وطن عزیز پاکستان ان دنوں کئی
طرح کے مسائل سے دو چار ہے ،ایک طرف دہشت گردی کی لہر ہے تو دوسری طرف
مہنگائی،بے روزگاری نے غریبوں کا جینا محال کر رکھا ہے،عوام سے غربت کے
خاتمے اور انکی فلاح کے لئے وعدے کرنے والے کرسی تک پہنچنے کے بعد انہیں
ہمیشہ کے لئے بھول جاتے ہیں اسی لئے عوامی مسائل میں کمی نہیں آتی بلکہ دن
بدن اضافہ ہو رہا ہے۔غریب خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں،ہسپتالوں میں
دوائیں نہ ملنے کے باعث اور مہنگے علاج ہونے کی وجہ سے دس ہزار تنخواہ لینے
والا مزدورعلاج نہیں کروا پاتا ،اقوام متحدہ کے ایک ترقیاتی ادار ے نے
انسانی وسائل کی ترقی پر مبنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ پاکستان کی 49 فیصد
آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ تعلیم و صحت
کیلئے افریقی غریب ملک کانگو سے بھی کم وسائل مختص کیے جاتے ہیں،عا م آدمی
کی زندگی بہتر بنانے والے 186 ممالک کی فہرست میں پاکستان 146 ویں نمبر پر
ہے۔ رپورٹ کے مطابق ،کانگو صحت پر جی ڈی پی کا 1.2 فیصد اور تعلیم پر 6.2
فیصد جبکہ پاکستان صحت پر جی ڈی پی کا 0.8 فیصد اور تعلیم پر 1.8 فیصد خرچ
کرتا ہے۔بنگلہ دیش، بھارت اور سری لنکا ان شعبوں پر پاکستان سے زیادہ خرچ
کرتے ہیں۔قدرتی آفات کی صورت میں بھی حکومت کے بلند و باگ دعوے تو نظر آتے
ہیں لیکن عملی اقدامات صرف فوٹو سیشن تک محدود ہوتے ہیں۔ایسی صورتحال میں
کچھ لوگ اور ادارے ایسے بھی ہوتے ہیں جو صرف اور صرف اس ملک میں بسنے والی
عوام کی فلاح کے لئے کام کرتے ہیں اس میں انکا کوئی ذاتی مفادنہیں ہوتااور
نہ ہی انہیں ووٹ یا کرسی کا لالچ ہوتا ہے بلکہ صرف رضائے الہی مقصود ہوتی
ہے۔پاکستان کے پانچوں صوبوں سمیت آزاد کشمیر میں ’’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن
‘‘ جو کہ جماعۃ الدعوۃ پاکستان کا ذیلی ادارہ ہے رفاہی و فلاحی منصوبوں پر
کام کر رہا ہے۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ترجمان سلمان شاہد کی جانب سے
موصول ہونے والی سالانہ رپورٹ2014کے مطابق فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پاکستان
بہبود انسانی اور رفاہ عامہ کے منصوبہ جات کا آغاز کر چکی ہے تاکہ عوام کے
مسائل کم کیے جا سکیں۔ معاشی آسودگی، طبی سہولیات و تعلیمی امور کے ساتھ
ساتھ دیگر اصلاحی و تعمیری سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے کو ایسی مثبت سوچ
فراہم کی جائے جسے اختیار کر کے ہر فرد ملت اسلامیہ کی تعمیر و ترقی میں
ایک مضبوط کردار ادا کر سکے۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پاکستان نے ابتدائی
طورپر رفاہ و فلاح کے منصوبہ جات کا آغاز کیا ہے۔وطن عزیز کی زیادہ تر
آبادی بنیادی سہولیات صحت سے قاصر ہے دیہاتوں اور پسماندہ علاقہ جات میں تو
مستند ڈاکٹرز اور ادویات کا تصور ہی محال ہے سرکاری ہسپتال اور ادارے آبادی
کے تناسب سے ناکافی ہیں غیر سرکاری علاج معالجہ اس قدر مہنگا ہے کہ ملک کی
اکثر آبادی اس کے اخرجات ہی برداشت نہیں کر سکتی۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے
ہسپتالوں، میڈیکل سنٹرز، کلینکس اور ڈسپنسریوں کے ذریعے مریضوں کو ان کے
دروازے پر تشخیص علاج اور دوا میسر آتی ہے۔ فاؤنڈیش کے ملک بھر
میں168ہسپتال و میڈیکل سنٹر ہیں جن سے سالانہ13,10,850 افراد مستفید ہوتے
ہیں۔جن آبادیوں اور بستیوں میں مستقل ادارے قائم نہیں کیے گئے ان دور
افتادہ اور پسماندہ جگہوں پر موبائل میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں کیمپ کی
تشہیر پورے علاقے میں کی جاتی ہے۔گزشتہ ایک سال میں 4,554میڈیکل کیمپ لگائے
گئے جن میں26,22,942 افراد مستفید ہوئے۔ہیپاٹائٹس انتہائی موذی مرض ہے جس
کی تشخیص اور علاج بہت مہنگا ہے۔ پاکستان میں 10فیصد لوگ اس مرض میں مبتلا
ہو چکے ہیں کسی بھی ادارے یا حکومت کی طرف سے اس کے تدارک اور علاج کے لیے
باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن ہر شہر میں اس کی
آگاہی اور شعور کے لیے سیمینارز منعقد کر رہی ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسی
نیشن اور ہیپا ٹائٹس سی کی تشخیص اور علاج مستند ڈاکٹرز سے کروایا جاتا ہے۔
ملک بھر کے 83شہروں میں کیمپ لگا کر9,69,357افراد کی ویکسی نیشن کی
گئی۔ضرورت مند مریضوں کے لیے بروقت فراہمی خون ایک اہم مسئلہ ہے کچھ مفاد
پرست عناصر نے اس ضرورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خون فروشی کا دھندہ شروع کر
دیا ہے اور خون کی مکمل اسکیننگ کے بغیر اسے فروخت کر رہے ہیں اسی وجہ سے
ہیپاٹائٹس جیسے موذی امراض عام ہو رہے ہیں خون کے یہ تمام ٹیسٹ غریب آدمی
کی پہنچ سے باہر ہیں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے بلڈ بنک میں تازہ او رمکمل
اسکین کیا گیا خون بروقت موجود ہوتا ہے جو ضرورت مند اور مستحق افراد کو
مہیا کیا جاتا ہے۔870بلڈ ڈونر سوسائیٹیز کام کر رہی ہیں۔آنکھیں قدرت کا
حسین تحفہ ہیں ان کی حفاظت انسانی ذمہ داری ہے وسائل کی کمی کی وجہ سے جس
طرح دیگر بیماریوں کا علام معالجہ مشکل ہے اسی طرح پاکستان کی نصف آبادی
آشوب چشم میں مبتلا ہے۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے ایک چیلنج سمجھ کر اس کو
قبول کیا اور مریضوں کو اپنے پاس بلانے کی بجائے خود ان کے دروازے پر جا کر
خدمات سر انجام دیں اس پروگرام میں مریضوں کی آنکھوں کا معائنہ جدید
کمپیوٹرائزڈ مشینوں کی مدد سے کیا جاتا ہے اور جن مریضوں کو آپریشن کی
ضرورت ہوتی ہے انہیں آپریشن کے ذریعے لینز بھی ڈالے جاتے ہیں۔8,133 فری
آپریشن کئے گئے جبکہ سال2013میں آئی کیمپ سے مستفید افرادکی تعداد59,340
ہے۔کسی بھی مریض یا زخمی یا حادثہ کے متاثرہ افراد کے لیے سب سے اول اور
اہم بروقت طبی امداد کی فراہمی ہے۔ اس کے لیے ایمبولینس سروس کی افادیت اور
اہمیت کسی بھی ذی شعور سے مخفی نہیں اس مسئلہ کے پیش نظر ملک بھر میں فلاح
انسانیت فاؤنڈیشن کے زیر انتظام ایمبولینس سروس کا آغاز کیا گیا ہے۔
مریضوں، زخمیوں اور میتوں کی منتقلی کے علاوہ آفات میں ہنگامی مدد اور
میڈیکل کیمپنگ کا سہرا بھی ایمبولینس سروس کے سر ہے۔ ملک بھر
میں170ایمبولینس گاڑیا ں کام کر رہی ہیں جن سے سالانہ 24,050 افراد مستفید
ہوتے ہیں۔پنجاب کی جیلوں میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی طرف سے قیدیوں کی
فلاح و بہبود اور تربیت کا پروگرام جاری ہے یہاں آئی، ڈینٹل، سرجیکل، سکن،
شوگر، میڈیکل اور ہیپاٹائٹس کے علاوہ دیگر بیماریوں کے کیمپ بھی لگائے جاتے
ہیں، الیکٹرک واٹر کولر اور پمپ ، پنکھے، لباس اور دیگر ضروریات زندگی بھی
فراہم کی جا رہی ہیں۔ جرمانوں کی ادائیگی میں بھی تعاون کیا جا رہا ہے ،
قیدیوں کو مترجم قرآن مجید، تفاسیر، احادیث، دینی کتب اور دیگر لٹریچر بھی
پہنچایا جاتا ہے۔ افطار الصائم پروگرام کے تحت ہر سال رمضان المبارک میں
10ہزار سے زائد افراد کے سحر و افطار کا بندو بست کیا جاتا ہے جس میں
مہاجرین ، ورثاء شہداء ، قحط زدہ افراد، سیلاب زدگان، دینی مدارس کے طلباء
، غرباء ، قیدی اور یتامیٰ شامل ہیں۔ دنیا بھر میں پینے کا صاف پانی سنگین
مسئلہ بن چکا ہے مگر پاکستان میں 85فیصد افراد کو یہ سہولت سرے سے حاصل ہی
نہیں ہے۔ تھرپارکر، بلوچستان میں آج بھی عوام جوہڑ کا پانی پینے پر مجبور
ہے۔ اور پانی کی اس بار برداری پر عورت کو ہی مقرر کیا گیا ہے حقوق انسانی
کی تنظیمیں اور رفاہی ادارے ان غریب اور قحط زدہ لوگوں سے چشم پوشی اختیار
کیے ہوئے ہیں۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن فراہمی آب کے منصوبہ جات کو مسلسل
جاری رکھے ہوئے ہے۔سندھ، بلوچستان، سرحد اور کشمیر کے مختلف علاقوں میں
واٹر پروجیکٹ کے تحت2341کنویں، ہینڈ و الیکٹرک پمپ لگائے گئے ہیں۔عید
الاضحی کے موقع پرقربانی پروگرا م کے تحت ہزاروں متاثرین میں گوشت تقسیم
کیا گیا،متاثرین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے62لاکھ روپے کی نقد
امدادبھی متاثرین میں تقسیم کی گئی۔بلا شبہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے
رضاکار ملک و قوم کی خدمت کر کے اﷲ رب العزت کے ہاں سرخرو ہو رہے ہیں۔خدمت
کے اس عظیم کام کو جاری رکھنے کے لئے پاکستانی قو م نے ہمیشہ فلاح انسانیت
فاؤنڈیشن کا ساتھ دیا اور تعاون کرتی رہی ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی
ہے۔اہل پاکستان کو نیکی کے اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہو گا،تا کہ
فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے جو منصوبہ جات جاری ہیں انکو پورا کیا جا سکے۔ |