صدر کی نوڈِیرو کی 150فارن ہائیٹ
والی تقریراور ناقدین
صدر کا عزم پاکستان کھپے اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا انکشاف
قائد جمہوریت متحرمہ بےنظیر بھٹو شہید کی دوسری برسی کے موقع نوڈیرو میں
صدر مملکت آصف علی زرداری کی تقریر جس کے بارے میں نہ صرف ملک بھر کے سیاسی
مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی ہی ایک مشترکہ رائے ہے بلکہ عالمی سطح کے بھی
بعض سیاسی تبصرہ نگار اِس ایک نقطے پر متفق نظر آتے ہیں کہ آصف علی زرداری
کی یہ تقریر فرسٹریشن میں مبتلا کسی حکمران جماعت کے شریک چیئرمین کی تھی
یا کسی آزاد اور خودمختار ملک کے صدر کی تقریر جو 150 فارن ہائیٹ سے بھی
کہیں زیادہ ٹیمپریچر میں کی گئی تھی۔ جس میں اُنہوں نے ملک کی ساڑھے سترہ
کروڑ عوام کو درپیش مہنگائی، صحت، خوارک اور پینے کے صاف پانی کے حصول جیسے
مسائل کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اِنہیں ایک طرف رکھ کر صرف اپنی حکومت
کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ہی بے نیام کیا تھا۔ جس میں اُنہوں نے اپنا
انتہائی جذباتی اور جوشِیلہ انداز اپناتے ہوئے اتنا کچھ کہا کہ ایسا لگا کہ
وہ آج کے دن اور موقع کا بھرپُور فائدہ اُٹھا کر اپنا مقدمہ عوام کی عدالت
میں رکھ رہے ہیں اور پاکستانی عوام کو یہ باور کرانے کی بھی سعی کررہے ہیں
کہ اِن کی حکومت جو عوام کے مسائل کا مداوا تو کرنا چاہتی ہے مگر وہ کیا
کرے؟ کہ اِن کی حکومت کے لئے ہر طرح کی مشکلات اور پریشانیاں کھڑی کی جارہی
ہیں اور اِن کی حکومت کے خلاف ہر طرف سے سازشیں کی جارہی ہیں اُنہوں نے کہا
کہ اِن تمام اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود وہ اور اِن کی جماعت پاکستان پیپلز
پارٹی ہر طرح کے چیلنچ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں اور پاکستان پیپلز
پارٹی شہیدوں کی وارث جماعت ہے اور ہم آج بھی اِس ملک کی بقا و سالمیت کے
خاطر کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اِس موقع پر اُنہوں نے
حسبِ عادت ایک بار پھر یہ کہا کہ بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کھپے
کا نعرہ لگانا میرا فرض تھا اور یہی میرا قصور تھا کہ میں نے پاکستان کھپے
کا نعرہ لگایا اِس کے علاوہ اُنہوں نے اِس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شہید
متحرمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد غیر ریاستی عناصر کا ارادہ پاکستان
توڑنے کا تھا مگر میں نے اُس وقت پاکستان کھپے کا فلک شگاف نعرہ لگایا اور
ملک کو آنے والی مشکلات سے بچایا اِن کا کہنا تھا کہ اگر میں پاکستان کھپے
کا نعرہ نہ لگاتا تو شائد ابھی نقشہ کچھ اور ہوتا اور اِس کے ساتھ صدر
مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ ملک توڑنے کے لئے اداروں کے خلاف سازشیں کی
جاتی ہیں اور جب کسی ملک کے ادارے ٹوٹ جائیں تو پھر نہیں بنتے اُنہوں نے
یہاں افغانستان اور عراق کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان اور عراق میں
پہلے ادارے کمزور کئے گئے اِس کے بعد آج وہاں کی صورتِ حال دنیا کے سامنے
ہے اُنہوں نے کہا اِن ممالک میں نہ وہاں فوج ہے نہ پولیس ہے نہ ہی وہاں
جمہوریت ہے اور نہ وہاں کوئی قانون ہے اور آج ہمیں اِسی طرح کی پاکستان میں
بھی اداروں کو کمزور کرنے کی سازشوں کا علم ہے اِس کے بعد اُنہوں نے بڑے
پُر عزم انداز سے کہا کہ ہمیں پاکستان میں اداروں کی تحفظ کی لڑائی کرنا
آتی ہے اور ہم کسی بھی صورت میں یہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان میں ادارے
کمزور ہوں اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے کہا کہ اُس دن سے ڈرو جب سب شہید
ہوجائیں اور کوئی بچانے والا نہ ہو اُنہوں نے کہا کہ ہم نے کسی کا حق چھینا
ہے؟ اور نہ کسی کو حق چھیننے کی اجازت دیں گے؟ اُنہوں نے یہ بھی کہا کسی نے
جمہوریت کے خلاف میلی آنکھ سے دیکھا تواِس کی آنکھ نکال لیں گے۔
یہاں میرے خیال سے صدر کی اِس تقریر کا دوسروں کے نقطہ نگاہ سے زاویہ کچھ
بھی ہو مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ صدر مملکت نے اپنی اِس تقریر میں اپنے
دوست نما دشمن امریکا کو واضح طور پر متنبہ کیا اور اِس کے ساتھ ہی انُہوں
نے اپنے اُن اینٹی بھٹو دشمنوں پر بھی یہ واضح کردیا ہے کہ وہ ملک اور
جمہوریت کے خلاف اپنی سازشیں بند کر دیں اور اِس کے علاوہ اُنہوں نے اپنی
تقریر میں اُن عناصر کو بھی خبردار کیا ہے کہ جو ملک میں رہتے ہوئے حکومت
اور جمہوریت کے خلاف طرح کی طرح باتیں کر کے حکومت اور اداروں کے خلاف اپنا
کمزور پہلو پیش کر کے حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں
اگرچہ اُنہوں نے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا وہ ایک محب وطن پاکستانی کی دل
کی آواز ہے اور یہ سب کچھ اِس حقیقت کا بھی اعتراف ہے کہ صدر مملکت آصف علی
زرداری پاکستان اور پاکستانی قوم کے لئے مخلص ہیں اور یہ اور اِن کی جماعت
پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے ہر وہ کام کرنے کے لئے ہمہ وقت
تیار ہے جس سے ملک مسائل کی دلدل سے نکلے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے۔
اور جہاں تک صدر مملکت کی اِس دھواں دھار تقریر کی بات ہے جس کے بارے میں
سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار کھلی تنقید کرتے ہوئے نہیں تھک رہے ہیں اور وہ
یہ کہہ رہے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی تقریر 150فارن ہائیٹ سے بھی زائد
ٹیمپریچر پر پہنچ کر کی ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اُنہیں(ناقدین کو) ایسی
باتیں نہیں کرنی چاہئے کہ جس سے کچھ بھی حاصل نہ ہو۔اور اِن کی اِس قسم کی
باتوں اور تبصروں سے سِوائے بحث برائے بحث کی راہیں اپنا منہ کھولے کھڑی
ہوجائیں اور ملک میں ایک سیاسی بھونچال پیدا ہوجائے۔ اور حکومت کو اپنے
اُمور کی انجام دہی میں قدم قدم پر مشکلات درپیش ہوں جائیں۔ جبکہ میرے میرے
مطابق صدر نے اپنی تقریر میں جو لب ولہجہ استعمال کیا ہے تو یہ اِس وقت اور
موقع کا تقاضہ تھا اگر وہ اِس وقت بھی گرم جوشی سے اپنے جذبات کا مظاہرہ نہ
کرتے تو پھر کب کرتے .....؟ یہ سوچنے کا لمحہ ہے اُن لوگوں کے لئے جو صدر
مملکت کی تقریر پر طرح طرح کی تنقیدیں کررہے ہیں۔
لہٰذا میں یہاں یہ سمجھتا ہوں کہ َابھی ضرورت اِس امر کی ہے کہ ناقدین صدر
کی تقریر پر تبصرہ کرنے اور ہوا میں تیر چلانے سے اجتناب برتیں اور آئندہ
چند ایک دنوں تک اِن کی تقریر کے آنے والے ثمرات کا انتظار کریں کہ وہ ملک
اور قوم کے لئے مثبت اثرات لئے ہوئے ہے یا منفی۔ اُس وقت موازنہ کریں اور
اِن کی تقریر پر کُھل کر اپنا اچھایا تنقیدوں بھرا تبصرہ ضرور کریں تو بجا
ہوگا۔ ورنہ صدر کی اِس پُر اثر تقریر پر یوں تبصروں سے کچھ بھی حاصل نہیں
ہوگا۔
ہاں البتہ! یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی اِس تقریر کا
جو ایک سب سے کمزور پہلو رہا وہ یہ تھا کہ اُنہوں نے اپنی اِس تقریر میں
مسائل کی دلدل میں دھنسی ہوئی عوام کو یکسر نظرانداز کر کے اپنی تقریر کو
تبصرہ نگاروں کے لئے تنقید کرنے کے لئے کُھلا چھوڑ کر اپنی حکومت اور پارٹی
کی ساکھ پر انگلی اٹھانے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ جو حکومت اور خود
صدرمملکت کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ عوام کی فلاح و بہود اور خوشحالی
کے لئے اپنی جان قربان کردینے والی ملک کی عظیم قائد متحرمہ بےنظیر بھٹو
شہید کی برسی کے موقع پر صدرمملکت نے غالباً دانستہ طورپر اپنی تقریر میں
عوام کو درپیش مسائل کے حل کی بات نہ کرکے عوام کو مایوس تو کیا ہی ہے اور
اُدھر ہی شائد اُنہوں نے ایسا کر کے عوامی لیڈر متحرمہ بےنظیر بھٹو شہید کی
روح کو بھی ضرور تڑپا دیا ہوگا۔ |