ہدایات برائے بحالی شناخت
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
یہ 1970کے ابتدائی دنوں کی بات
ہے ملک میں انتخابی مہم کی سرگرمیاں زور شور سے شروع ہو چکی تھیں ایک عام
پاکستانی کی حیثیت سے ہم تمام سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کا جائزہ لے
رہے تھے جماعت اسلامی کی انتخابی مہم چھائی ہوئی تھی جماعت کے اس طرح چھا
جانے اور عوامی سطح پر بھرپور پذیرائی کی وجہ ملک کے دو طبقوں میں ایک خوف
کی لہر دوڑ گئی ایک طبقہ تو سرمایہ داروں کا تھا جسے اپنے مفادات خطرے میں
نظر آرہے تھے دوسرا طبقہ ان مولویوں اور علمائے کرام کا تھا جن کے روزی
روزگار مسجد مدرسے کہ علاوہ ان ناخواندہ لوگوں سے بھی وابستہ تھے جو ان
مولویوں کی اطاعت کو ہی اپنا دین و مذہب سمجھتے تھے ۔ہم دوست آپس میں کالج
سے واپسی پر ان ہی موضوعات پر بحث ومباحثہ کرتے تھے ایک دن میں نے اپنے ایک
دوست سے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی آنے والی ہے ۔اس دوست
نے کھٹ سے جواب دیا کہ ارے آتی ہے تو آجائے ہم تو پہلے ہی سے پانچ وقت کی
نماز پڑھتے ہیں ۔یعنی اس کے ذہن میں یہ بات تھی جماعت آئے گی تو سب کو نماز
پڑھنا پڑے گا ۔ایک وقت تھا کہ جب کوئی جماعت اسلامی کا کارکن ہواور وہ نماز
کے وقت مسجد میں نظر نہ آئے اس کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔اب اس میں
خاصی کمی آ گئی ویسے تو ایک بات یہ بھی ہے جب کوئی جماعت عوامی سطح پر وسعت
اختیار کرتی ہے تو نئے آنے والوں کی تر بیعت میں کچھ وقت تو لگتا ہے ۔اسی
طرح ہمارے یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم کی اپنی ایک اہمیت تھی جو لوگ جماعت کے
کارکن بنتے تھے وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود اپنے والدین کے ساتھ ہی رہنے کو
ترجیح دیتے تھے ۔جیسے آج کل کوئی کسی پروگرام میں نہیں آتا تو یہ عذر سننے
کو ملتا ہے کہ اہلیہ کی طبیعت خراب ہے جب کہ پہلے یہ عذر سننے کو ملتا تھا
کہ والدہ کو ڈاکٹر کے یہاں لے کر گئے تھے اس لیے تاخیر ہو گئی ۔اب زمانے کی
قدریں تبدیل ہورہی ہیں تو دینی گھرانوں میں شادی کے بعد والدین سے علیحدہ
ہو کر رہنے کے رجحانات بڑھتے جارہے ہیں جوائنٹ فیملی میں کام تقسیم ہوجاتے
تھے اور تحریک کے لیے بھی کچھ وقت مل جاتا تھا الگ رہنے اور روز بروز بڑھتی
ہوئی مہنگائی نے معاشی اور خانگی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ کر دیا جس کی
وجہ سے اب تحریک کے لیے وقت ہی نہیں مل پاتا ۔جماعت اسلامی میں داخل ہونے
کے کئی ذریعے تھے جس میں سب سے بڑا ذریعہ مولانا کے لٹریچر تھے جس میں اب
بھی اتنی قوت ہے کہ وہ جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔یہ لٹریچر ہی کا کمال ہے
کہ جس نے اپنے پڑھنے والوں کو دین کا فہم اور شعور عطا کیا ،ان کی قربتوں
اور دوریوں کے پیمانے تبدیل کیے ،ان کے ذوق و مزاج کو بدلا تو ان کی
دلچسپیوں کے رنگ بھی بدل گئے اس کے ساتھ ہی قران کو سمجھ کر پڑھنے اور اس
پر عمل کر نے کاجذبہ اور شوق بیدار ہوا ورنہ اس سے پہلے تو محض تلاوت ہی پر
اکتفا کر لیا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے جماعت اسلامی کے کارکن کے
لیے صبح نماز فجر کے بعد مطالعہ قران اتنا ہی ضروری تھا جتنا اس کے لیے
ناشتہ ۔یہ قران کا مطالعہ اس کو یہ قلبی سکون فراہم کرتا تھا کہ اسلامی
نظام کی جدوجہد کے لیے جو کچھ وہ کررہا ہے یہی مطلوب و مقصود ہے۔اب اس میں
بہت کمی آ گئی ہے ۔نماز کی پابندی سے اہل محلہ سے اس کا رابطہ رہتا تو
دوسری طرف قران سے تعلق کی بنا پر اس کے اندر عاجزانہ اخلاق پید ا ہونے کی
وجہ سے وہ کارکن مرجع خلائق بن جاتا وہ اگر ایک طرف دینی کارکن ہوتا تو
دوسری طرف وہ سیاسی ورکر بھی ہوتا تیسری طرف ور سماجی کارکن بھی ہوتا ان
تینوں خصوصیات کی وجہ سے آبادی کے لوگ اپنے مسائل کے لیے اس سے رابطہ رکھتے
وہ بھی کمزوروں کی مدد کرکے خوش ہوتا ایک دفعہ ہمارے حلقے میں ایک بدنام
زمانہ شخص نے جو پولیس سے بھی نکالا ہواتھا اپنے بچوں کے ساتھ مل کے محلے
کے ایک غریب آدمی کو اس کے گھر میں گھس کر مارا اور پھر اپنے اثرورسوخ سے
الٹا اسے ہی گرفتار کرا دیا ،جماعت نے اس کیس کو اٹھایا اور نہ صرف اس کو
رہا کروایا بلکہ تھانے پر ایک اجتماعی دباؤ پیدا کر کے اس شخص کے خلاف
اقدام قتل کا مقدمہ بنا کر گرفتار کرایا ،ان سارے کاموں کا ایک فوری نتیجہ
تو یہ نکلتا کہ اس کارکن کا رابطہ وسیع ہوتا اور طویل المعیاد فائدہ یہ
ہوتا کہ اس کی ذاتی خوبیوں سے جماعت کے ووٹرز میں ازخود اضافہ ہوجاتا
۔معاشرے میں ایک پہچان اس کی یہ بھی بن جاتی تھی کہ یہ کارکن جو کہتا ہے وہ
کرتا ہے یہ کبھی جھوٹے وعدے نہیں کرے گا وہ بولے گا تو ہمیشہ سچ بات ہی
بولے گا ۔آبادی میں اس کے بارے میں یہ تاثر کبھی قائم نہیں ہوتا کہ یہ
جھوٹے لوگ ہیں ۔جماعت اسلامی پر اعتماد کا یہ حال تھا اور الحمداﷲ اب بھی
ہے کہ کٹر سے کٹر سیاسی مخالفین بھی عید الاالضحی میں اپنی قربانی کھالیں
جماعت کو دیتے تھے ۔جماعت کے کارکن جب اپنے پروگراموں میں دن رات مصروف
رہتے تو انھیں اس بات کی فرصت ہی نہیں مل پاتی تھی کہ کسی کی غیبت اور چغل
خوری کر سکیں ۔مطالعہ قران و لٹریچر انھیں ہر دم یہ احساس دلاتا رہتا کہ
اپنے کسی بھائی کی غیبت مرے ہوئے بھائی کے گوشت کھانے کے مترادف ہے اس لیے
کے اس کے پا س ایسے بیسیوں افراد کی فہرست ہوتی جن سے انھیں روز کتابیں
لینا اور دینا ہوتیں ۔وہ جب شام کو اپنے کام سے گھر واپس آتا تو تھیلے میں
لٹریچر لے کر بستی ور محلے میں نکل جاتا پھر رات گئے گھر لوٹتا خود ہی
باورچی خانے سے اپنے لیے کھانا نکالتا اور ٹھنڈے دال یا سالن جو بھی ہوتا
اسے کھا کر سو جاتا کہ گھر والے پہلے ہی سوچکے ہوتے ہیں ۔جماعت کے اندر اس
چیز کا تو تصور ہی محال تھا کہ کسی کی ناجائز آمدنی بھی ہو سکتی ہے ۔اس
پورے تناظر میں آپ دیکھیں کے سہ روزہ اجتماع عام کے آخری دن امیر جماعت
پاکستان نے اپنی اختتامی تقریر میں کارکنوں کیا ہدایات دی ہیں پہلی یہ کہ
پانچوں وقت کی نماز بہ جماعت ادا کریں، والدین کا احترام کریں ،روزآنہ قران
کی تلاوت کریں ،کمزوروں کا ساتھ دیں ،جھوٹ چھوڑ دیں ،غیبت سے پرہیز کریں
،رزق حرام کے قریب بھی نہ پھٹکیں اور یہ کہ سو ووٹرز تیار کریں ۔
پروگرام کے تیسرے دن آٹھواں سیشن" پیغام قرآن و سنت "میں شیخ القرآن و
الحدیث مولانا عبد المالک صاحب نیـ " اپنے اور اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ "کے
موضوع پر درس قرآن دیا جب کے اسی سیشن میں توبہ النصوح ۔۔۔نئی زندگی مولانا
اسلم صدیقی کی تقریر ہوئی ۔نواں سیشن " تعمیر پاکستان"کے عنوان سے تھا جس
میں قیم جماعت اسلامی پاکستان جناب لیاقت بلوچ نے " وطن کو ہم عظیم سے عظیم
تر بنائیں گے "نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں محمد اسلم صاحب نے"
انقلاب بذریعہ انتخاب " امیر جماعت اسلامی کراچی جناب حافظ نعیم الرحمن نے"
شہریوں کے مسائل اور شہری ترقی "سینئر وزیر بلدیات صوبہ پختون خواہ عنایت
اﷲ صاحب نے "بلدیاتی ادارے اور عوام کا اختیار "کے موضوعات پر تقریر کیں
دسویں اختتامی سیشن میں امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر عبد الرشید صاحب نے "
کشمیر پاکستان کی شہ رگ "امیر جماعت اسلامی پنجاب ڈاکٹرسید وسیم اختر صاحب
نے "پنجاب،اسلامی انقلاب کا دل " امیر جماعت اسلامی سندھ جناب ڈاکٹر معراج
الھدیٰ صاحب نے " سندھ،باب الاسلام "امیر جماعت اسلامی خیبر پختون خواہ
جناب پروفیسرابراہیم صاحب نے " فاٹا و خیبر پختون خواہ ،اسلامی پاکستان کا
قلعہ " امیر جماعت اسلامی بلوچستان جناب عبدالمتین اخوند زادہ نے "
بلوچستان، پاکستان کی شان" کے موضوعات پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا .
اجتماع عام کا آخری خطاب امیر جماعت جناب سراج الحق کاتھا جس کی اہم باتیں
کارکنوں لیے وہی تھیں ویسے انھوں نے بڑی جامع اور بھر پور تقریر کی جس میں
ہر موضوع پر بات ہوئی اب کچھ ذکر شہر لاہور کا ہو جائے تقریباَ آٹھ سال بعد
لاہور جانا ہوا تو لاہور کی ترقی حیران کر دینے والی تھی ہم شہباز شریف
صاحب سے کتنا ہی سیاسی اختلاف رکھیں لیکن ایمانداری سے یہ بات ماننا پڑے گی
انھوں نے پنجاب کا نقشہ بدل کے رکھ دیا اور ابھی ترقیاتی کام جاری ہیں
میٹرو بس ایک شاندار تحفہ ہے البتہ لاہور کا ٹریفک بڑا منہ زور ہے رکشے اور
چنچی والے تو آنکھ بند کرکے گھسے چلے آتے ہیں آپ کو خود ان سے بچنا ہوگا ۔
سب سے آخر میں ہم کراچی کے سکرٹری اطلاعات ذاھد عسکری بھائی کا خصوصی شکریہ
ادا کریں جنھوں بڑی محبت اور اپنی دلآویز مسکراہٹوں کے ساتھ نہ صرف سفر کی
مشکلات کو آسان کیا بلکہ دوران سفر تمام صحافی حضرات کے لیے توا ضع کا
معقول انتظام بھی کیا اور شرکاء سفر کے آرام کا بھی خیال رکھا ،اﷲ اس کی
انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین |
|