ملک ریاض کو وزیراعظم بنایا جائے
(mohsin shaikh, hyd sindh)
آٹھ فروری 1954 کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے
والے فرشتہ صفت انسان کا نام ملک ریاض ہے، ملک ریاض بحریہ ٹائون کے
مالک اور چیئرمین ہے، ملک ریاض نہایت رحم دل سخی دل اور خدا ترس انسان ہے،
یہ سخی بندہ نا جانے کتنے بے کسوں غرباء یتیموں بیوئوں کو اور نا جانے کتنے
بے گھروں کی جھولیاں بھر چکا ہے، اور کتنوں کی کفالت کی ذمہ داریاں اپنے
کندھوں پر لیے بیٹھا ہے، اس خدا ترس انسان نے ابھی حال ہی میں تھر میں قحط
اور سیلاب کے متاثرین کے لیے اربوں کی امداد روانہ کیں، اتنی امداد تو
موجودہ اور سابق حکومت نے بھی نہیں بھیجی متاثرین کے لیے، جو کام حکومت کو
کرنے چاہیے تھے، وہ کام اس عظیم سخی دل شخص نے کیے-
حیدرآباد میں سندھ یونیورسٹی کے بعد ایک اور یونیورسٹی کے قیام کی اشد
ضرورت ہے، حیدرآباد شہر میں یونیورسٹی کے قیام کی کسی سیاسی جماعت یہاں تک
کہ پیپزپارٹی نے اتنا عرصہ اقتدار میں رہتے ہوئے حیدرآباد میں نئی
یونیورسٹی کے قیام کی جانب کوئی توجہ نہیں دیں، حیدرآباد شہر میں نئی
یونیورسٹی کا قیام سندھ کی حالیہ بڑی جماعت ایم کیو ایم کا دیرینہ مطالبہ
تھا، زرداری کے دور حکومت میں ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین بھائی
کے پر زور مطالبے پر حیدرآباد میں نئی یونیورسٹی کے قیام کی بنیاد رکھی
گئیں، مگر یونیورسٹی کی تعمیر کے کام کو جاری نہیں کیا گیا، اس سے پہلے
الطاف حسین نے کئی حکومتوں سے یونیورسٹی کے قیام کی درخواستیں کیں، مگر کسی
کے کان میں جوں تک نہیں رینگی-
ایم کیو ایم حیدرآباد شہر میں یونیورسٹی کے قیام کی جہدو جہد میں مگن رہی
ایک اور رحم دل خدا ترس انسان سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد نے اس
منصوبے کو بلا آخر پایہ تکمیل تک پہنچا دیا، گورنر سندھ عشرت العباد کی شب
و روز کی محنت رنگ لائی، اور ملک ریاض جیسے خدا ترس سخی دل نے حیدرآباد میں
یونیورسٹی کی تعمیر کی ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھا لی، لوگ ملک ریاض
سے دولت جاگیریں مانگتے ہیں، الطاف حسین بھائی نے حیدرآباد کی عوام کے لیے
جامعیات مانگی، ملک ریاض نے یونیورسٹی کے قیام کا اعلان گورنر سندھ ڈاکٹر
عشرت العباد کے ساتھ پریس کانفریس میں کیا، اس اعلان کے بعد حیدرآباد کے
شہریوں کے چہرے خوشی سے کھل گئے-
ملک ریاض نے فوری طور پر حیدرآباد یونیورسٹی کی تعمیر کی بنیاد ڈالنے کا
حکم دیا۔ اور کراچی کے شہریوں کے لیے میٹرو بس سروس کے ساتھ ایک یونیورسٹی
کا اعلان کیا، جو کام سندھ حکومت نہیں کرسکی ایسے وہ کام ملک ریاض جیسے
انسان نے اپنے زمے لے لیے، حالانکہ ملک ریاض کوئی وزیر شذیر نہیں نہ کسی
سیاسی جماعت سے وابستہگی رکھتے ہیں، پاکستان کے معروف بزنس مین بحریہ ٹائون
کے مالک ہیں، حکومتیں تھر میں گندم نہیں پہنچا پا رہی اور ملک ریاض صاحب
وہاں دستر خوان سجا چکے ہیں، اس نے سیلاب اور زلزلے کے متاثرین کو گھر بنا
کر دئیے ہیں، کوئی شخص صومالیہ کے بحری قزاقوں کا شکار ہوجائے تو وہی شخص
تاوان ادا کرتا ہے، کسی کا کوئی اغواء ہوجائے تو بھی یہی شخص کروڑوں کے
تاوان کی ادائیگی کرتا ہے، کوئی بیمار ہوجائے اور علاج کرانے کی دسترس نہ
رکھتا ہوں تو یہی شخص خلق خدا کی مدد کو پہنچ جاتا ہے-
تھر میں موت کا رقص جاری ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بچے بھوک افلاس اور
بیماری سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں، وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کو کوئی
سروکار نہیں، بلاول کے منہ سے ہمدردی کے بول سننے کو ہمارے کان ابھی تک ترس
رہے ہیں، وہ ٹوئیٹر پر بیٹھا موقع بے موقع اپنے رد عمل کا اظہار کرتا رہتا
ہے، مگر اسکا ٹوئیٹر اکائونٹ تھر میں موت کے برہنہ رقص پر گونگا رہتا ہے،
شرجیل میمن کی بہودہ تقریر سندھ اسمبلی میں بالکل اچھی نہیں لگتی وہ کہتے
ہیں کہ روز بچے اسپتالوں میں مرتے ہیں، تھر میں ایک بچہ مرجائے تو میڈیا
کہرام مچا دیتا ہے، شرجیل میمن کے لیے تو جیسے یہ کوئی بات ہی نہیں ہوئی،
نواز شریف بلا وجہ گو نواز گو کے نعرے سن رہے ہیں، وہ آئین کے تحت سکبدوش
کیوں نہیں ہوجاتے،
سب سے دلچسپ بات پنجاب کی بہو شرمیلا فاروقی نے کہیں کہ تھر کے بچے بھوک سے
نہیں بیماری سے مرے ہیں، اب پتہ چلا کہ بھوک کسی بیماری کا نام نہیں بلکہ
ایک فیشن کا نام ہے، جو امیر طبقہ اپنے موٹاپے اور شوگر کو کنڑول کرنے کے
لیے شوقیہ اپناتے ہیں، شرمیلا جی کے اس تبصرے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیماری
سے لوگ مرنے لگیں تو حکومت کیا کرسکتی ہیں، جیسے پنجاب میں لوگ ڈینگی سے
مرے شہباز شریف کچھ نہ کرسکے، سوائے جوشیلی تقریروں اور دوروں کے یہ تبصرے
ہمیں اچھے نہیں لگے، ہماری مانیں جہاں ہم نے حضرت عمر کے دور کے آئین کا
حلیہ بگاڑ کر اسے اٹھارویں ترمیم میں ڈھال کر اپنی وفاقی حکومت کو ہر قسم
کی ذمے داری سے سکبدوش کردیا ہے، وہاں ایک اور ترمیم کرلی جائے،
اور اس میں دو متوازن حکومتوں کے قیام کی گنجائش نکالی جائے، ایک حکومت
عوام کے ہر دل عزیز نمائندوں کو دی جائے، اور دوسری حکومت ملک ریاض صاحب کے
حوالے کی جائے، آج تک بڑے سے بڑا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان ان میں سے دو
نعروں پر حکومت کے بجائے ملک ریاض عمل کررہے ہیں، یہ نعرہ حکومت کا تھا،مگر
عمل ملک ریاض کررہے ہیں، ملک ریاض نے سچ کہا ہے روٹی مکان فراہم کرنا حکومت
کی ذمے داری ہے، مگر اس فرض کی ادائیگی بھی وہی کررہے ہیں، میں ملک ریاض
خدا ترس انسان کی وکالت نہیں کررہا، یہ بات سچ پر بنی ہے، میں عرض کرتا ہوں
ملک ریاض صاحب سے کہ وہ محمد الرسول اللہ کے چھپر نما گھر سنت کی پیروی
کریں، خدا کی قسم وہ پاکستان کے بیس کروڑ افراد کو مفت گھر بنا کر دے سکتے
ہیں، اور رہتی دنیا تک اس عوام کے دلوں پر راج کرتے رہے گے-
اور انکے پاس اتنا پیسہ بھی بچا رہے گا، جس سے روٹی کپڑا مکان اور تعلیم
صحت کی ضروریات کی کفالت بھی کرسکیں گے اور ترقیاتی کام بھی ہوتے رہے گے،
باقی سیاست دانوں نے موجیں اڑانی ہیں سو وہ جی بھر کے اڑاتے رہے، آج امریکہ
کل چین پرسوں برطانیہ، لیکن کون کرے گا ایسا جو انسان ملک اور عوام کا درد
اپنے سینے میں رکھتا ہوں اور پاکستان میں کون پوچھتا ہے، ایسے انسان کو ملک
ریاض تو سچا مخلص پاکستانی ہے، ملک ریاض کو پاکستان کا وزیراعظم بنایا
جائے، اس ملک کو ملک ریاض جیسے سخی دل مخلص انسان کی اشد ضرورت ہیں ملک
ریاض تم جیو ہزاروں سال- |
|