شہر کی فصلیوں پے دیو کا جو سایہ
تھاچاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی خاک ہو گیا آخر، راکھ ہو گیا آخر
طویل جدوجہد، صبر آزما انتظار، طرح طرح کے خدشات، جا و بے جا اندیشوں،
سیاست کی کہہ مکرنیوں، ہر لمحہ بدلتی صورتحال، مقامی دباﺅ اور غیروں کی
مداخلت کے باوجود سیاستدانوں، بیوروکریسی، کرپٹ صنعتکاروں سمیت 8041 افراد
کو فائدہ پہنچانے والا بدنام زمانہ قانون نیشنل ریکنلیسن آرڈیننس (این آر
او)قومی مفاہمتی آرڈیننس جسے بسا اوقات نیشنل رابری آرڈیننس بھی کہا جاتا
رہا سپریم کورٹ کے ایک تاریخی فیصلے کی روشنی میں 2سال2ماہ11روز بعد16دسمبر
2009کی رات کو اعلان کر کے کالعدم قرار دے دیا گیا۔ واضح رہے کہ یہ وہی دن
ہے جس روز پاکستان کو اپنوں کی نالائقیوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کے
باعث مشرقی بازو کی جدائی کا دکھ سہنا پڑا تھا۔
عدالت عالیہ کی جانب سے قومی مفاہمتی آرڈیننس کے متنازعہ اور غیر اخلاقی
قانون کے متعلق بالآخر فیصلہ سنا دیا گیا۔ سترہ رکنی فل بینچ نے اپنے فیصلے
میں این آر او کو ملکی مفاد کے خلاف، غیر آئینی اور متصادم قرار دیتے ہوئے
کالعدم قرار دے دیا، اس کے تحت ختم کئے جانے والے تمام کیسوں کو عدالتوں
میں واپس بھیجنے اور ازسرنو چلانے کا حکم بھی دیا۔ چھ گھنٹے سے زائد طویل
انتظار کے بعد سامنے آنے والے مختصر فیصلے میں نیب کو کہا گیا کہ وہ
عدالتوں میں مقدمات ری اوپن کرے۔ عدالت عالیہ نے سابق جنرل(ر) پرویز مشرف
کی جانب سے تشکیل دیا جانے والا قانون ختم کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں ختم
کئے جانے والے سابقہ کیسز زندہ کرتے ہوئے ملوث افراد کو ملزم قرار دے دیا۔
ان کیسوں میں فوجداری، کرپشن وغیرہ کے مقدمات تھے جنہیں 5اکتوبر 2007ء کی
سطح پر بحال کر دیا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ این آر
او1973ء کے آئین میں دی گئی برابری کی سطح سمیت آئین کی 8شقوں سے متصادم ہے،
نیب کے پراسیکیوٹر اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کو تبدیل کرنے کے بعد حکومت کو
ان آسامیوں پر نئی تعیناتیاں کرنے کا کہا گیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے
خلاف سوئس عدالتوں میں صدر آصف علی زرداری کے خلاف کالا دھن سفید کرنے کے
جو مقدمات ہیں انہیں بھی دوبارہ شروع کرنے جب کہ سوئس کیسز کی بحالی کے لئے
حکومت کو درخواست دینے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔
بدھ کو عدالت عالیہ میں آخری روز کیس کی سماعت شروع ہوئی تو فاضل عدالت کے
سامنے پٹیشنرز جن میں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد، لیاقت
بلوچ، مسلم لیگ ن، مبشر حسن، روئیداد خان کے وکلاء عبدالحفیظ پیرزادہ،
فاروق حسن اور دیگر پیش ہوئے جنہوں نے اپنے دلائل دئے۔ آخری روز عدالت نے
دلائل کی سماعت کے دوران سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم سمیت، قائم مقام اٹارنی
جنرل، سیکرٹری قانون، صدر کے پرنسپل سیکرٹری سمیت متعدد حکومتی شخصیات طلب
کئے گئے کو عدالت میں طلب کیا اور ان سے مختلف معاملات پر وضاحت چاہی۔ چیف
جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس جاوید اقبال، جسٹس سردار رضا، جسٹس میاں
شاکر اللہ جان، جسٹس طارق پرویز، جسٹس چوہدری اعجاز احمد، جسٹس سائر علی،
جسٹس محمود اختر شاہد صدیقی، جسٹس تصدق حسین، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس
جواد اویس خواجہ، جسٹس راجہ فیاض، جسٹس ناصر المک، جسٹس صاحب علی، جسٹس
شاہین صدیقی، جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس رحمت حسین جعفری، جسٹس غلام ربانی
سمیت سپریم کورٹ کے تمام سترہ ججز نے کیس کی سماعت کی۔
بدھ کے روز تین بجے تک کیس کی سماعت کی گئی، جس کے خاتمے پر یہ بتایا گیا
کہ ساڑھے چار بجے فیصلہ کا اعلان کیا جائے گا لیکن اس کے لئے چھ گھنٹے کے
قریب مشاورت کی گئی، اس موقع پر سپریم کورٹ بلڈنگ کا کمیٹی روم نمبر ایک
کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، پر پٹیشنرز میں سے قاضی حسین احمد، صدر کے ترجمان
فرحت اللہ بابر، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ن سمیت انفرادی پٹیشنرز کے وکیل
موجود تھے10بجے سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے این آر او کو ملکی
مفاد کے خلاف، غیر آئینی اور متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا، تمام
کیسوں کو عدالتوں میں واپس بھیجنے، ختم کئے گئے مقدمات ری اوپن کرتے ہوئے
ان میں ملوث افراد کو ملزم قرار دے دیا۔ ان کیسوں میں فوجداری، کرپشن وغیرہ
کے مقدمات تھے جنہیں 5اکتوبر 2007ء کی سطح پر بحال کر دیا گیا۔ جن8041
افراد کے خلاف کیس دوبارہ شروع ہونے ہیں ان میں 34 سیاستدان اور1248 بیورو
کریٹس شامل ہیں۔ این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں سب سے ذیادہ تعداد
سندھ کی ہے۔ ان مقدمات کی سماعت اب وہی عدالتیں کریں گیں جنہوں نے ان
ملزمان کو مذکورہ کیسوں میں بری کیا تھا۔
آخری روز کی کارروائی میں عدالت نے قاضی حسین احمد کے وکیل فاروق حسن کی
جانب سے سوئس عدالت کے این آر او کو تسلیم نہ کرنے اور لندن، میڈرڈ میں آصف
علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف کیسوں کی موجودگی کے انکشاف پر اٹارنی
جنرل سے سوئس کیس سے متعلق اوریجنل ریکارڈ طلب کیا جنہوں نے ریکارڈ کی
موجودگی سے انکار کر دیا۔ حقائق نہ بتانے پر عدالت نے قائم مقام اٹارنی
جنرل شاہ خاور پر شدید برہمی کا اظہار کیا جس پر انہوں نے معذرت کی۔ فاروق
حسن نے بتایا کہ بے نظیر زرداری کے خلاف لندن میڈرڈ میں بھی مقدمات تھے جن
کے کاغذات عدالت کو فراہم کی گئی دستاویزت میں شامل نہیں تھے۔ جس پر عدالت
نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ جمع کروائے گئے کاغذات کی سچائی کے متعلق پوری
ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ ہدایات لینے کے بعد ہی
کچھ کہہ سکتے ہیں۔
بعد ازاں صدر کے پرنسپل سیکرٹری سلمان فاروقی اور سیکرٹری قانون کو طلب کیا
گیا جنہوں نے کہا کہ وزارت قانون کے رکارڈ میں سوئس کیس ختم کرنے کا ریکارڈ
نہیں ہے، سیکرٹری قانون نے بتایا کہ اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد نے نوت
لکھ کر یہ تحریر کیا تھا کہ سپریم کورٹ میں این آر او کا مقدمہ زیر سماعت
ہے اس لئے وزرات قانون کوئی ہدایات نہیں دے سکتی۔ اس موقع پر عدالت کے
استفسار پر یہ بھی بتایا گیا کہ سوئٹزر لینڈ والے کیسز کے خاتمے کے متعلق
کہیں کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے جس پر عدالت نے یہ جواب تحریری طور پر جمع
کروانے کے لئے کہا۔ سلمان فارقی نے تحریری طور پر یہ جمع کروایا کہ ایسے
کوئی احکامات موجود نہیں جن کی بنیاد پر سوئٹزر لینڈ والے کیس ختم کئے جاتے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ اس وقت آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے
کہا تھا کہ کیس واپس لے لئے جائیں۔ جس پر ملک قیوم نے مجاز اتھارٹی کی
اجازت کے بغیر یہ اقدام کیا تھا۔ معاملہ الجھنے کے بعد وضاحت کے لئے سابق
اٹارنی جنرل ملک قیوم کو طلب کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ نیب
کے عہدیدار بھی جنیو گئے تھے، ملک قیوم نے بتایا کہ وہ ایک بار جنیو گئے
لیکن کسی عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ہو سکتا ہے لندن میڈرڈ کے مقدمات نیب نے
واپس لئے ہوں۔ عدالت نے صورتحال واضح ہونے پر ملک قیوم کے متعلق کہا کہ اسے
سوائس عدالتوں سے مقدمات واپس لینے کا کوئی اختیار نہیں تھا اس کے خلاف
کارروائی کی جائے۔ چئیرمین نیب نے سپریم کورٹ میں پیش کردہ ان ملزمان کی
فہرستوں پر دستخط کئے جن کے کیس اس قانون کے تحت معاف کئے گئے تھے۔ واضح
رہے کہ ان فہرستوں کے مطابق نیب نے کرپشن کے3975کیسز بنائے تھے، سب سے
زیادہ کیس بزنس مینوں اور بیوروکریٹس پر بنے، بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل
منصور الحق، فضائیہ کے سابق ائیر وائس مارشل وقار عظیم کے نام بھی ان میں
شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے 64، مسلم لیگ کے82 ایم کیو ایم سمیت دیگر 53
سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ آصف زرداری کے خلاف این آر او کے تحت
8مقدمات ختم کئے گئے۔ ایم کیو ایم کے خلاف مقدمات بھی بحال ہوئے ہیں۔ کراچی
ایسٹ میں2464، کراچی ویسٹ سے 5163، ساﺅتھ میں166 سمیت کل7793 افراد کو اس
کا فائدہ ہوا جن میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین، موجودہ وفاقی وزراء
ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، عمران فاروق،
وسیم اختر اور کنور خالد یونس شامل ہیں۔ الطاف حسین کے خلاف72مقدمات جن میں
31قتل ،3اغواء اور11اقدام قتل کے، پارلیمانی لیڈر فاروق ستار کے خلاف قتل
کے 5 اقدام قتل کے 11 اور اغواء کے 3، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے
خلاف اقدام قتل کا ایک، وفاقی وزیر برائے جہاز رانی بابر غوری کے خلاف قتل
کے 4 مقدمات، شعیب بخاری کے خلاف قتل کے 13 اقدام قتل کے 3 اور بلوے کے
5مقدمات، مرکزی رہنما عمران فاروق کے خلاف قتل کے 7،اقدام قتل کے 2اور
اغواءکے3 مقدمات تھے ۔تاہم ایم کیو ایم کا موقف یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے این
آر او کے خلاف تھے، یہ مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں جن کا سامنا کیا جائے گا۔
دیگر بڑے ناموں میں امریکی میں پاکستانی سفیر حسین حقانی، بریگیڈئیر (ر)اسلم
حیات، اے آر صدیقی، سعید مہدی، احمد صادق، جاوید قریشی، بریگیڈئیر (ر)امتیاز
احمد، ایم این اے حاجی اکبر خان، جہانگیر بدر، ملک مشتاق اعوان، رانا نزیر،
بیگم نصرت بھٹو، طارق انیس، چوہدری عبدالحمید، نواب یوسف تالپور، انور سیف
اللہ خان، احمد مختار، آفتاب شیرپاﺅ اور سردار منصور لغاری شامل ہیں۔ ری
اوپن ہونے والے کیسز میں تین ریفرنس ریف فیملی کے خلاف بھی ہیں 2ارب روپے
مالیت کی کرپشن کے ان ریفرنسز میں میاں نواز شریف، بھائیوں عباس شریف، وزیر
اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، ان کے والد میاں محمد شریف(مرحوم) والدہ شمیم احمد،
حمزہ شہباز، حسین نواز، بیٹی مریم نواز، صبیحہ عباس، کلثوم نواز، بزنس
پارٹنرز مختار حسین، کمال قریشی، ہارون پاشا اور مسلم لیگ نون کے رہنما
سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ملزمان نامزد ہیں۔ راولپنڈی کی احتساب
عدالت میں درج ان ریفرنسز میں اسحاق ڈار شریف فیملی کے خلاف وعدہ معاف گواہ
کے طور پر شامل ہیں۔
روئیداد خان کے وکیل حفیظ پیرزادہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ این آر او کا
سرے سے وجود ہی نہیں تھا، جان بوجھ کر سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہ کرنا
بھی آئین سے انحراف ہے۔
این آر او کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ
این آر او قرآنی تصور کے بھی خلاف ہے۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے معلومات کی
عدم فراہمی پر انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس معلومات کے اور بھی ذرائع ہیں،
جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا بلوچ لیڈر اور الطاف حسین کو بلا کر نئی
شروعات کی جانی چاہئے تھیں، اکبر بگٹی کے متعلق انہوں نے کہا کہ بوڑھے بلوچ
لیڈر کو غار میں بے دردی سے مارا گیا، کیا این آر او کے تحت درج کیسز کے
متعلق لواحقین سے پوچھا گیا کہ مقدمات ختم ہونے پر ان کے دل پر کیا گزرتی
ہوگی، وہ کیا سوچتے ہوں گے، اگر این آر او کو مفاہمتی آرڈیننس کہا جاتا ہے
تو بلوچ لیڈر ملک سے باہر ہیں پھر قانونی مفاہمت کس سے کی گئی۔ جسٹس جیلانی
نے کہا کہ عام معافی صرف سیاسی نوعیت کے مقدمات پر دی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس
نے کہا کہ عدالت کیسے کرپشن کو جائز قرار دے سکتی ہے، حلق کے مطابق جج
پابند ہیں کہ وہ آئین کا دفاع کریں، زبانی احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوتا،
پارلیمنٹ کو بھی آئین کے بنیادی خدوخال تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے۔ مختلف
مواقع پر وضاحت طلب کرنے پر، عدالتی معاون اللہ نواز نے کہا کہ وہ قانون
جائز نہیں جس کا فائدہ ریاست کے افراد کو نہ ہو، قانونی معاون نے کہا کہ
این آر او کئے تحت معافی دینے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ عدالتی معاون
شائق عثمانی نے بتایا کہ قومی اسمبلی این آر او منظور کرنے سے انکار کر چکی
ہے، دوبارہ سماعت ہو تو ملزم کی جائیداد ضبط کر لی جائے۔ این آر او کبھی
قانون رہا ہی نہیں، این آر او کیس میں جائیداد ضبطی میں مشکل ہو سکتی ہے۔
اعتزاز احسن نے کیس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ایک سو
بیس دنوں کا دفاع بھی نہیں کیا۔ حکومت کو عدالت میں اپنا مؤقف پیش کرنا
چاہئے تھا، پارلیمنٹ نے این آر او کو دوام نہیں بخشا، حکومت کی نمائندگی
ہوتی تو عدالت کو آسانی ہوتی باہر بیٹھ کر حکومت کے دباﺅ کو سمجھا نہیں جا
سکتا۔ سابق وزیر قانون افضل سندھو کا کہنا تھا کہا کہ دفاع نہ کرنے کا
فیصلہ فرد واحد کا نہیں تھا بلکہ یہ مشترکہ طور پر طے کیا گیا تھا جس کے
تحت این آر او کا دفاع نہیں کیا گیا۔
فیصلہ کے اعلان کے بعد نیب ہیڈ آفس میں اعلیٰ حکام کا اجلاس ہوا جس میں یہ
طے کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تمام مقدمات کی پیروی کی جائے
گی۔ نیب کے تحت احتساب عدالتوں میں جو اس فیصلے کے نتیجے میں دوبارہ سے
فعال ہو گئی ہیں2014کیس بند کر دئے گئے تھے۔ واضح رہے کہ این آر او کے نفاذ
سے قبل نیب کے تحت2121مقدمات زیرسماعت تھے جن میں پنجاب میں 921،سندھ
میں990،سرحد میں17،بلوچستان میں 26اورراولپنڈی کی عدالتوں میں 167مقدمات
شامل تھے۔وزپریم کورٹ نے احتساب عدلاتوں میں چلائے جانے والے مقدمات کی
نگرانی کے لئے سپریم اور ہائی کورٹ سکے مانیٹرنگ سیل بھی قائم کر دئے
ہیں۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس یا ان کی جانب سے نامزد کردہ کوئی بھی جج اور
ہائی کورٹس میں بھی چیف جسٹس یا ان کے نامزد کردہ جج ان کیسز کی مانیٹرنگ
کریں گے۔ عدالت نے سیکرٹری قانون کو ہدایت کی کہ وہ ان مقدمات کی تیزی سے
سماعت کے لئے احتساب عدالتوں کی تعداد بڑھائیں اور اس ضمن میں فوری اقدامات
کریں۔
حالیہ فیصلہ آنے کے بعد صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے صدارتی استعفی کی
اطلاعوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا، فیصلہ چیلنج ہے جن کا سامنا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ استعفیٰ نہ
دینے کا سبب صدر کو آئین کے تحت حاصل استثنی ہے۔ جب کہ میڈیا رپوٹس کے
مطابق بیرون ملک عدالتوں میں دائر کیسز میں صدر کو کوئی استثنی حاصل نہیں
ہے۔ صدر اپنی موجودہ حیثیت میں 17ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کروا کر ایک ایسے
صدر کا روپ دھار چکے ہیں جس پر کرپشن کے مقدمات بحال ہو چکے ہیں۔تاہم حیرت
انگیز امر یہ ہے کہ 5اکتوبر2007ء کی پوزیشن بحال ہوتے ہی سب سے ذیادہ نقصان
موجود حکومتی شخصیات میں سے رحمٰن ملک کو ہوا ہے جو وزیر داخلہ ہونے کے
باجود اس پوزیشن میں آگئے ہیں کہ انہیں روپوشی یا فرار اختیار کرنا ہو گا
بصورت دیگر پولیس انہیں کسی بھی وقت گرفتار کر سکتی ہے۔ مقدمات کی بحالی سے
ان کی موجودہ پوزیشن بھی اسلئے متنازعہ ہو گئی ہے کہ اب بطور سنیٹر ان کا
انتخاب آئین کے منافی امر بن گیا ہے۔ تاہم وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کا
کہنا ہے کہ الزامات ثابت ہو جائیں تو استعفیٰ دے دوں گا۔نیب کے الزامات سے
بچنے کے لئے ملک چھوڑ کر نہیں جا رہا عدالتوں کا سامنا کرنے کو تیار ہوں۔
این آر او کے متعلق فیصلے کے انتظار کے دوران سندھ کے مختلف علاقوں بشمول
کراچی میں ہنگامہ آرائی بھی دیکھنے میں آئی، ٹھٹہ میں قومی شاہراہ بلاک کر
دی گئی، بدین میں ہوائی فائرنگ کی گئی جب کہ ٹنڈو آدم، سکھر٬ جامشورو،
سانگھڑ میں بھی کاروبار بند کر دیا گیا۔ کراچی میں یہ سلسلی کچھ زیادہ رہا
جہاں ایک جانب تو اے این پی رہنما کے گھر پر فائرنگ کی گئی وہیں دوسری جانب
مختلف علاقوں میں دکانیں بند کروا دی گئیں۔ بے چینی اور افواہوں کے سبب
سڑکوں سے ٹریفک بھی غائب ہوگا۔ جب کہ رات دیر گئے تک شہری اخبارات کے دفاتر
فون کر کے فیصلے کے متعلق مختلف استفسارات کرتے رہے۔
این آر او کے خلاف 14درخواستوں کی سماعت7روزتک جاری رہی، درخواست گزاروں
میں قاضی حسین احمد، ڈاکٹر مبشر حسن، روائیداد خان، اسفند یار ولی خان،
انور سیف اللہ، فیروز شاہ گیلانی، فضل جٹ کے علاوہ پانچ قیدی شوکت علی،
فیروز خان، ذوالقرنین شہزاد، عابد حسین اور منظور احمد شامل تھے۔ درخواستوں
کی سماعت کے دوران وکلاء میں سے اکرام چوہدری ایڈووکیٹ،سلمان راجہ،
عبدالحفیظ، فاروق حسن، طارق اللہ، اشتر اوصاف اور کمال اظفر ایڈووکیٹ پیش
ہوئے۔ حکومت کی جانب سے قائم مقام اٹارنی جنرل شاہ خاور اور چاروں صوبائی
ایدووکیٹ جنرلز بھی پیش ہوئے۔ عدالت عظٰمی نے پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف
جسٹس سردار خان اور پنجاب کے سابق چیف جسٹس میاں اللہ نواز سے معاونت حاصل
کی۔ |