سات خون معاف

حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا تھا اگر دریا ئے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوک اور پیاس سے مر گیا تو اﷲ تعالیٰ کے حضور قیامت کے دن میں جوابدہ ہوں گا۔ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ ملک شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو راستے میں اُن کو ایک خیمہ نظر آیاوہ اپنی سواری سے اُتر کر خیمے کے قریب گئے تو ایک بڑھیا نظر آئی آپؓ نے اُس سے پوچھا ۔ کچھ خبر ہے عمرؓ کا کیا حال ہے؟ بڑھیا نے جواب دیا وہ شام کے سفر پر روانہ ہو چکا ہے لیکن خدا اُسے غارت کرے آج تک مجھے اُس کی طرف سے ایک درہم بھی نہیں ملاہے یہ سن کر آپ ؓ نے فرمایا اتنی دور کا حال عمرؓ کو کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟ بڑھیا بولی رعایا کا حال نہیں معلوم تو خلافت کیوں کرتا ہے؟ یہ سن کر آپ ؓ بے اختیار رو پڑے اور بڑھیا سے معافی مانگی اور اُسکی مدد فرمائی ۔ حصرت ابو بکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں لنگرتقسیم ہو رہا تھا اور لاتعداد لوگ اس کے اچھے کھانے سے مستفید ہو رہے تھے ہر شخص اپنا حصہ لے کر آگے بڑھ جاتا تھاایک شخص نے دو انسانوں کا لنگر مانگاتو تقسیم کرنے والے نے پوچھاکہ دو انسانوں کے لیے کیوں مانگ رہے ہواس نے کہاایک اپنے لیے اور ایک اُس غریب اور مسکین آدمی کے لیے جو دور کونے میں بیٹھاروکھی روٹی پانی سے کھا رہا ہے لنگر تقسیم کرنے والے نے جواب دیاجو یہ لنگر سب کھا رہے ہیں وہ اُس ہی شخص کی طرف سے تقسیم کیا جا رہا ہے وہ ہمارے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہے-

لیکن اب اس طرح کے حکمران ہم کہاں سے لائیں جن کے دور حکومت میں اگر ایک کتا بھی بھوک یا پیاس سے مر جائے تو وہ اپنے آپ کو قصور وار سمجھیں جو خود تو روکھی روٹی پانی میں بھگو کے کھائیں اور غریب اور مسکین لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا دیں سند ھ کے دارالحکومت سے صرف سات سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھرجہاں اب تک ایک سو پچیس بچے بھو ک کی وجہ سے سندھ کے حکمرانوں پر قربان ہو چکے ہیں اور سندھ کے وزیر اعلی اسمبلی کے فلور پر فرماتے ہے کہ مرنے والے تما م بچے بھوک کی وجہ سے نہیں بلکہ غربت کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں کیا کہنے سرکار کے قائم علی شاہ صاحب نے تو بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اسلم رئیسانی کی یاد تازہ کروا دی جن کے بقول ڈگری ڈگری ہوتی ہے خواہ وہ اصلی ہو یا جعلی لیکن اس میں قصور قائم علی شاہ صاحب کا بھی نہیں کچھ اُن کی عمر کا تقاضا ہے اور کچھ اُن کی پھُرتیاں، یہ ان کی پھُرتیاں ہے یا شاہ صاحب کی کرامات کہ کچی شراب پی کر ہلاک ہونے والوں کو بھی شہید کے درجے پر فائز کر دیتے ہیں ہو سکتا ہے کل وہ یہ بھی ارشاد فرما دیں کہ موت کا وقت مقرر ہے اس لیے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے لوگوں کے قاتل بھی بے گناہ ہیں اور حکومت وقت بھی ذمہ دار نہیں اور اس کو بھی آپ شاہ صاحب کی کرشمات میں شمار کر سکتے ہے جو تھر جانے والی گندم کی بو ریوں میں سے مٹی برآمد ہوئی اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر یہ شاہ صاحب کاکا رنامہ ہے معذرت کار نامہ نہیں کرشمہ تو پھر اُس گودام کے انچارج کو کیوں معطل کیا گیاتو اس کی وجہ یہ تھی کی پیرو مرشد یہ نہیں چاہتے کہ اس عمر میں اُن کے ناتواں کندھوں پر اور بوجھ پڑے اور سندھ کی دھرتی پر اُن کے مریدوں میں اضافہ ہو کیونکہ اس عمر میں(یہ شاہ صاحب کا اصل کارنامہ ہے) صرف سیاست کے ذریعے ہی عوام کی خدمت کی جاسکتی ہے پیری مریدی کے ذریعے نہیں ویسے بھی سید ہونے کے ناتے اُن کو سات خون معاف ہیں لیکن تھر میں تو اب تک ایک سو پچیس بچے اور چوبیس مرد اور عورتیں قحط کی نظر ہو چکے ہیں پریشانی کی بات یہ ہے شاہ جی باقی ایک سو اٹھارہ کا حساب دنیا میں نہ سہی قیامت کے دن تو پھر بھی دینا ہی پڑے گااس قحط کے دوران شاہ صاحب پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ تھر کے متاثرین کی مدد کے لیے جاتے ہے تو پچاس پچاس گاڑیوں کے قافلے میں اوروہاں رنگ برنگے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں تو جناب یہ افوہ بھی دشمن کی اڑائی ہوئی ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ بھوکے ننگے لوگوں کے دکھ کی وجہ سے پیرو مرشد کا لقمہ منہ میں ڈالنے کوبھی دل نہیں چاہتا لیکن غریب لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے زندہ تو رہنا پڑتا ہے اور زندہ رہنے کے لیے کھانا تو پڑتا ہی ہے ایک صاحب ہے شرجیل میمن صاحب جن کے بقول تھر میں ہونے ولی ہلاکتیں اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں تھا جتنا بڑا مسئلہ میڈیا نے بنا دیا ہے میمن صاحب فرماتے ہے دو بچوں کے مرنے پر میڈیا نے واویلا مچا دیا حالانکہ پاکستان میں روز چھ سو بچے ویسے ہی مر جاتے ہیں تو جناب وہ جو چھ سو بچے روز مر جاتے ہیں اُس کے قصور وار بھی آپ لوگ ہی ہے عوام آپ کو اپنے ووٹوں سے منتخب کر کے اسمبلیوں میں اس لیے نہیں بھیجتے کہ آپ اس ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹیں اور اس ملک کی عوام کا مستقبل داوٗپر لگا دیں بلکہ اس لیے بھیجتے ہیں کہ آپ لوگ اس ملک کی عوام کو غربت ، بے روزگاری، جیسے مسائل سے نجات دلا سکیں اور آپ تھر میں بھوک سے مرتے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے مٹھی کے ریسٹ ہاوس میں تیس تیس وزیروں اور مشیروں کی فوج کے ساتھ مرغن کھانوں سے لطف اندوز ہو کر ان ہی تھر کے باسیوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں پھر بھی اگر بار بار آپ لوگ ہی منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچ جائیں ، تواس کا مطلب ہے کہ عمران خان ٹھیک ہی کہتا ہے کہ سندھ کے باسی آپ کے غلام ہیں کاش عمران خان کے غلام کہنے پر اسمبلی میں قراردادمذمت منظور کرنے کی بجائے آپ لوگ یہ قرار داد پیش کرتے جب تک تھر میں بسنے والے لوگوں کو اس بے بسی کی موت سے نجات نہیں مل جاتی تمام ارکان اسمبلی تھر میں ہی براجمان رہیں گے اور اپنی تنخواہ اور الاونسزتھر کے لوگوں کے لیے وقف کر دیں گے لیکن پھر یہ کس طرح پتا چلتا کہ اس قوم کے باسی آپ کے غلام ہیں صرف غلام اس جمہوریت میں رعایا حاکم نہیں محکوم ہیں-

سندھ حکومت کی بے حسی اور نا اہلی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ آج تک سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو طاقتور اپوزیشن کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑاسندھ کی قوم پرست جماعتیں ہمیشہ اپوزیشن کا مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہیں وہ آج تک دھرتی ماں کی تقسیم اور کالا باغ ڈیم جیسے ایشو سے آگے ہی نہیں بڑھ سکیں اُن کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں آ سکی کہ سندھ کے مزارے اور ہاری زندہ رہیں گے تو دھرتی ماں کا وجود بھی قائم رہے گاسندھ کی دوسری سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ جب اُس کے ذاتی مفادات پر ضرب لگے تو پھر مہاجریت کی چادر اُوڑھ کراپوزیشن کاکردار ادا کرتی نظر آتی ہے ورنہ کراچی اور حیدر آباد کو ہی اپنے زیر سایہ رکھ کراور کچھ وزارتیں لے کر شانتی کا جھولا جھولتی رہتی ہے مسلم لیگ (ن) پنجاب میں تحریک انصاف کے تابڑ توڑ حملوں کی زد میں ہونے کی وجہ سے سندھ کی سیاست کو مکمل طور پر بھول چکی ہے اُس کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ باقی ملک میں کیا ہو رہا ہے وہ صرف اور صرف سونامی کی تباہ کاریوں سے اپنے قلعہ پنجاب کو بچانے کے لیے تگ ودو کر رہی ہے پاکستان تحریک انصاف پنجاب اور کراچی میں اپنے قدم جمانے کے بعددیہی سندھ کی طرف اپنی توپوں کا رخ کر چکی ہے اور لگتا اس طرح ہے جس طرح سید یوسف رضا گیلانی کی نوازشات ، راجہ پرویز اشرف کی مہربانیوں اور آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہو چکی ہے اب قائم علی شاہ کی کرامات کی بدولت پاکستان تحریک انصاف سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی -
Raja Waheed
About the Author: Raja Waheed Read More Articles by Raja Waheed: 20 Articles with 14750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.