محترمہ بینظیر بھٹو، ایک شخصیت، ایک سیاستدان

ستائیس دسمبر کو پاکستان میں مقبول سیاسی لیڈر بے نظیر بھٹو کے قتل کی دوسری برسی

ہر طرف سناٹا سا چھایا ہوا تھا، ہو کا عالم اور سڑکوں پر بھیڑ اتنی کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، یا الٰہی ماجرا کیا ہے؟ شام کے وقت جب دفتر سے گھر کی راہ لی تو ہر طرف دھوئیں کے بادل دکھائی دئیے، ہر طرف لوگوں کا جم غفیر تھا کہ حیرت کی انتہا نہ رہی، لاہور کی سڑکوں پر اتنا ہجوم پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، چہروں سے لگتا تھا کہ جیسے گہری خاموش نگاہیں کسی غیر یقینی کا شکار ہیں اور سوالیہ نشان بنے خلا میں کچھ ڈھونڈ رہی ہیں، ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ پہلے تو کبھی اسطرح کی کیفیت اور معاملہ دیکھنے کو نہ ملا تھا۔

بے خبری کا عالم تھا، کیونکہ آج خبریں سننے کا اتفاق نہ ہو سکا۔ میرا خیال تھا کہ اس علاقہ میں کوئی گھمبیر واقعہ ہو گیا ہے جو ساری آبادی امڈ آئی، مگر جب ایک سڑک سے دوسری سڑک تک آیا تو کوئی تبدیلی نظر نہ آئی اور ہر طرف ایک سا سماں تھا، میرا چہرہ سوالیہ نشان بن گیا کہ ایسی کونسی افتاد ٹوٹ پڑی کہ ہر طرف لوگ ہی لوگ جمع ہیں۔ ملکی پیمانے پر کوئی بات لگتی ہے جو اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں مگر عرصہ دراز سے ہمارے ملک میں تو سیاست تو دفن ہو چکی تھی کیونکہ آمریت کا دور دورہ تھا، البتہ ایک نئی بساط پچھائی گئی اور سارے مہرے نئے سرے سے امپورٹ کیے گئے تھے، عوام میں نئے سرے سے جمہوریت کی صدا بلند کی جارہی تھی، انہی سوچوں میں مگن میں نے ایک مجمع کے پاس گاڑی روکی اور پوچھا بھی ماجرا کیا ہے؟ تو وہ شخص حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا جیسے میں نے کوئی عجیب سی بات کر دی، اور غمناک لہجے میں بولا ” آپکو نہیں پتا کہ آج محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل ہو گیا” ، اسکی بات سن کر مجھے واقعی بہت صدمہ ہوا جیسے کہ فیملی کا کوئی فرد انتقال کر گیا ہو، اس شخص سے دوسرا سوال کیا کہ ” کیا آپ سب لوگ پیپلز پارٹی کے ہیں ؟” تو وہ بولا بھئی میں اور میرے دوست کسی پارٹی سے نہیں مگر ہمیں اس واقعہ کا گہرا صدمہ ہوا ہے اور افسوس کی خاطر جمع ہوئے ہیں کہ ” اس بات سے قطع نظر کہ محترمہ ایک خاتون تھیں، وہ ایک نڈر، عظیم لیڈر، کامیاب شخصیت اور سیاسی لیڈر تھیں”۔

27 دسمبر، 2007۔ پاکستان کی سحر انگیز شخصیت کی مالک سابق وزیرِ اعظم، بے نظیر بھٹو کو ان کی انتخابی مہم کے دوران قتل کر دیا گیا۔ انھوں نے ملک سے فوجی حکومت ختم کرنے اور جمہوریت بحال کرنے کا عہد کیا تھا۔ پھر ان کے شوہر آصف علی زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی نے فتح سے ہمکنار کروایا اور گزشتہ سال پرویز مشرف کے سبکدوش ہونے کے بعد وہ ملک کے صدر بن گئے۔ آج ستائیس دسمبر کو پاکستان میں مقبول سیاسی لیڈر بے نظیر بھٹو کے قتل کی دوسری برسی پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دو سال قبل آج ہی کے دن، پاکستان کی دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی بے نظیر کو راولپنڈی میں انتخابی جلسے کے بعد ایک خودکش حملہ آور نے گولیاں مار کر قتل کردیا گیا تھا۔ ان کے قتل سے جڑے معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ مقامی تحقیقی اداروں کے علاوہ برطانیہ کے سکاٹ لینڈ یارڈ، امریکہ کی ایف بی آئی کے علاوہ اقوام متحدہ کے خصوصی تحقیقاتی کمیشن نے بھی سانحہ کی تفتیش میں حصہ لیا۔ برسی کے موقع پر مرحوم بے نظیر بھٹو کے شوہر صدر آصف علی زرداری بھٹو کے آبائی خاندان گڑھی خدابخش میں مرکزی تعزیتی تقریب سے خطاب کریں گے۔ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر ان کی ہلاکت کی جگہ پر یادگار تعمیر کرنے کے انتظامات کو حتمی شکل دیدی گئی ہے۔ یادگار کا سنگ بنیاد اتوار کو رکھا جائے گا۔

لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زرداری کی حکومت بہت کمزور ہے۔ تجزیہ کار ملک کی خراب اقتصادی حالت اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس میں مسٹر زرداری اور ان کی کابینہ کے کچھ ارکان کے خلاف کرپشن کے کیس دوبارہ کھولنے کے لیے کہا گیا ہے ۔ ملک میں وکلا ء اور بہت سے عام پاکستانیوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔ جہاں تک دو برس قبل بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان میں جمہوریت کا تعلق ہے، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتِ حال مِلی جُلی ہے۔ حالات اب بہت بہتر ہیں کیوں کہ پاکستان میں اب سویلین انتظامیہ ہے، عدلیہ بحال ہو چکی ہے اور عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے نزدیک پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں اب تک مضبوط نہیں ہوئی ہیں۔ سویلین حکومت کو جمہوری ادارے تعمیر کرنے اور کرپشن پر قابو پانے کے لیے تیزی سے کارروائی کرنی چاہیے۔

ملک پاکستان میں اگر ایک طرف ادارے مضبوط ہو رہے ہیں تو دوسری طرف سیاسی کھیل بھی جاری ہے، دعا گو ہیں کہ پاکستان کو ایسے اچھے لیڈر ملیں جو اس ملک کو انتشار اور بدامنی کے فضا سے نکال کر پرسکون اور کامیابی کی راہ پر ڈال سکیں اور جس مقصد اور بنیادوں ہر یہ ملک آزاد ہوا تھا کہ “مسلمان اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں” اور پاکستان کی اساس اسلامی بنیادوں پر ڈالی گئی ، اس پر قائم رہتے ہوئے عوام کے مسائل حل کر سکیں، آمین!

الطاف گوہر کا بلاگ | https://altafgohar.wordpress.com
Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 164714 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.