ریاست جموں کشمیر میں چار مختلف
افکار سے وابستہ لوگ بستے ہیں ،الحاق ہندحقیقی ونمائشی ،الحاق پاکستان
حقیقی و نمائشی ،آزادی و خود مختاری کے سچے پیروکار اور محض نمائشی وخود
نمائی کے حامل آزادی پسند۔ریاست کے بھارت سے ملنے والے صوبہ جموں کے کچھ
علاقے جہاں بدھ مت اور ہندوؤکی اکثریت ہے بھارت کیساتھ رہنا پسند کرتے ہیں
جن کی تعداد نہایت کم ہے جب کہ بھارت کے زیر کنٹرول تمام علاقوں میں بظائر
ایک بڑی تعداد الحاق بھارت کی حامی کہلاتی ہے یہ تمام لوگ محض سیاسی مفادات
اور وہاں نافذالعمل نظام حکومت سے مراعات کے حصول اور شراکت اقتدار کی غرض
لئے اس فکر کو اپنائے ہوئے ہیں جو ایک سطحی سی بات ہے۔ چالیس و پچاس کے
عشرے میں پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر وبلتستان میں اکثریت حقیقی طور پر
پاکستان سے الحاق کی متمنی تھی لیکن یہاں مفاداتی سیاست کا آغاز ہوتے ہی
بڑی تبدیلی آئی اور الحاق پاکستان کی سوچ سکڑ کر انگلیوں پر گنے جانے والے
اعدادوشمار تک محدود ہو گئی اور پھرزاتی مفادات ومراعات کے حصول کی خاطر
الحاق پاکستان کا نعرہ لگانے والوں کی تعداد اکثریت میں بدل گئی اور یوں
دونوں حصوں میں موجود مفاداتی و روائتی سیاست نے علاقے میں مسائل میں اضافہ
کیا اورنتیجتاً عوام ریاست کی وحدت و احیا ء کو ہی عوامی مسائل کا حل ماننے
لگے اور یہ تعداد بڑھتے بڑھتے اکثریت میں پہنچ گئی اور آج بھارتی و
پاکستانی زیر کنٹرول پوری ریاست میں ۸۵ فیصد عوام یہ مانتے ہیں اورریاست کے
تمام اہل علم ودانش اس بات پر یک زبان ہیں کہ الحاق ہند و پاکستان سمیت
کوئی بھی طبقہ فکر ناں تو مسئلہ کشمیرکے حل سے مخلص ہے ناں ہی ایسی کسی سوچ
کی بنیاد پر جنوبی ایشا ء کا یہ اہم ترین مسئلہ حل ہو سکتا ہے ماسوائے کہ
کشمیری نیشنلزم ہی واحد راستہ ہے جس کی بنیاد پر اس منقسم قوم کو منزل
آزادی و واحدت مل سکتی ہے ۔تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ راستہ مبنی
برحق ہے اور ۸۵فیصد عوام میں مقبول بھی ہے تو ہم منزل آزادی سے دور کیوں
ہیں ۔۔۔؟جواب بڑا سیدھاہے ۔۔۔دوسرے افکار کے دعویدار و علمبرداروں کی طرح
آزادی پسند بھی حقیقی و نمائشی دو حصوں میں تقسیم ہیں ۔حقیقی آزادی پسند آج
بہت ہی نایاب جب کہ نمود نمائش کے متمنی بے شمار ہیں جنہوں نے اس مبنی برحق
سوچ کو بیحد نقصان پہنچایا ہے ۔مثلاًمیں ایک نیشنلست ہوں میراتعلق ایک
آزادی پسند تنظیم سے اور میرا ماننا ہے کہ منقسم ریاست کے تینوں حصے جن کے
باسیوں کے درمیاں ایک فکری تقسیم اور فاصلے بڑھا دئیے گئے جنہیں مٹا کر
وحدت کو بحال اور ایک آزاد و خود مختار مملکت کا احیا ء کرنے کے لئے قومی
نیشنلزم وہ واحد راستہ ہے جس پر چلتے ہم ایک مضبوط قوت بن کر اپنا کھویا
ہوا تشخص ونام و مقام دوبارہ بحال کر سکتے ہیں ۔یہ ایسی سوچ و دعویٰ ہے جسے
ہزارہا دھرتی پتروں نے اپنی جان پہ کھیل کر سچ ثابت کیا ،بلا شعبہ ایک ایسا
راستہ جس پر عشروں سے ایک تسلسل کے ساتھ قربانیاں دی جا رہی ہوں اور اس سوچ
میں بتدریج اضافہ ہوتا رہے تو وہ اس بات کا غماز ہے کہ وہی راستہ مبنی بر
حق ہے لیکن اس تحریک میں بہت سے ایسے منفی عوامل بھی ہیں جن کے باعث اس کے
نتیجہ خیز ہونے میں تاخیرہوئی جسمیں ہم جیسوں کاا ایک اہم کردار رہا ہے
جیسے۔۔ ۔میں پاک و ہندکے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں رائج نظام کو یکسر
مسترد کرتے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ غیر ملکی ،غیر منصفانہ و غیر
انسانی کالونئیل نظام اپنے اندر اتنی سکت نہیں رکھتا جو ریاستی عوام کے
مسائل حل کر سکے لیکن میں خود ہمہ وقت اس نظام کا حصہ بننے اورالیکشن لڑنے
کے لئے تیار ۔۔۔اور دوسروں کی مہیم میں حصہ بھی لیتا ہوں ان کے سٹیج پر
تقریر بھی کر لیتا ہوں اور اپنی تنظیم سے چھپ چھپا کے ووٹ بھی کاسٹ کر لیتا
ہوں اور پارٹی میٹنگز میں اس نظام کا حصہ بننے کی وقالت بھی کرتا ہوں
۔۔۔میں پاکستان کے زیر کنٹرول آزاد کشمیر وگلگت کے انتخابات کی تمام
سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہوں ،کسی پر احتراض نہیں کرتا لیکن بھارت کے زیر
انتظام کشمیر میں الیکشن کو ناجائز اور اس میں حصہ لینے والوں کو غدار
کہتاہوں ۔۔۔میں اسٹیج پر آؤں تو چیخ چیخ کر گلہ پھاڑ پھاڑ کر لوگوں سے کہتا
ہوں کہ میرے دیس کا کوئی بھی حصہ کسی دوسرے ملک کا آئینی حصہ نہیں ہے لیکن
جب کبھی موقع ملے تو کسی بھی ملک کی وفاداری کا حلف اٹھانے میں کوئی ججھک
محسوس نہیں کرتا یہاں تک کہ ان لوگوں کے ساتھ جو اس دیس کی تقسیم کے زمہ
دار ہیں اور اسے غیر ممالک کا حصہ کہتے ہیں کے ساتھ محض تصویر کھچوانے کو
اعزاز سمجھتا ہوں ۔۔۔جنہوں نے زاتی مفادات کی خاطر ریاستی عوام کے اقتدار
اعلیٰ و قومی غیرت کو رائیونڈ و گڑھی خدا بخش کے بد نام زمانہ مافیا کے
پاؤں تلے روند ڈالا سامنے آ جائیں تو بچھ بچھ جاتا ہوں اور ان کے جاہ و
جلال کو دیکھتے ہی اپنے نظریات کو بھول جاتا ہوں اور جب وہ سیاسی تنہائی کا
شکار ہوں تو انہیں اپنے کندھے بھی پیش کرتا ہوں اور اگر کوئی کسی بھارتی
لیڈر سے ملے تو اسے تہذیب سے عاری گالیوں سے نوازتا ہوں ۔۔۔تحریک کا موجودہ
کٹھن میدان بھارتی زیر قبضہ علاقہ ہے جہاں ہر در پر موت کے پہرے ہیں ،جہاں
سرفروشان وطن موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے جان ہتھیلی پہ لئے دہشت و صحرہ
میں دشمن سے نبرد آزما ہیں اور میں ۔۔۔جس نے زندگی میں تحریک آزادی کے نام
پر ایک مچھر نہیں مارا برسوں دیار غیر میں ڈالر ،پاونڈزاور درہم سمیٹنے میں
مصروف ہوں ایک گھنٹہ تحریک کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا اورفرست کے لمحات
میں سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دیس کی آزادی و خود مختاری کے لئے زندگانیاں وقف
کر نے والے ان سرفروشوں کی مسلسل کردار کشی کرنااور ان کے کام میں کیڑے
نکالنا اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔۔۔میں بحیثیت اخبار اونر فرنٹ پیج پر اسے
تحریک آزادی کا ترجمان لکھتا ہوں اور یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ یہ کشمیر کاز کے
لئے کام کرتا ہے لیکن چند روپوں کے اشتہارات کی خاطر یہ اخبارات روزانہ
پچانوے فیصد آزادی کے علانیہ دشمنوں کے بیانات ’’بھڑکوں‘‘اور قصیدہ گوئی سے
بھرے ہوتے ہیں ۔۔۔اگر میں دکاندار ہوں تو رائیونڈ ،گڑھی خدابخش میں کوئی
گدھا مر جائے تو کئی روز اپنی دکان بند رکھ سکتا ہوں لیکن مادر وطن کی غیرت
و ہمیت کی خاطر جان دینے والے کسی بہادر و جری جوان کو خراج عقیدت پیش کرنے
کے لئے چند ساعت بھی اپنے سیگریٹ و نسوار بیچنا بندنہیں کرتا ۔۔۔میں ناقد
ہوں مگر سال بھر سرینگر ومظفرآباد کے حواریوں جو آزادی کی راہ میں سب سے
بڑی رکاوٹ ہیں کے خلاف نہیں بولتا لیکن پورا سال آزادی پسنداور ان تنظیموں
کی قیادت ’’جو مجھے پسند نہیں ‘‘کے چہروں پر کیچڑ ملتا رہتا ہوں اور اسے ہی
تحریک آزادی سمجھتا ہوں ۔۔۔اوروں کو قانوں اخلاق و ڈسپلن کی تبلیغ کرتا ہوں
لیکن تنظیم سازی کے دوران خاص عہدہ نہ ملنے پر پارٹی توڑ دیتا ہوں ۔۔۔میں
فقط عہدے کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہوں لیکن اگر اسی طرح کوئی
دوسرا کرے تو اسے غداری کا خطاب دیتا ہوں ۔اسلئے یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے
کہ مسئلہ کشمیر کا حل نیشنلزم میں مضمر ہے لیکن اگر ایسی خصوصیات کے حامل
ہم جیسے نیشنلسٹ و سیاسی کارکنان نے اپنے اصلاح احوال کا سامان نہ کیا اور
یونہی اس عظیم سوچ کو داغدار کرتے رہے تو دوکروڑ کی آبادی والے اس غلام دیس
کے ڈیڑھ کروڑ لوگ شہید ہو جائیں تب بھی اس کی آزادی وخود مختاری کا خواب
کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا ۔ |