اکثرسیاسی پارٹیوں نے پاکستان کو
گزشتہ کچھ عرصے سے میدانِ کارزار بنا رکھا ہے ،مگر اس ملک کے دانشوران اور
عوام خاموش اور ہمہ تن گوش رہے حتہ کہ یہ موشگافیاں ہونا شروع ہو گئیں کہ
درپیش تنازعہ کو خوش اسلوبی سے حل ہونا چاہیئے مگر حکومت نے کسی سوچی سمجھی
تدبیر کے تحت کوئی خاص اور نتیجہ خیزحکمت عملی اختیار نہ کی جس کے سبب ملک
میں سیاسی ابتری پیدا ہو گئی اور تاحال جاری ہے۔ یہ انتشار، لاقانونیت اور
سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اس ملک کے لیے نئی بات نہیں ،جو بھی بر سر اقتدار آیا اس
کو ایسے ہی ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ صرف آمریت کے دور میں بوجہ
پریشر اس انتشار میں کمی دیکھی گئی۔اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں
تو جناب آصف علی زرداری نے مصالحت اور درگزر کی سیاست کو اپنایا ،کیونک
انھیں اقتدار حادثاتی طور پر عطا ہوا تھا اس لئے انھوں نے نہ صرف یہ کہ ڈٹ
کر وقت گزارا بلکہ من مانیوں اور مفاد پرستیوں میں بھی کوئی اپوزیشن پارٹی
ان کا ہاتھ نہ پکڑ سکی کیونکہ انھوں نے اپنے حریفوں کے لیے بھی’’ کچھ لو
اور کچھ دو‘‘ کی پالیسی اختیار کی ، ہر طرح کی احتسابی کاروائی پس پشت ڈالی
اور عوام کو مایوس چھوڑ کر اپنے دور حکومت کو مکمل کیا ۔اس کے برعکس مسلم
لیگ (ن) کے دور حکومت کے آغاز میں ہی دانشوروں کا یہ کہنا تھا کہ میاں صاحب
نے Power Politics کا آغاز کیا ہے۔ ان کے کارکردگی میں کوئی انقلابی سوچ کا
نام و نشان نہیں ہے وہ بس یہ دیکھ رہے ہیں کہ اگر یہ Candidateاچھا ہے،اس
کا دھڑا اچھا ہے تو اس کو لے آئیں ۔اور جہاں ایسا امیدوارمیسر نہ آسکا پھر
انھوں نے اقابت داروں کو ذمہ داریاں سونپ دیں ۔ جس سے آزاد اور معتبر آرا
کا فقدان ہو گیا اور موجودہ حکومت تعمیری سرگرمیوں پر کم اور انتقامی
سرگرمیوں پر زیادہ توجہ دینے لگی۔کہتے ہیں کہ جب فیل بانی عام ہو جائے تو
چیونٹیاں کچلی جائیں تو کسی کو فرق نہیں پڑتا، تو یہی وطیرہ ان کے مصاحبوں
نے عام اپنا لیا ۔
مگر جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو خوف ختم ہو جاتا ہے ،اور یہی ہوا انہی کے ہم
عصر عمران خان جن کے سیاسی انداز اور فکر نے نئے انداز اور نئی جہتوں کو
متعارف کروایا اور نوجوانوں کو سیاست میں لیکر آئے اسی وجہ سے ان کا ووٹ
بینک اتنا بڑھا کہ انھوں نے تمام سیاسی پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔خان
صاحب نے (ن) لیگ کے ساتھ مل کرسیاسی کھیل شروع کیا تھا ،مگرانھیں شاید کسی
نے کہہ دیا کہ مسلم لیگ (ن) کی مبہم اور غیر واضح نتائج پر مبنی سیاست سے
عوام خوش نہیں اور ایسے میں اگر وہ چاہیں تو ’’وزیراعظم‘‘ بن سکتے ہیں ۔اور
خان صاحب نے اپنی ذمہ داریوں کو بھلا کر دھرنا اور جلسہ سیاست کا آغاز کر
دیا ۔خان صاحب کی جماعت کیونکہ اکثریتی طورپرنو جوانوں کی جماعت تھی جن میں
اکثریت کا دامن پاک تھا۔اس لیے عوام ان کی طرف کھنچے چلے گئے مگر اب ہردور
کا متنازعہ سیاست دان بھی انھیں قبول ہوتا ہے۔جس طرح کے افراد کے وہ خلاف
تھے آج ان کو خوش آمدید کہتے ہوئے وہ فخر محسوس کر رہے ہیں ۔مقام الم تو یہ
ہے کہ غرباء کے لیے اٹھائی گئی آواز پھر احتجاج سے ممکنہ نجات کے کسی حل کی
صورت میں ختم ہوتی نظر آرہی ہے ۔ ایسے میں ان کے دھرنوں کے نتائج تاحال
مشروط ہیں ۔مگر اس ساری حکمت عملی نے خان صاحب کی سیاست کو کتنا نقصان
پہنچایا وہ بھی الگ بحث ہے ،آج سوال یہ ہے کہ ان کی دھرنا سیاست نے جو موڑ
اختیار کیا ہے وہ اس ملک کی ڈوبتی ناؤ کو کتناسنمبھالا دے گا اور اس ملک کے
عوام کو کتنا ریلیف ملے گا ۔جبکہ ان کا پلان سی تو یہ ظاہر کر رہا ہے کہ
بناغورو فکر کے اس کو مرتب کر کے عوام کو پیش کر دیا گیا ہے ۔
آج دانشوران وطن ہی نہیں ان کے ہم نوا بھی سر جوڑے یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا
پاکستان واقعی ایسے حالات سے گزر رہا ہے کہ خاں صاحب کے کہنے پر پورا ملک
بند ہو جائے گا ۔ ۔بالفرض بند ہو بھی گیا ،کیونکہ اگر حالات ہی ایسے پیدا
کر دئیے گئے جیسا کہ شیخ رشید پہلے متنبع کر چکے ہیں کہ گھیراؤ،جلاؤ اور
پورے پاکستان کو آگ لگا دونگا ۔تو اس بندش سے متاثر کون ہوگا ؟ نقصان کس کا
ہوگا ؟ جبکہ فائدہ ہوتا دور دور تک کہیں نظر نہیں آرہا کیونکہ خان صاحب جس
قدر پر عزم ہیں ،حکومت دباؤ کا شکار ہونے کے باوجود اسی قدر ثابت قدم نظر
آرہی ہے ۔یہ الگ بات کہ کرسئی اقتدار بیچ منجھدھار ہے ۔تجارت اور صنعت و
حرفت سے تعلق رکھنے والے افراد نے تو حکومت سے سیکیورٹی کی اپیل بھی کر دی
ہے اور وہ اس کال پر زیادہ خوش نظر نہیں آتے ،تاجر برادری اگر اس فیصلے پر
متفق ہوگئی تو کیا ہوگا ؟یہ بات تو نوشتہ دیوار ہے کہ عوام موجودہ حکومت کی
حکمت عملیوں سے نالاں ہیں ،کیونکہ حکومت نے کئے وعدے پورے نہیں کئے اور
آسمان سے چاند تارے توڑ کر لانے جیسے دعووں میں مصروف ہیں جبکہ ملک کے
حالات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں ۔
مہ و مہر پر ڈالونہ کمندیں
انساں کی خبر لو جوسہک رہا ہے
مگر حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں،مست مئے پندار ہیں ۔نتیجتاً بجھے چراغ
،لٹی عصمتیں ،معصوم لاشیں اور اجڑا چمن اس قوم کی قسمت ٹھہرا ۔آج حالات کی
ابتری کی ذمہ دار بلا شبہ تمام جماعتیں ہیں ،اور آئندہ بھی ملک کو جن
گھمبیر مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا اس کی ذمہ دار سب جماعتیں ہی ہونگی۔اس
وقت حالات متقاضی ہیں کہ اس بکھرے انبوہ کو مناسب اور دانشورانہ حکمت عملی
کے ذریعے سمیٹا جائے کیونکہ حالات اس اون کے گولے کے طرح الجھ گئے ہیں جس
کو ٹھیک طرح سے نہ پکڑا جائے توہاتھ سے گر کر اس قدر الجھ جاتا ہے کہ اگر
دانشمندی اور حوصلہ مندی سے نہ سلجھایا جائے تو دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں ۔مگر یہ
بھی ایک المیہ ہے کہ یہاں مصالحت کروانے والے نہ جانے مصالحت کروانے میں
ناکام کیوں ہو جاتے ہیں اور اگر یہ کسی طرح سے یقین کر لیا جائے کہ اگر
مصالحت کار مخلص ہو کر یہ کام کریں تو یقیناناکام ہونے کی صورت میں کم ازکم
دو چار دن گزرنے کے بعد وہ یہ تجویز تو دیں کہ یہ کام ہم سے نہیں ہو پایا
آپ کسی دیگر مصالحت کروانے والے کو یہ موقع دیں کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ
ملک کے اندر اس بحران کا حل کسی سے بھی نہ نکلے ۔ہاں اگر تمام قائدین منافق
اوربد نیت ہیں تو پھر یقیناوہ ہوگا جو وہ چاہتے ہیں۔ یہ واضح نظر آرہا ہے
کہ برسر اقتدار لوگ ،اقتدار میں کسی مداخلت کو برداشت کرنے کے لیے تیار
نہیں اور اقتدار سے محروم قائدین، لمبی باتیں اور متنازعہ باتیں کر کے اس
اقتدار کو سمیٹنا چاہتے ہیں ان تمام حالات میں پاکستان کے عوام کا ہر طرح
کا کس حد تک نقصان ہو رہا ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے ۔اور یہ نقصان
تاحال جاری ہے ،یوں لگتا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنی جنگ میں اس حد تک
مدہوش ہیں کہ وہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ ان کی نا عاقبت اندیش حکمت عملیوں
نے ملک وقوم کو کہاں لا کھڑا کیا ہے بلاشبہ سیاسی پارٹیوں کی جنگ عوام کے
لیے سزا بن چکی ہے۔ اورایسے میں خاں صاحب کا پلان سی کیا رنگ لائے گا اور
موجودہ حکومت اس میں کیا رکاوٹ بن پائے گی یا عوام ایک بار پھر مشق ستم
بنیں گے اور خوں کی ہولی کھیلی جائے گی؟؟؟ اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا
۔مگر یہ بات طے ہے کہ گڈ گورنس کے فقدان نے حالات کو اس نہج پر پہنچایا ہے
اگر گڈ گورنس مہیا کی جاتی تو دھرنا سیاست کی نوبت نہ آتی نہ ہی عوام بد ظن
ہوتے،اور نہ ہم اقوام عالم میں تماشا بنتے ۔ |