے طلسم میں ڈوبی ہوئی عوام اپنی تمام ضروریات کو بلائے طاق رکھتے ہوئے اس جماعت کو ووٹ دیتے ہیں جو انکی بربادی اور تباہی کی اصل ذمہ دار ہیں۔ لیکن کیا کریں جی یہ تو جمہوریت کا حُسن ہے، عوام جن کو ووٹ ڈالتے ہیں پھر انکی مرضی اقتدار میں آنے کےبعد فرعون بنیں یا ہلاکو خان یا اگر چنگیز خان بھی بنیں تو کو ئی مضائقہ نہیں۔

ایک دور تھا جب چوہدری اعتزاز احسن صاحب عدلیہ بحالی تحریک میں ہمیں خوب گُنگنا کر " ریاست ہوگی ماں کے جیسی " سناتے تھے اور بحالی جمہوریت کے نتیجے میں ایک حسین ریاست کا خو اب دکھایا کرتے تھے وہ ریاست تو نہ جانے کہا ںکھوگئی مگر انکی جگہ جمورری آمروں نے لے لی۔ اگر ہم زیادہ دُور نہ جائیں تو جنرل پرویز مشرف کے دور کے اعداد وشمار اُٹھا کر دیکھ لیں،ہمیں خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ زمین آسمان کا فرق ہے۔ 2007 میں بجلی ،گیس، پٹرول اور ڈالر کے نرخ کیا تھے اور آج کئی گُنا بڑھ چکے ہیں۔ 2007-2006 میں پاکستان کے نیٹ ریزرو ز 13345.4 ملین ڈالرز تھے اور آج 2014ء میں جو ہیں ہم سب کے سامنے۔ اگراسی کا نا م جمہوریت ہے اور اب پاکستان جمہور کی مقتل گاہ بن گیا ہے تو میں اس جمہوریت سے با ز آیا مجھے تو وہی آمریت ہی اچھی لگی ۔ بقول پرویز مشرف" 58 ٹو بی کے خاتمے سے ہی تبدیلی کے سارے راستے بند ہوگئے۔" اور اگر دیکھا جائے تو بات درست ہے پر کیا جائے ان اینکرز اور صحافیوں کا جو دن رات محض جھوٹھی لوری سنا کر ہمیں تسلیا ں دیتے ہیں ،آج آپ سڑک پر یا سوشل میڈیا پر کہیں بھی سروے کر وا لیں کے کو ن سا بہتر ین دور حکومت تھا تو آپکو اکثریتی جواب یہی ملے گا کہ پر ویز مشرف کا دور ۔ پھر انکی لاڈلی جمہوریت تو انکو ہی قبول ہو پر آج سے میں بغاوت کرتا ہوں اس نظام سے اس جمہوریت سے ان سیاست دانوں سے اور ان نام نہاد اینکرز سے جو اس ملک کا بیڑا غرق کرر ہے ہیں۔ اس ملک کا نظام وہی لوگ سنبھال سکتے ہیں جو اہل ہیں ہمیں اس ادارے کو اب آواز دینا ہوگی جو ہمیشہ اس ملک کو دلدل سے نکال کر بلندیوں پر لے گئے ہیں جی ہا ںمیر ا اشارہ انہی کی طر ف ہے جنکی وجہ سے یہ لاڈلی جمہوریت اب تک چل رہی ہے۔

کیو نکہ اب اس کے سوا کوئی حل نہیں ۔ آخر میں قتیل شفا ئی صاحب کا ایک شعر آپ سب کے نام:-
دنیا میں قتیل اُس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے ، بغاوت نہیں کرتا

Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 61330 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More