یوں تو این آ ر او پر عدالتی
فیصلہ آنے کے بعد ہی ملک میں نئی سیاسی محاذ آرائی کی پیشن گوئیاں کی جانے
لگی تھی لیکن اس فیصلے کے بعد صورتحال سے نمٹنے کے لیے پیپلز پارٹی کی
سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی منصوبہ بندی اور اس اجلاس کے
بعد پارٹی کی جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر کی بڑھکوں کے ساتھ گورنر پنجاب
سلمان تاثیر اور سینئر صوبائی وزیر راجہ ریاض احمد کی جانب سے سامنے آنے
والے سخت ترین بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ پیشن گوئیاں حقیقت میں تبدیل
ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے اگرچہ اس
اجلاس میں بھی حسب عادت ”میں نہ مانوں“ پالیسی اختیار کرتے ہوئے تمام
الزامات کو بے بنیاد کہہ کر ان کا عدالتوں میں سامنا کرنے کا مژدہ سنایا ہے
لیکن دوسری جانب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بہر صورت عدالتی فیصلے پر
عمل کے عزم کا اعادہ کر رہے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جو آنے والے دنوں میں
نئے سیاسی اٹ کھڑکے کی بنیاد بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
بات اگر پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس یا پھر وزیر اعظم
سید یوسف رضا گیلانی کے دعوﺅں تک محدود رہتی تو شاید سیاسی بیان بازی ہی
کہلاتی لیکن پارٹی کے سرگرم ترین رہنما اور پنجاب میں سینئر وزارت پر
براجمان راجہ ریاض کی جانب سے اب کی بار سندھ کے بجائے پنجاب میں لاش جانے
کی باتوں سے جہاں اقتدار ہاتھ سے جانے کی صورت میں پیپلز پارٹی کے کسی بھی
انتہائی اقدام کر گزرنے کی دھمکی تصور کیا جا رہا ہے وہیں گورنر پنجاب
سلمان تاثیر کی جانب سے ”صدر 2018 تک استعفیٰ نہیں دینگے “ کے بیان اور
عدلیہ کو حد میں رہنے کے نئے مشورے کو بھی مبصرین سلگتی آگے کے کسی بھی وقت
ایسے شعلوں میں تبدیل ہونے کے اشارے قرار دے رہے ہیں جو جمہوریت کی بساط کو
راکھ میں تبدیل کر دیں گے۔
نواز شہباز کے ”حملہ “ کی صورت میں بھر پور جواب اور پیپلز پارٹی کو ”سیاسی
مغل اعظم“ قرار دینا بھی خاصی معنی خیز تصور کیا جارہا ہے کیونکہ سیاسی
ماہرین کے مطابق ایسے بیانات سیاسی آمریت کے ساتھ ساتھ استعفوں سمیت مختلف
مطالبات کرنے والوں کے لیے کھلم کھلا چیلنج ہیں اور یہ بھی یہی ثابت کررہے
ہیں کہ اب کی بار بر سر اقتدار جماعت تمام کشتیاں جلا کر میدان میں اتر چکی
ہے جبکہ عدالتی فیصلے کے بعد حکومت میں شامل این آر او زدگان ( بشمول صدر
آصف علی زرداری)پر استعفوں کے لیے بڑھتے ہوئے دباﺅ کے ساتھ ساتھ پیپلز
پارٹی کا رد عمل بھی شدید ہوتا جارہا ہے۔ دوسری جانب حکومت خود بھی اسی ڈگر
پر چل رہی ہے اور استعفوں کے مطالبے کرنے والی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عدالت
عظمیٰ کے فیصلوں سے انحراف اسی سلسلہ کی کڑی ہے جس کی ایک مثال واضح عدالتی
احکامات کے باوجود تاحال ڈی جی ایف آئی اے کو بحال نہ کرنا ہے جو کسی بھی
وقت عدالت کے نوٹس لیے جانے پر بھی اداروں کے نئے تصادم کی راہ کر سکتا ہے
جو موجودہ حالات میں کسی بھی صورت ملکی یا جمہوری مفاد میں نہیں ہوگا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ جمہوری روایات کی علمبردار ہونے کی دعویدار پیپلز پارٹی
اس کی اپنی ہی بد قسمتی سے بگڑے معاملات کو جمہوری طرز عمل ہی سے سلجھانے
کی کوشش کرتی اورجمہورکی رائے کا احترام کرتے ہوئے کم از کم این آر او
زدگان ارکان حکومت کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ کر ان سے باعزت طور پر معذرت
کر لیتی لیکن کیا کیجئے کہ گرمی بازار دیکھنے کے شوق میں جنون کی حد تک
مبتلا پارٹی قیادت اور حکومت ابن الوقت مشیروں کی زد میں ہے اور اسی وجہ سے
مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں، وزیر دفاع احمد مختار
کو نیب احکامات کے باعث چین روانگی سے روکنے پر سیکرٹری داخلہ کی برطرفی
اور خود وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جانب سے ”وزیر داخلہ رحمن ملک کو
کوئی گرفتار نہیں کر سکتا“ کے الفاظ پر مشتمل بیان بھی حقائق کی تلخی کا
خماز ہے جو اسی سمت اشارہ کر رہے ہیں کہ اپنی روٹیاں پکی کرنے کے چکر میں
حکمران جماعت کے مشیر اسے محاذ آرائی کی ایک ایسی دلدل میں دھکیل رہے ہیں
جس سے نکلنا اس کے لیے ممکن نہیں رہے گا جبکہ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ
پارٹی کے تجربہ کار لیڈر بھی نا تجربہ کاروں کی کشتی میں سوار ہوکر محاذ
آرائی ہی کی سیاست کو ”منزل“ سمجھ کر ایسے بھنور کی طرف بڑھ رہے ہیں جو سب
کچھ ملیا میٹ کرسکتا ہے۔
معلوم نہیں پیپلز پارٹی کو امریکی حمایت کا زعم ہے یا پھر سے ہمدردی کے ووٹ
ملنے کی غلط فہمی، کہ وہ صرف اور صرف ”جو ہم کر رہے ہیں وہی درست ہے“ کی
پالیسی پر عمل پر اپنے تئیں صحیح سمت اپنائے ہوئے ہے لیکن پارٹی قیادت کو
ذہن میں رکھنا چاہئے کہ پوری ملکی تاریخ میں اس طرح کی پالیسیاں اختیار
کرنے والوں کو عبرتناک سیاسی انجام ہی سے دوچار ہونا پڑا ہے، جیالے دوستوں
کو یقین نہ آئے تو پوری تاریخ کی ورق گردانی کے بجائے صرف اپنے پیش رو
پرویز مشرف ہی کا دور دیکھ لیں، تمام غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی البتہ اگر
حقائق کے باوجود آپ کو محاذ آرائی ہی بہتر راستہ دکھائی دیتی ہے تو اپنی
ڈگر پر چلتے رہے، نتائج آپ کی توقع سے زیادہ جلدی آپ کے سامنے آجائیں گے۔ |