عمران خان کا انداز سیاست کیا رنگ لائے گا؟

کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا انحصار سیاسی استحکام پر ہوتا ہے۔ جو ملک ہمیشہ سیاسی افراتفری کا شکار رہتا ہے وہاں اقتصادی ترقی کے امکانات بھی معدوم ہوجاتے ہیں۔جب پاکستان کے آئین میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ الیکشن ہر پانچ سال بعد ہوں گے تو پھرپاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کو اتنی جلدی کیوں ہے ؟ مزید چار سال انتظار کر لیں اور کھل کر الیکشن میں حصہ لیں اور جتنا زور وہ آج کل جلسوں پر لگا رہے ہیں اتنا زور اس وقت لگائیں جب عام انتخابات کا اعلان ہو۔ اس وقت خوامخواہ اپنی توانائیاں ضائع نہ کریں ۔بے وقت کی راگنی کا کوئی فائدہ نہیں سوائے اس کے کہ ملک میں انتشار پیدا کیا جائے اور پاکستان جو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا چاہتا ہے اسے پٹری سے اتارا جائے ۔عمران خان کو تو موجودہ حکومت سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ اگر مئی 2013کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی تو انہیں اس وقت سخت احتجاج کرنا چاہیے تھا اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے سے انکار کر دینا چاہیے تھا۔ انہیں دھاندلی کا بہانہ تقریباً ڈیڑھ سال بعد یاد آیا۔یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح عمران خان زور و شور سے ان دنوں جلسے کر رہے ہیں اگر وہ تھوڑے سے دوراندیش ہوتے تو انتخابات کے دوران اپنی پارٹی کو شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات میں بھی منظم کرتے اوراپنی انتخابی مہم میں دیہی لوگوں اور مڈل کلاس کی بجائے غریبوں کی بات بھی کرتے تو انہیں مزید چند سیٹیں مل سکتی تھیں۔ لیکن اب سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔وہ عجیب فہم و فراست کے سیاستدان ہیں جن سیاست کی کوئی سمت واضح نہیں ہے اور نہ وہ یہ وضاحت ہی کر سکے ہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ جلسوں میں وہی گھسے پٹے بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں جو خود ان کے لیے مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ ایسے الزامات ہیں جو ہر جماعت اپنی حریف پارٹی پر عائد کرتی ہے۔گزشتہ ادوار کی حکومتوں کے دوران انہیں کوئی دھرنا یاد نہیں آیا۔اس سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ وہ کسی اور کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔انہوں نے تھرڈ امپائر کی اصطلاح استعمال کی جس سے یہ تاثر ابھرا کہ فوج یا اس کے خفیہ ادارے سیاست میں مداخلت کرسکتے ہیں تاہم جس طرح فوج اور آئی ایس آئی نے دھرنوں کے دوران خود کو سیاسی معاملات سے علیحدہ رکھا جس سے اس تاثر کی نفی ہوئی۔عمران خان نے رحیم یار خان کے جلسے میں ایک مرتبہ پھر یہ مطالبہ کیا کہ گذشتہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک ایسا کمیشن تشکیل دے جس میں آئی ایس ائی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ اس طرح ان کی طرف سے پہلے آئی ایس آئی اوراس کے بعد خالص فوجی نوعیت کی ایجنسی ایم آئی کو اپنی دھرنوں کی سیاست میں گھسیٹنا سمجھ سے بالا تر ہے۔

موجودہ حکومتیں عوامی مینڈیٹ سے اقتدار میں آئی ہیں ان کو کام کرنے دیں بلکہ آپ خود بھی اپنے صوبے خیبر پختونخوا میں ایسے کارنامے انجام دیں کہ لوگ کہیں کہ واقعی عمران کے قول و فعل میں مطابقت ہے اور وہ کچھ کر دکھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ خیبرپختونخواہ کو ہر قسم کی کرپشن سے پاک کرنے اور وہاں کے لوگوں کو معاشی تفکرات سے نجات دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سبھی مانیں گے کہ وہ اپنے دعوؤں میں سچے ہیں۔جب کہ حقیت یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے کوئی ایسا معرکہ نہیں مارا جس سے ان کی خلوص نیت کا پتہ چلتا ہو۔ صوبے کے جن شعبوں میں چند اصلاحات کا اعلان کیاگیا ہے ان کے ثمرات ابھی ظاہر نہیں ہوئے۔ ابھی صوبائی حکومت کے یہ اقدامات کاغذی کارروائی تک محدود ہیں۔ عمران خان کے آئے روز کے دھرنے اور حکومت گرانے کی دھمکیاں ان کے لیے تو ایک کھیل ہے لیکن ملکی ترقی کے لیے زہر قاتل ہیں۔اس لیے انہیں جنونی کیفیت سے باہر نکلنا چاہیے اور خود کو ایک نارمل سیاست دان ثابت کرنا چاہیے ۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے جلسوں میں تقریر کرتے ہوئے تمام اخلاقی حدود کو پھلانگ جاتے ہیں۔ اپنے مخالفین کو تحقیر کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ان کے لیے عامیانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں۔اگر وہ موجودہ صورت حال میں بھی حکومت کے لیے ایسی ہی مشکلات کھڑی کرتے رہے تو کیا عمران خان ملک کو تاریکیوں میں دھکیلنے کی ذمہ داری قبول کریں گے اور اس چیز کی عوام کے سامنے وضاحت کرسکیں گے کہ پاکستان کو مسائل کے کوہ گراں تلے دبانے میں ان کا بھی ہاتھ ہے؟

بہرحال وفاقی حکومت ان تمام رکاوٹوں کے باجود ملک کو معاشی بدحالی و توانائی بحران سے نکالنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔ اس نے چین کے ساتھ حال ہی میں توانائی منصوبوں سمیت کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔افغان حکومت اور روس کے ساتھ تعلقات بھی بہتری کی جانب گامزن ہیں۔چیف آف آرمی سٹاف کا کامیاب دورہ امریکہ بھی پاکستان کے روشن مستقبل کی نویدبن کر سامنے آرہا ہے۔ آرمی دہشت گردی کو جڑ سے اکھیڑنے میں پر عزم نظر آتی ہے۔مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات بھی پہلے سے زیادہ مستحکم اور فروغ پارہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر ہونے والی بھارتی بلااشتعال فائرنگ پر بھی سخت موقف اپنایا گیا ہے اور کی شدید مذمت کے ساتھ ساتھ پاک فوج کی جانب سے اس کا موثر جواب بھی دیاجارہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے متعلق اپنا موثر کردار ادا کرے۔اگر عمران خان نے اپنے جلسوں کے ذریعے اس تمام بہتر ہوتی ہوئی صورت حال کو بگاڑنے کی کوشش تو ہمارے ازلی دشمن کو پاکستان کے اندر یک جہتی کی فضا کو پارہ پارہ کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ آجائے گا۔ اس صورتحال میں پاکستان کے عوام یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ عمران خان ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے غیر ملکی ایجنٹوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔اس لیے وہ ہوش کے ناخن لیں چار سال مزید انتظار کریں اور پھر عوامی منڈیٹ کے ذریعے اقتدار میں آکر پاکستان کو جس طرح کے سانچے میں ڈھالنا چاہیں ڈھال لیں، قوم کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔لیکن موجودہ غیر آئینی راستہ نہ ملک و قوم کے مفاد میں ہے نہ ان کے اپنے سیاسی کیرئیر کے لیے ۔ایسا نہ ہو وہ غلطی میں ایسا شاٹ کھیل جائیں کہ وہ ملکی سیاست سے ہی آؤٹ ہو جائیں اس لیے عمران خان کو ملکی سلامتی اور دشمنوں کے عزائم کے پیش نظرمنفی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا۔خاص طور پر فوج اور اس کے اداروں کے حوالے سے انہیں انتہائی محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
Ibn-e-Shamsi
About the Author: Ibn-e-Shamsi Read More Articles by Ibn-e-Shamsi: 55 Articles with 34740 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.