محبتوں کا سمندر
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
21,22,23نومبر کو اگر آپ مینار
پاکستان کی بالائی منزل پر کھڑے ہو کر دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ جیسے
انسانوں کا ایک سمندر ہے جس کی لہریں دلوں کے تاروں کو جھنجھوڑ کر رکھ
دیتیں یہ انسانوں کا نہیں بلکہ محبتوں کا سمندر تھا ۔اس سمندر میں دریائے
سندھ بھی تھا تو دریائے راوی بھی یہ پانچوں دریاؤں کا سنگم ہے اس نظریاتی
بھیڑ میں سندھ کی اجرک بھی نظر آرہی تھی پنجاب کی پگڑی بھی اور کے پی کے
اور بلوچستان کی پگڑیاں اور صافے بھی تھے ۔یہاں پاکستان کے ہر صوبے اور ہر
شہر و گاؤں کے لوگ تھے تو پاکستان میں بسنے والے ہر اقلیتی برادری کے
نمائندہ وفود بھی موجود تھے ۔امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے اقلیتی
برادری کے لوگوں کو پاکستانی بھائی کے نام سے پکارنے کا فیصلہ کیا ،اسی لیے
ان کے کیمپ کے باہر پاکستانی بھائی کے نام کا بینر لگا ہوا تھا۔
ہم جب پہلے دن اجتماع گاہ میں پہنچے تھے تو جماعت اسلامی کے مرکزی میڈیا
کوآرڈینیٹرجناب شاھد شمسی نے کراچی کے صحافیوں کا استقبال کیا ۔ہم ویسے تو
ٹھیک وقت پر پہنچ گئے تھے لیکن اخوان المسلمون کے رہنما کا جمعہ کا خطبہ نہ
سن سکے ،پہلے کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی بچہ دیر سے گھر پہنچے تو
باپ اس کی پیٹھ دیکھتا ہے اورماں اس کا پیٹ دیکھتی ہے ۔یہی ماں جیسی شفقت
شاہد شمسی کیے پاس بھی ہے انھوں نے گرم جوشی سے استقبال کرنے کے بعد سب سے
پہلا یہ کام کیا کہ کے ہمیں لنچ باکسز تھما دیے کہ آپ لوگ بھوکے ہوں گے
پہلے کھانا کھا لیں پھر انھوں نے تمام صحافیوں کے پریس کارڈ بنوا کر دیے
تاکہ کسی صحافی بھائی یا رپورٹر کو آنے جانے میں کوئی پریشانی نہ ہو ۔شاہد
شمسی صاحب اپنے دل میں پوری امت کا ایک درد رکھتے ہیں ان کی ایک خوبی یہ ہے
کہ وہ اگر ایک طرف ملک کے بڑے بڑے صحافی اور دانشور حضرات سے ذاتی روابط
رکھتے ہیں تو وہیں دوسری طرف ہم جیسے حقیر فقیر شوقیہ لکھاڑیوں سے نہ صرف
رابطہ رکھتے ہیں بلکہ بعض اہم موضوعات کے حوالے سے مدد اور رہنمائی بھی
کرتے ہیں ،کبھی کبھی ان کا ذکر حامد میر نے بھی اپنے کالموں میں عزت و
احترام سے کیاہے-
22 نومبر ہفتہ کے روز چوتھے سیشن کا عنوان "پیغام قران و سنت "تھا اس سیشن
کے پہلے مقرر امیر جماعت اسلامی ہند مولانا جلال الدین عمری صاحب تھے جنھوں
نے بہت خوبصورت انداز میں "حقوق انسانی "کے موضوع جذبات کو گرما دینے اور
روح کو تڑپا دینے ولا درس حدیث دیا ۔اس سیشن کی دوسری تقریر نائب امیر
جماعت اسلامی پاکستان حافظ محمد ادریس صاحب کی تھی جنھوں نے "رسول اﷲ ﷺ کی
حکمت انقلاب "کے موضوع پر انقلابی گفتگو کی حافظ ادریس کا انداز تو ویسے ہی
متاثر کن اور دلنشیں ہوتا ہے ۔سیشن کی تیسری اور آخری تقریر "جماعت اسلامی
منزل بہ منزل"لیاقت بلوچ صاحب کی تھی جنھوں نے اپنے روائتی انداز میں ٹہر
ٹہر کر جماعت کے مختلف ادوار پر سیر حاصل گفتگو کی ۔
اجتماع عام کے پانچویں سیشن کا عنوان" اسلامی پاکستان"تھا جس میں " ـ
فرد،خاندان اور معاشرہ"کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے نائب امیر جماعت اسلامی
پاکستان جناب راشد نسیم نے کہا کہ یہ دنیا گلوبل ولیج ہے اس میں پاکستان کو
اسلامی پاکستان بنانا ہے جو انسانوں کے ذریعے بنے گا ،جب لوگ دین فطرت اپنا
لیں گے یہ زمین خزانے اگلنے لگے گی اصل رشتہ جو دنیا میں پہلے وجود میں آیا
شوہر اور بیوی کا رشتہ ہے ،ماں کا رشتہ بھی بعد میں وجود میں آیا ۔مغرب نے
فلاحی ریاستیں تو بنالیں لیکن خاندان بکھر رہے ہیں ۔اب یہی مغرب مسلم
خاندانوں کی طرف توجہ کیے ہوئے ہے ۔بیجنگ کانفرنس میں خواتین کی ترقی کے
نام پر مسلم خاندانوں کو بکھیرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں ۔ـ"سید مودودی
اور احیائے امت"کے موضوع پر نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان فرید پراچہ نے
تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مودودی نے یہ آواز بلند کی کہ مسلمان قوم
نہیں ایک امت ہے جو ایک مقصدی امت ہے اسی طرح انھوں نے اتحاد امت کی دعوت
دی آج ملک کی سیاسی جماعتیں خاندانوں کی جماعتیں ہیں اور دینی جماعتیں
مسلکوں اور فرقوں کی جماعتیں ہیں جب کہ جماعت اسلامی خاندانوں کی جماعت ہے
نہ مسلکوں اور فرقوں کی جماعت ۔26اگست 1941میں جو قافلہ 75افراد پر مشتمل
تھا اب اس قافلے کے ساتھ تین کروڑ سے زائد لوگ وابستہ ہیں ۔آج دنیا میں جو
گلوبائزیشن ہوئی ہے یہ امریکا یا مغربی تہذیب کے لیے نہیں بنی یہ
گلوبائزیشن اسلامی انقلاب کے لیے ہوئی ہے اس ٹکراؤ میںclashاسلام کو
کامیابی ملے گی ۔آج جہاد کی تحریکیں جو کشمیر فلسطین اور افغانستان میں چل
رہی ہیں اس کی بنیادوں میں وہی فکر کام کررہی ہے جو مولانا نے ایک عرصے
پہلے پیش کیا تھا ۔
اس سیشن سے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اس اﷲ بھٹو نے" نیکی پھیلاؤ
،برائی مٹاؤ"اور قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ
طارق اﷲ نے "پارلیمانی جدوجہد " کے موضوعات پر خطاب کیا اس سیشن کے آخری
مقرر سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان منور حسن تھے جنھوں نے" جماعت اسلامی
کی دعوت" کے موضوع خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر منکر کے حوالے سے تبلیغی
جماعت اور جماعت اسلامی کے درمیان اتحاد ہو جائے تو معاشرے میں برائی ختم
ہو جائے گی اور نیکیوں کا بول بالا ہو جائے گا ۔حدیث قدسی ہے کہ " اگر تم
منکر کے خلاف نہیں اٹھو گے تو تم ہاتھ اٹھا کر مجھے پکارو گے میں تمہاری
کوئی بات نہیں سنوں گا "انھوں نے کہا کہ ہمارے تبلیغی بھائی کہتے ہیں کہ
دنیا کی آبادی سات ارب ہے اس میں پانچ ارب غیر مسلم ہیں باقی دو ارب
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں ۔جس طرح
دعوت و تبلیغ کا کام انبیاء کا کام ہے اسی طرح دعوت و جہاد کا ماحول پیدا
کرنا اس کے کلچر کو فروغ دینا بھی انبیاء ور رسول کاکام ہے ۔یہ جماعت
اسلامی عبد القادر ملا کی تحریک ہے ،پروفیسر غلام اعظم کی تحریک ہے مطیع
الرحمن کی تحریک ہے ،یہ ایک ایسی سدابہار تحریک ہے جس کی جڑیں زمین کی
گہرائیوں میں اور شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہیں ۔
اجتماع عام کا چھٹا سیشن بین الاقوامی خواتین کانفرنس اور یوتھ سیشن کا تھا
۔خواتین کانفرنس میں"بدلتی دنیا میں عورت کے کردار" کے موضوع پر خواتین
قائدین نے خطاب کیا یوتھ سیشن شاہینوں کا جہاں کے عنوان سے تھا جس کو
اسلامی جمعیت طلبہ ،شباب ملی اور جمعیت طلبہ عربیہنے آرگنائز کیا تھا آخر
میں خواتین اور یوتھ سے امیر جماعت اسلامی پاکستان کا خصوصی خطاب ہوا -
ساتواں عالمی سیشن پروفیسر خورشید احمد صاحب کی صدارت میں شروع ہوا جس میں
عالمی اسلامی تحریکوں کے قائدین نے "مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
"کے موضوع پر خطاب کیا ۔آخر میں سراج الحق صاحب نے تمام اسلامی تحریکوں کے
رہنماؤں کا شکریہ ادا کیا ۔
عمر کے ایک حصے میں انسان کو نارمل کی روٹین چیزیں بھی ایک چیلنج بن کے
سامنے آجاتی ہیں ،صحافیوں کے لیے انتظامیہ نے رہائش کا بڑا اچھا انتظام کیا
تھا کراچی کے علاوہ پورے ملک سے سیکڑوں کی تعداد میں مختلف اخبارات اور ٹی
وی چینلز نمائندے تینوں دن کے لیے شریک ہونے آئے تھے ،ان کے لیے لحاف
بستروں کا انتظام تھا ۔لیکن پھر بھی ہمیں چونکہ ایک سہولت حاصل تھی کہ گھر
والوں نے ہوٹل کیا ہوا تھا اس لیے اجتماع گاہ سے اپنے ہوٹل کی طرف روانہ
ہوئے ایک دن پہلے کے ناخوشگوار تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے سوچ سمجھ کر
راستہ طے کیا دراصل اس اجتماع کی لمبائی چوڑائی کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہو
سکاپہلے دن باہر نکلنے کے لیے ہم چالیس منٹ تک اجتماع گاہ ہی میں اس طرح
گھومتے رہے کہ ادھر سے نکلے تو ادھر ڈوب گئے ادھر ڈوبے تو ادھر نکلے والا
حساب تھا بمشکل تمام باہر نکلے تو اسٹیشن تک جانے کے لیے چنچی والے دوسو
روپئے مانگ رہے تھے جب کہ اصل کرایہ بیس روپئے ہے بالاخر ایک چنچی والے کو
ہم پر رحم آگیا اور اس نے سو روپئے میں پہنچا دیا ۔محبتوں کے سمندر میں ان
سب مشکلات اور تکالیف کا بھی اپنا ایک مزہ ہے ۔ |
|