تبدیلی یقینی ہے ،مگر؟
(Yousuf Ali Nashad, Gilgit)
تاریخ بشریت کا اگر عمیق مطالعہ
کیا جائے تو تواریخ کے کتب میں نوے فیصد ذکر اس بات کی ہے کہ دنیا کے فلاں
فلاں خطے میں کیا تبدیلی آئی اور کیسے آئی۔اقوام عالم کے ماضی اور حال کا
ذکر جبکہ ان کا حال دیکھتے ہوئے مستقبل کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔دنیا کے
مختلف ممالک نے آپنی آزادی کی جدوجہد کوکن اصولوں پر مرتب کرکے آزادی حاصل
کی ان میں کس کس نے آزادی کو دوام بخشا اور کون اپنی آزادی کو برقرار رکھنے
میں ناکام ہوئے۔اپنے مقصد کے حصول کے لئے کتنی قربانیاں دیں،کتنی جنگیں
لڑیں،کیا کچھ کھویا ،کیا پایا،اقوام عالم کے تنزلی اور ترقی کے اسباب کا
ذکر بدرجہ اتم موجود ہے۔تاریخ لکھنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ آنے والی
نسلیں سبق سیکھیں، عبرت حاصل کریں۔ یاد رکھیں دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں
ہے جس میں تبدیلی یا انقلاب نہیں آیا ہو۔ ان انقلابات کے پیچھے بہت سے
عوامل کرفرما ہوتے ہیں کہیں پر ظلم جبر حق غصب کرنے پر تو کہیں پر بے حسی
بڑھنے پر تو کہیں پر ضرورت سے زیادہ دولت مہیا ہونے کی بنا پر وہاں کی قوم
غفلت میں مبتلا ہونے پر تو کہیں باوقارقومیں اپنی قومی حمیت کو برقرار
رکھنے کے لئے انقلاب کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔اگر ہم ان اسباب پر بحث
کریں گے تو بات لمبی ہوجائے گی چونکہ آج کے دور میں جانکاری عام ہوچکی ہے
اس لئے دانا را اشارہ کافی است۔بر صغیر کو دیکھیں اہل دنیا نے سونے کی چڑا
کا خطاب دیا تھا ، بعد میں کیا حشر ہوا، مغلیہ سلطنتوں کا کردار کیسا رہا،
پھر بر صغیر سے پاکستان کوجنم لیا اور کچھ عرصہ بعد پاکستان سے بنگلہ دیش
نے پیدا ہوا اور بلوچستان بھی پاکستان میں شامل ہوا۔روس کے اندر کئی مسلم
ریاستیں آزاد ہو گئیں،چک اور سلواکیہ کے علاوہ بھی کئی ممالک میں تبدیلی
اور انقلابات رونما ہوئے۔جبکہ گلگت بلتستان کی بھی ایک لمبی تاریخ ہے،مختلف
طاقتو ں نے یہاں حکمرانی کی ان پہاڑی علاقوں میں میں متعدد جنگیں
ہوئیں،جبکہ سکندر آعظم کے گزرنے کے بعد بھی یہاں کے حالات میں کچھ تبدیلی
آئی،بروشال کے دور میں اچھی حکمران رہی بیرونی مداخلتوں کا یہ سلسلہ چلتا
رہا پھر طاج برطانیہ کا دور آیا اس حوالے سے یہ کہتا چلوں کہ اس دور کو بھی
ہمارے اجداد ایک سنہرا دور کے نام سے یاد کرتے تھے اور یاد کرتے ہیں،پھر
ڈوگرہ ،اس کے ساتھ ساتھ یہاں راجاؤں کے دور کا ایک لمبا سلسلہ چلتارہا،
اور1947میں ان سنگلاخ چٹانوں پر ان دشوار گزار راستوں پر ان پہاڑی خطے کے
پہاڑی بیٹوں نے بے سرو سامانی کی حالت میں بھی دنیا کی انوکھی جنگ لڑ کر اس
دور کی سپر پاور کو شکست فاش دے کر آزادی حاصل کی جبکہ اس کی آزادی میں کسی
غیر کا ناخن بھی نہیں کٹا ہے۔تاریخ کے ماہرین تجزیہ کرنے والے حضرات اس
آزادی کو ایک گریٹ گیم کا نام دیتے ہیں کہ حکمت عملی ہی کچھ ایسی تیار کی
گئی تھی جس پریہاں کے لوگوں کو از خود چلنا ہوا۔ بھارت کو روس کے لئے نزدیک
راستہ یہاں سے تھا جس کو کاٹنا سامراج کے لئے ضروری تھا اس کے علاوہ اور
بھی معاملات کارفرما تھے۔گیم جو بھی ہو ہمارے اجداد نے ایک تاریخ رقم کر دی
ہے۔جب کہ اس دور میں سب سچے اسلامی جذبے سے سرشار تھے تو سوچا کہ پڑوس میں
پاکستان نام کا ایک اسلامی مملکت بھی آزاد ہوا ہے اور یہاں ہم بھی آزاد
ہوجائیں تو بحیثیت مسلمان ہمارے قوت میں اضافہ ہوگا۔غور کیا جائے تو واقعی
یہ ایک وسیع سوچ تھی اس میں نیک نیتی تھی انہیں کیا معلوم تھا کہ اس خلوص
کا صلہ انہیں بدی میں ملے گا اور یہ بھی درست ہے کہ ہم اپنی حاصل شدہ آزادی
کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوئے، واقعی آزادی حاصل کرنے سے زیاد اس کو
برقرار رکھنا زیادہ اہم ہے۔آج تک کوئی ایسی مشترکہ دستاویز موجود نہیں جس
میں گلگت بلتستان کے وہ لیڈر جو جنگ آزادی کے سردار تھے ان کا کوئی دستخط
موجود ہو۔ البتہ1949میں کشمیری شیطان صفت سیاستدانوں نے اپنے تئیں اس خطے
کو پاکستان میں شامل کرنے کی اپنی سی کوشش کی جس کے خلاف اب تک ہر سال
احتجاج کے طور پر یہ دن منایا جارہا ہے۔U N C I Pکے قراردوں کے تحت12ہفتوں
کے اندر اندر پاکستان اور ہندوستان کو اپنی اپنی فوجیں واپس پیچھے لانے کا
حکم دیا تھا،مختلف حیلے بہانوں سے دونوں ممالک نے ایسا نہیں کیا کیوں نہیں
کیا یہ بھی ایک بحث ہے۔67سالوں سے ہمارے وسائل کو بے دریغ لوٹے جارہے ہیں
جس کی تفصیل سے سبھی آگاہ ہیں۔اور پاکستان اور بھارت کی جب بھی کشتی ہوئی
اس دنگل میں گلگت بلتستان کا جغرافیہ سکڑتا گیا،جبکہ ہمار اجداد نے ان خستہ
حالی میں بغیر جدید ہتھیار کے جو علاقہ آزاد کرایا تھا جو بعد میں جدید
کثیر تعداد اور جدید ہتھیار والے لوگوں نے گنوادیا۔ جبکہ ہم اسلامی محبت
میں خاموش رہے یا قومی حوالے سے بے حس ہوئے۔چین اور پاکستان کے درمیان دنیا
کا آٹھواں عجوبہ تعمیر ہوا جس میں ہماری حیثیت ریڈ کی ہڈی جیسی تھی مگر ہم
سری پائیوں میں بھی شمار نہیں ہوسکے۔اس کے بعد پاک چین تجارتی راہدار میں
کی گفتگو میں بھی ہمیں نظر انداز کیا گیا یا ہم خود اس قابل نہیں ہوئے۔اس
کے علاوہ مشرف، دور، پی پی دور اس سے قبل بھی اور موجودہ نواز دور میں بھی
یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصۃ نہیں۔ یہ
بات ہم گزشتہ20سالوں سے کہتے آرہے ہیں جبکہ یہاں کے مفاد پرست وفاقی
سیاستدان ہمیں اس بات پر بھی غدار کہتے رہے ۔اب پرویز رشید کو آپ کیا کہیں
گے۔جو علاقہ جغرافیائی طور پر کسی ملک کے اندر ہو وہ آئین میں بھی بہ آسانی
شامل ہوتا ہے۔ ہماری تاریخ الگ،ہماری آزادی الگ ہمارا کلچر، بود باش زبان
الگ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنا صدیوں پرانا کلچر چھوڑ کر ایک نئی ثقافت کو
اپنائیں یہ ممکن ہی نہیں۔اس میں واقعات قصے کہانیاں اور عوامل بے شمار ہیں
ہم آگے چلتے ہیں۔بات یہ ہے کہ نصف صدی سے زیادہ کی نا انصافی نے اب یہاں کے
لوگوں کو ایک بار اپنے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا ہے۔خاص طور پر یہاں کا
نوجوان طبقہ اس معاملے میں بہت مایوس ہو کر اور دنیا کے تغیرپزیر حالات کا
جائزہ لیتے ہوئے اپنے گھر کا خود مالک بننا چاہتا ہے،پہلے ہم فقد گلگتی ہوا
کرتے تھے آج ہم نے اپنی پہچان شیعہ سنی اسماعیلی اور نور بخشی کے نام سے
بنائی ہے۔ان بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک بار ایک ہی لڑی میں پروجانے کی ضرورت
ہے۔کہنے کا مقصد یہ کہ یہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے یا ہمارے ہی لوگ
ہمارے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں یہ سب کچھ تبدیلی کی راہ ہموار ہونے جارہے
ہیں۔ اب گلگت بلتستان میں بھی تبدیلی ہر حال میں آنی ہے،ہر صورت میں آنی
کوئی روکنا چاہے تو بھی نہیں روک سکتا ہے یہ ایک فطری عمل ہے جو ہر قوم میں
موجود ہے پس کوئی دیر سے جاگتا ہے کوئی بہت جلد سمجھ لیتا ہے۔’’تبدیلی
یقینی ہے‘‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں نہ کوئی شک و شبہ ہے۔ التبہ ایک بڑا
خطرہ اس تبدیلی میں نظر آرہا ہے۔انیسویں صدی میں طاقتور ممالک نے دیگر دنیا
کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر رکھا ہے۔ یہ کہ پہلے ان کے خیر
خواہ بنیں گے ان کی مدد بھی کریں گے اور ان کی مدد سے آزادی حاصل ہونے کے
بعد بہ آسانی اپنا غلام بھی بنا لیتے ہیں۔ ہمیں ایک غلامی سے نجات حاصل
کرنے کے بعد دوسری غلامی میں ہرگز نہیں جانا چاہئے۔یہ بات ہمیں زیب نہیں
دیتی کہ ہم سامراج کی گود میں جا کر اپنی آزادی کی بھیگ مانگیں، ہمیں
بیرونی کسی بھی طاقت پر تکیہ نہیں کرنا چاہئے۔البتہ اس دور میں کہیں نہ
کہیں ان کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ اول ایسا موقع ہی فراہم نہ کیا جائے کہ کسی
کی مداخلت ہو۔دوسری بات اگر ایسا ممکن نہ ہوا تو گھٹنو بل ہاتھ باندھے
فریادی بننے کی بجائے ان کے سامنے برابری پر،ٹیبل پر بیٹھ کر اپنا موقف پیش
کرنے کی ہمت اور حیثیت ضرور ہونی چاہئے۔آج کے دور میں کوئی کسی کاخیر خواہ
نہیں اس لئے اپنے مستقبل کے ٖفیصلوں پر کسی کو بھی دخل اندازی کی اجازت
نہیں دینی چاہئے ۔چونکہ یہ طاقتیں جہاں بھی مداخلت کر رہی ہیں ان کے اپنے
مفادات ان کے لئے مقدم ہوتے ہیں۔اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو یہ ہمارے حق میں
بالکل نہیں۔جی ہاں جب ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں گے ہم ایک باوقار قوم
بن کر مظبوط ہوجائیں گے تو ہماری مرضی ہے ہم کس کے ساتھ کس طرح کے تعلقات
قائم رکھ سکتے ہیں یہ بعد کی بات ہے۔ ہم خود متحد ہوجائیں غیرت مند قوم کی
طرح جو ماضی میں ہم تھے ایک بار پھر اپنے قومی مشترکہ مفادات کو اولیت دیکر
ایک پلیٹ فارم میں جمع ہوجائیں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں ہمارے فیصلے
سے نہیں روک سکتی ہے۔ذہن میں یہ بات بٹھائی جائے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے ہم
نے خود ہی کرنا ہے اس کے لئے پہلے تمام تعصبات کو ختم کر کے یکجا ہونے کی
ضرورت ہے۔ہمیں تاریخ سے اپنے ماضی اور حال کی کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے
بیدار ہوکر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو ہماری طرح
سوچنے کے بجائے وہ اپنی صلاحیتوں کو علاقے کی تعمیر و ترقی پر بروئے کار
لانے کے مواقع میئسر ہوں۔ اب سر جوڑ کر ہمیشہ کے لئے کچھ کرنے کی ٹھان لینی
چاہئے۔ اب لمحوں کی خطا، صدیوں کی سزا والی بات نہ ہوجائے۔اس بات سے بھی
ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے جب سے ن لیگ کے وزیر کا بیان منظر عام پر آیا ہے
اس کے بعد گلگت بلتستان میں وہ افراد جو اب تک اندھیرے میں تھے ان کی بھی
آنکھیں کھل چکی ہیں اور ایک بے چینی کیسی کیفیت پیدا ہوئی ہے یعنی لوگ
بیدار ہوچکے ہیں اور اپنے متعلق سوچنے پر مجبور ہیں،عین ممکن ہے ایسے حالات
میں یہاں فرقہ وارانہ ماحول کو مذید گرم کرنے کی کوشش کی جائے اس لئے خدا
را ہوشیار رہیں اور اپنے ان جذبات کو قابو میں رکھیں جسے گلگت بلتستان کے
مستقبل سنوارنے میں مشکلات پیدا ہوجائیں ۔اپنے خطے کو ایک مثالی پر امن خطہ
بنانے کی ہمیں بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔خدا ہم سب کو راہ راست پر آنے کی
توفیق عطا فرمائے(آمین) |
|