نیپال میں سارک سربراہ اجلاس سے
پہلے وفاقی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ کے صدر
باراک اوبامہ نے وزیر اعظم نواز شریف سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے انہیں
26جنوری کے موقع پر اپنے دورہ بھارت سے آگاہ کیا اور اس بات کی یقین دہانی
کرائی کہ وہ پاکستان کے حالات ٹھیک ہوتے ہیں پاکستان کا دورہ کریں گے۔وزارت
خارجہ کے اس بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے امریکی
صدر اوبامہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا۔اس سے
پہلے جب بھارت نے اسلام آباد میں طے شدہ بھارتی سیکرٹری خارجہ کا دورہ
منسوخ کرنے کا اعلان کیا اور متنازعہ جموں و کشمیر کی سیز فائر
لائین(کنٹرول لائین اور ورکنگ باؤنڈری) پر شدید فائرنگ اور گولہ باری کا
سلسلہ شروع کر دیا۔اس صورتحال کے تناظر میں وزیر اعظم نواز شریف نے امریکہ
میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس سے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر اور
کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا ذکر کیا۔اس کے بعد بھی بھارت کی طرف سے فائرنگ
اور گولہ باری اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی جاری رہی تو حکومت پاکستان
کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر اور
بھارتی جارحیت کا اہم امور پر عالمی سطح پر سفارتی اور سیاسی کوششیں تیز کی
جائیں گی۔سارک سربراہ اجلاس سے کئی دن پہلے ہی وزیر اعظم نواز شریف نے یہ
واضح کیا تھا کہ پاکستان مزاکرات میں پہل نہیں کرے گااور اب مزاکرات میں
پہل بھارت کو کرنا ہو گی۔سارک سربراہ کانفرنس سے پاکستان اور بھارت کی
وزرائے اعظم ملاقات کی امید پیدا ہوئی ،تاہم دونوں ملکوں کے حکام کی طرف سے
اس سربرا ہ ملاقات کے امکانات ظاہر نہیں کئے گئے۔کھٹمنڈو میں وزیر اعظم
نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی شریک ہوئے،ایک دوسرے کی
موجودگی میں تقریریں کیں،اختتامی اجلاس کے دن انہوں نے آپس میں ہاتھ
ملائے،اکٹھے ایک ہیلی کاپٹر پر نیپال کے تفریحی مقام کا دورہ کیا،دوسری
مرتبہ بھی ہاتھ ملایا لیکن پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات نہ
ہو سکی۔سارک سربراہ کانفرنس کے پہلے دن بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی نے
پاکستان کے خلاف ممبئی حملے اور اس کے ذمہ داران کے خلاف سست کاروائی کا
ذکر کیا اور دہشت گردی کی بات کی۔وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں
غربت ،بیماریوں پر قابو پانے کے لئے تنازعات کے خاتمے کی بات کی۔یہاں یہ
بات سمجھ نہیں آتی کہ کیا پاکستان نے سارک سربراہ اجلاس کے موقع پر مسئلہ
کشمیر پر اپنی طے شدہ اورگزشتہ دنوں اعلان کردہ پالیسی تبدیل کر لی ہے؟ہمیں
تو بتایا گیا تھا کہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر سرگرمی سے اجاگر کرنے کا
فیصلہ کیا گیا ہے لیکن سارک سربراہ اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات
نہ ہونے کی صورتحال واضح ہونے کے باوجود ،وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے
مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف بھارتی مظالم کا تذکرہ نہ کرنے سے کیا
معنی اخذ ہوتے ہیں؟پہلے ہمیں بتا یا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے
امریکی صدر اوبامہ سے کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل اوربھارت کے ساتھ
پاکستان کے مزاکرات کی بحالی کے لئے اپنا کر دار ادا کریں اورپھر وزیر اعظم
نوازشریف کھٹمنڈو سے واپسی پر طیارے میں پاکستانی صحافیوں کو یہ ''خوش خبری
''سنا ئی کہ ''بھارت سے مذاکرات شروع کرنے کیلئے ہم نے کسی ملک سے کردارادا
کرنے کی درخواست نہیں کی''۔کیا جناب وزیر اعظم نواز شریف قوم کو یہ بتا
سکیں گے کہ جنو بی ایشیا کے آٹھ ملکوں کی تنظیم سارک کے سربراہ اجلاس کے
موقع پرمسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا معاملہ کیوں نہیں
اٹھایا گیا ،کہ یہ سارک کا پلیٹ فارم پاکستان اور بھارت کی درمیان مسلسل
کشیدگی اور خراب تعلقات کی وجہ سے اپنے قیام کے مقاصد کے مطابق کام کرنے سے
قاصر چلا آ رہا ہے اور دنیا سارک کانفرنس کو مانیٹر کر رہی تھی۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کے دہشت گردی سمیت کئی مسائل و امور افغانستان سے
مربوط و منسلک ہیں اور مختلف ہاتھوں میں استعمال ہونے والے مختلف دہشت گرد
پاکستان کے لئے ایک سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں ،تاہم پاکستان کی طرف سے
افغان مسائل کو اس لئے اولین ترجیح دینا کہ اس میں امریکہ کا مفاد شامل
ہے،اور مسئلہ کشمیر کو جو پاکستان کی سلامتی نہیں نہیں بقا سے بھی مربوط
معاملہ ہے ،کو پس پشت ڈالنا کسی طور بھی قومی مفاد میں نہیں ہے۔سابق
حکومتوں کی طر ح پاکستان کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے بھی کہیں یہ
اندازہ نہیں ہوتا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو بھارت کی طرف سے مزاکرات سے
منصفانہ اور پرامن طور پر حل کرنے کی راہ سے فرارکی صورتحال میں اپنے قومی
مسئلے ،مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کیا حکمت عملی اپناتا ہے،اس وقت تو
پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر نہ تو کوئی حکمت عملی نظر آتی ہے اور نا
ہی کسی حکمت عملی پر کوئی عمل نظر آتا ہے،نظر یہی آ رہا ہے کہ پاکستان
مسئلہ افغانستان میں کلی طور پر مصروف ہوتے ہوئے کشمیر کے سنگین مسئلے کو
بری طرح نظر انداز کر رہا ہے۔مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی یہ خاموشی واضح طور
پر پسپائی کا اشارہ ہے جس سے بھارت کے لئے کشمیر کی زمینی صورتحال زور زبر
دستی اپنے حق میں کرنے کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔نہایت افسوسناک طور پر
حکومت پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر''جیسی تیسی'' توجہ بھی نمائشی
انداز میں ہی نظر آتی ہے۔اگر پاکستان کے پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر
کی موجودہ تقسیم کی بنیاد پر ہی مسئلہ کشمیر کا حل تسلیم کیا جا سکتا ہے تو
یہ پاکستان کی ایسی مہلک ترین غلطی پر منتج ہو سکتا ہے کہ جس کے بھیانک
نتائج پاکستان کی سلامتی کے حق میں کسی طور بہتر نہیں ہو سکتے۔
یوں جس طرح سارک کانفرنس سربراہ اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے
مسئلہ کشمیر کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا،آرمی چیف کے دورہ امریکہ کے موقع پر
بھی مسئلہ کشمیر کا کوئی تذکرہ سننے میں نہیں آیا،اسی طرح اب تک پاکستان کی
طرف سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اٹھانے کے حوالے سے کوئی سرگرمی دیکھنے
میں نہیں آ ئی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اپنی سفارتی اور سیاسی کوششیں تیز کرنا
تو ایک طرف ،حکومت پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور مسئلہ
کشمیر کو نظر انداز کرنے کی صورتحال واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔پاکستانی
وزارت خارجہ کی طرف سے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کے
مصائب کو نظر انداز کرنا ریکارڈ پر ہے۔اب جبکہ وزیر اعظم کے مشیر برائے
قومی سلامتی و امور نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کو بھارتی حکومت کے ساتھ
دو طرفہ مزاکرات کی بحالی کے سلسلے میں کسی پیش رفت کی توقع نہیں
ہے،ہندوستان نے صرف دنیا کی توجہ اس مسئلے سے ہٹانے کے لیے کشمیرکو دہشت
گردی سے جوڑا، تواس صورتحال میں حکومت نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کیا حکمت
عملی اپنائی ہے؟یہ بات بالکل بھی واضح نہیں ہے کیونکہ کشمیر کے حوالے سے
پاکستان کی پالیسی اب بھی ''ڈے بائی ڈے'' معلوم ہوتی ہے ،یعنی مسئلہ کشمیر
سے متعلق کوئی واضح اور ٹھوس پالیسی اپنانے کے بجائے انتظار کرو اوردیکھو''
کی حکمت عملی دیکھنے میں آ رہی ہے۔یہ تمام صورتحال اس حقیقت کا اعادہ کرتی
ہے کہ پاکستان کشمیر پالیسی اب بھی ''ڈے بائی ڈے'' ماحول ،واقعات اور
صورتحال کے مطابق چلائی جا رہی ہے۔پاکستان کی اس '' کشمیر پالیسی'' پر
پاکستانی عوام ہی نہیں کشمیریوں کے تحفظات اور خدشات میں اضافہ ہوتا جا رہا
ہے۔ حکومت یہ تسلیم تو کر رہی ہے کہ بھارت سے مزاکرات شروع ہونے کا کوئی
امکان نظر نہیں آتا اور یہ کہ مسئلہ کشمیر چالیس سال سے بھارت اور پاکستان
باہمی طور پر حل نہیں کر سکے ہیں تو حکومت کی طرف سے یہ بھی بتایا جائے کہ
وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کیا پالیسی رکھتے ہیں اور حکومت اس حوالے سے
کیا اقدامات اٹھا سکتی ہے؟ |