پاکستان کی یکجہتی پر قر بان۔ عظیم تھے وہ لوگ

(سقوظِ مشرقی پاکستان16دسمبر 1971کے حولے سے خصوصی کالم)

سقوطِ مشرقی پاکستان دنیا کی تاریخ کا کوئی معمولی سانحہ نہ تھا فلک نے دیکھا لیلۃالقدر کو رمضان المبارک کی 27،ویں شب کو معرج وجود میں آنے والی مملکتِ خدا داد پاکستان جس کے باسیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے سنُت بنوی کی پیروی کرتے ہوئے اس ملک کی بنیادوں میں اپنے پرُکھوں کا لہو ڈالا ۔تاکہ یہ نئی بننے ولی اسلای مملکت زندہ و سلامت رہے تا قیامت رہے۔یہ مملکتِ خداداد اسلامی دنیا کی سب سے بڑی مملکت تھی۔جس کے قیام کا نعرہ ہی ’’پاکستان کا مطلب کیا لا اﷲ الا ﷲ ‘‘ تھا۔اپنے مفادات حاصل کرنے کی غرض سے اور ہوسِ اقتدار کے لالچیوں نے اس پاک سر زمین کو پارہ پارہ کرنے میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالااور اس مملکتِ خداداد کو دولخت کر کے پاکستان کے ابدی دشمنوں کو شادمانی کا پیغام دیا۔مگر تایخ بہت ہی بے رحم ہے ۔جس نے اس کے کھیل کے تمام کھلاڑیوں کو ایسا عبرت ناک انجام دیا کہ آئندہ پاکستان پر بری نظریں ڈالنے والوں کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ قدرت ایسے لوگوں کی نسلوں کے راستے نا پید کر دے گی جیسا کہ ماضی میں ہوا۔

پاکستان کے دولخت کرنے والے اس بر صغیر کے تین کردار اہم تھے۔اندرا گاندھی، شیخ مجیب الرحمن اور ذولفقار علی بھٹو۔ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ یہ تینوں کردار نا تو طبعی موت مرے اور ناہی ان تینوں کی نسل چلنے کے لئے ان کی اولادِ نرینہ رہیں۔اور ان تینوں کرداروں کا انجام نہایت ہی عبرت ناک ہوا اندرا گاندھی اور ان کا بیٹا راجیو گاندھی قتل کئے گئے کوئی اولادِ نرینہ نہیں ہے۔مجیب الرحمنٰ کی پوری فیملی قتل کی گئی اور کوئی اولادِ نرینہ نہیں ہے۔ذولفقارعلی بھٹو کو پھانسی چڑھایا گیا اور دو بیٹے قتل کر دیئے گئے اور کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے۔

اندرا گاندھی جو ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جاہر لال نہرو کی بیٹی تھی۔پاکستان سے نفرت اس کی گھٹی میں میں شامل تھی۔یہ ہندوستان کی وہ وزیر اعظم تھیں جس نے مجیب الرحمٰن کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش تیار کی تھی۔16،دسمبر 1971 ، کوہندوستان نے اپنی فوجوں اور روسی مدد کے ذریعے جارحیت کر کے پاکستان کو دو لخت کر دیا تو اس نہرو کی بیٹی نے میڈیا پر آکر اعلان کیا تھا کہ آج میں نے دوقومی نظریہ اپنے پیروں تلے روند دیا ہے۔مگر یہ سازشی عورت خود ہندوستان کے لوگوں کے پیروں تلے روندی گئی اور اس کے پاکستان سے متعصب بیٹے راجیو گانھی کا بھی یہی حشر دنیا نے دیکھا۔کیا پاکستان کے خلاف سازش کرنے والوں کو اس بات کا ادراک ہے؟اگر ادراک نہیں تھا تو آج یہ بات گراہ میں باندھ لو کہ پاکستان پر بری نظرڈالنے والوں کا بھیانک انجام ہوگا ۔تاریخ میرے اس قول کی شہادت کے لئے موجود ہے!

بنگلہ بنُدھو شیخ مجیب ا لرحمٰن جو کبھی قائد اعظم کا شیدائی تھا اور قائد اعظم سے ملنے کے لئے ڈھاکا سے سائیکل پر سوار ہوکر اپنے قائد سے ممبئی ملنے کے لئے آیا تھا۔ مگر اس قائد اعظم کے محب کوہمارے اپنے فوجی ٹولے نے پاکستان کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر دیا۔کیونکہ مغربی پاکستان کا فوجی ٹولہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو ان کا حق دینے کے لئے تیا نہ تھا۔فوج میں بنگالی کو یہ کہہ کر رجیکٹ کر دیا جاتا کہ اس کا قد چھوٹاہے اور سینہ چوڑا نہیں ہے۔تمام ہی بیوروکریٹ مغربی پاکستان سے لئے جاتے ۔جو مشرقی پاکستان میں خوب کھُل کھیلتے تھے۔فوج اور پاکستان کی بیورو کریسی میں بنگالی نہ ہونے کے برابر تھے۔مشرقی پاکستان کی بد حالی کا یہ علم تھا کہ اکثر بنگالی خواتین غربت و افلاس کی ماری گھروں میں دو وقت کے کھانے پر ملازم رکھی لی جاتی تھیں۔مشرقی پاکستان کی مفلوک الحالی کا تصور کریں تو سینہ پھٹ جائے گا۔کیا کیا مظالم نہ تھے جو ہم مغربی پا کستان والوں نے ان بنگالیوں پر نہیں ڈھائے تھے؟اس کے باوجو د ان محب پاکستان بنگال کے لوگوں کے روز گار کے دروازے بند تھے وہ پھر بھی پاکستان سے محبت کرتے تھے۔

اب آیئے1970،کے انتخابات پر، کہا جاتا ہے کہ مجیب الرحمان سے جنرل یحیٰ خان نے یہ یقین دہانی حاصل کر لی تھی کہ انتخابات میں کامیاب ہو جانے کے بعد وہ اس فوجی ڈکٹیٹر کو ہی صدرِ پاکستا رہنے دیں گے۔مجیب الرحمان نے اپنے مشہور 6 ،نکات کی بنیاد پر الیکشن لڑا اور بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی ۔قریباََ (200)دو سو نشستوں پرمجیب الرحما ن کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ان کے مقابلے میں ذوالفقار علی بھٹوجو صرف مغربی پاکستان سے انتخابات لڑے تھے۔غالباََ 83 ، نشستوں پر اکامیابی حاصل کی جمہور ی اقدار کے تحت وہ کسی طرح بھی پاکستان کا اقتدار حاصل کر نے کے اہل نہ تھے ۔مگر ہوسِ اقتدار میں انہیں جمہوریت کے بجائے صرف آمریت سوٹ کر رہی تھی۔جس کی وجہ سے انہوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد نہیں ہونے دیااور اعلان کر دیا کہ جو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے ڈھاکہ جائیگا اُس کیی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اور پھر بھی وہ شہیدِ جمہوریت کہلائے۔دوسری جانب فوجی اشرافیہ بھی مشرقی پاکستا ن کے پستہ سینوں اور چھوٹے قد کے حامل افراد کو اقتدار کی منتقلی میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔مجیب الرحمان چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ اقتدار عوامی لیگ کے حولے کرو کہ جمہوریت کا یہ ہی تقاضہ ہے ۔عومی لیگ کے 6، نکات کوئی قرآنی حکم نہیں ہے کہ جنہیں بدلہ نا جاسکے۔مشرقی پاکستان میں بنگالیوں نے سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیا۔ جلاؤ گھراؤ شروع ہوا تو فوجی ایکشن کے نتیجے میں بنگالیوں کا قتلِ عام شروع ہوا اور عزتیں لُوٹی گئیں،نفرتوں کا بازار گرم ہوا تو بنگالیوں کی عسکری تنظیم مکتی باہنی کے نام سے را نے منظم کرادی ۔ جس کے مقابلے کے لئے جماعت اسلامی جو اس وقت بنگال کی مضبوط ترین سیاسی قوت تھی نے اپنے فوجیوں اور مشرقی پاکستان کے دفاع کے نام پر دو تنظیمیں ’’البدر اور الشمس ‘‘کے نام سے مکتی باہنی اور ہندوستانی ایجنٹوں کا مقابلہ کرنے کی غرض سے بنا کر میدان میں اتار دیں۔ہندوستان کے اس مسئلے میں ملوث ہونے کی وجہ سے بھیانکنتائجسامنے آئے اور مشرقی پاکستان ہندوستان کی فوجی جارحیت کے نتیجے میں 16،دسمبر 1971 کو پاکستان سے الگ کرا دیا گیا۔

ذولفقار علی بھٹو انگریز کے سر بنائے گئے شازہ نواز بھٹو کے فرزند تھے۔قیامِ پاکستان کے وقت سر شاہ نواز بھٹو جو جونا گڑھ اسٹیٹ کے وزیر اعظم(دیوان) تھے۔جونا گڑھ نے آزادی کے بعد پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تو سر شاہ نواز بھٹو نے اس الحاق کی شدت سے مخالفت کی جسکے نتیجے میں ہندوستان نے جونا گڑھ پر فوجی جارحیت کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی طرح قبضہ کر لیا۔سر شاہ نواز بھٹو کے فرزند زیڈ اے بھٹوجو مغرب کے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے ۔پاکستان کے آمر اول جنرل ایوب خان کے دستِ رات بن کر سیاست کے افق پر نمودرا ہوئے۔اس بوٹ بردار کو ذوالفقار علی بھٹو ڈیڈی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔جنہوں نے اپنے دوسرے باپ سے ناخلفی کر کے پاکستان کی سیاست میں ایک ہلچل پیدا کردی تھی ۔جبکہ مشرقی پاکستان پہلے ہی بے بیچینی کا شکار تھا۔ایوب خان کا اقتدار ختم ہوا تو یہ ایک جنرل یحیٰ خان کو ملک میں دوسرا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لگا کر اور کشمیر کے مسئلے پر مزید الجھنیں پیدا کر کے اقتدار کے ایوانوں سے رفو چکر ہوا۔یہ حقیقت ہے کہ جنرل یحیٰ خان نے ملک میں پہلے منصفانہ انٹخابات تو کرائے مگرفوجی شرافیہ کو مضبوط کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہااور ذوالفقار علی بھٹو کے ٹانگیں توڑنے کے نعرے کے پیش نظر پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہونے دیا ۔جس کی و جہ سے ہندوستان کو پاکستان پر حملہ کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا تھا۔امشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کی وجہ سے پاکستان کی یکجہتی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔

اس مسئلے کے تیسرے اور اہم کردار ذولفقار علی بھٹو کا حشر بھی اندرا گاندھی اور مجیب الرحمان سے مختلف نہیں تھا۔اس بات سے قطع نظر کہ بھٹو کو کس الزام کے تحت پھانس پر چڑھایا گیا ؟مگر ان کی موت بھی غیر طبعی ہوئی تھی ۔اسی طرح ان کے صاحب زدگان بھی غیر فطری موت مارے گئے بڑا بیٹامیر مرتضیٰ بھٹوبہن بے نظیر بھٹوکی وزارت عظمیٰ میں قتل کیا گیا۔ مگر اس کے قاتل نہ پکڑے گئے دوسرا بیٹاشاہ نواز نشے کی حالت میں پاکستان سے باہر مردہ پایا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو کی اولاد نرینہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بھی سلسلہ نسل منقطع ہو کر رہ گیا ہے۔پاکستان کی بربادی کے تینوں کرداروں کا انجام غیر فطری ہوا ۔اس لئے ہم ایسے نا عاقبت اندیشوں کو مشورہ دیتے ہین کہ وہ پاکستان کی تخریب کرنے سے پہلے اپنے انجام پر بھی نظر کرلیں ۔کیونکہ یہ مملکتِ خداداد ہے ربِ کائنات اس کے دشمنوں سے اس دنیا مین ہی خود بدلہ لیتا رہا ہے -

قابلِ تحسین ہیں وہ لوگ جو اپنی سرزمین کی حفاظت کے صلے میں آج تک قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ اﷲ رب العزت ان کی قربانیوں کو شرفِ قبولیت بخشے۔حسینہ واجد چن چن کر ان لوگوں کا عدالتی قتل کروا رہی ہے جنہوں نے پاکستان حمایت کی اور اپنے وطن کا دفاع کیا۔اگر وطن کا دفاع کرنا جرم ٹہرا دیا جائے تو دنیا کی آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو موت کے گھاٹ اتار دیاجائے گا۔ جنہوں نے اپنے وطنِ عزیز کی حفاظت کی ۔ایسا لگتا ہے کہ ماضی کا جاہلانہ دور ایک مرتبہ پھر اس دنیا میں آچکا ہے ۔ہم اس شیطان صفت عورت سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کیا دنیا کے کسی اور ملک نے بھی اپنے وطن کی حفاظت میں میدان میں نکلنے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے؟
Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 213055 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.